دلی فسادات کے چار سال بعد۔۔۔
یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئے 18 ملزمین ابھی بھی انصاف کے منتظر!
نئی دلی ،دعوت نیوز ڈیسک
کئی کوششوں کے باوجود ملزمین کی ضمانت کی درخواستیں متعدد بار مسترد ہو چکی ہیں
چار سال قبل فروری 2020 میں شمال مشرقی دلی کی سڑکیں بدترین فرقہ وارانہ جھڑپوں سے لرز اٹھی تھیں، جس میں 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ تین دن تک جاری رہنے والے فسادات نے شہر کے کھجوری خاص، بھجن پورہ، گوکل پوری اور جعفرآباد علاقوں میں بھیانک تباہی مچا دی تھی۔ بہت سے گھروں کو تباہ کر دیا گیا، دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا تھا ساتھ ہی آٹھ مساجد، دو منادر، دو مدرسے اور ایک درگاہ بھی تشدد کا نشانہ بنے تھے۔ یہ فسادات شہر کے مختلف حصوں میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف مہینوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے بعد ہوئے تھے۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق دلی پولیس نے ان فسادات کے سلسلے میں 2,619 لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 2,094 لوگ فی الحال ضمانت پر باہر ہیں اور 172 ابھی جیل میں بند ہیں۔
یاد رہے کہ کل 758 فرسٹ ایف آئی آریں درج کی گئی تھیں۔ ان میں سے 2020 میں درج کی گئی 59 ایف آئی آروں میں 2020 کے فسادات میں مبینہ طور پر ’بڑی سازش‘ کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں 18 لوگوں پر فرد جرم عائد کی گئی اور دلی پولیس کے اسپیشل سیل کی طرف سے ان کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ملزمین پر تعزیرات ہند (آئی پی سی) 1860 اور سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) 1967 کی مختلف دفعات کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے۔ چار سال بعد ان میں سے چھ افراد ضمانت پر باہر ہیں جبکہ باقی 12 جیلوں میں بند ہیں۔ گزشتہ 48 مہینوں کے دوران کئی بار ان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔
دلی فسادات کے چار سال بعد یو اے پی اے کے تحت ایف آئی آر شدہ ملزمین کا ایک جائزہ پیش ہے:
خالد سیفی، 42: ‘یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ’ کے رکن
خالد سیفی کو 21؍ مارچ 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے خلاف دلی فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں تین ایف آئی آر درج کی گئی تھیں جبکہ سیفی کو ان میں سے دو مقدمات میں ضمانت مل گئی تھی، وہ ایف آئی آر/2020 59 کی وجہ سے جیل میں ہیں۔ ان کی ضمانت کی درخواست کو پہلی بار ٹرائل کورٹ نے 8؍ اپریل 2022 کو مسترد کر دیا تھا۔ اب اس کیس کی سماعت دہلی ہائی کورٹ میں نومبر 2023 میں بنچ میں تبدیلی کے بعد نئے سرے سے ہو رہی ہے۔
6؍ فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران جب ان کے وکیل ربیکا جان نے کہا کہ سیفی کو ٹرائل کورٹ میں چارج کیے بغیر حراست میں رکھا گیا ہے تو ڈویژن بنچ نے بھی استغاثہ کی جانب سے ’بظاہر نہ ختم ہونے والے دلائل‘ پیش کرنے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ ربیکا جان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سیفی کو حراست میں سخت تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ وہ 1,450 دن سے زائد ایام جیل میں گزار چکے ہیں۔
شرجیل امام، 35: بہار کے طالب علم کارکن
شرجیل امام، ایک آئی آئی ٹی گریجویٹ ہیں جو بعد میں جے این یو میں تاریخ کے طالب علم ہوئے، سی اے اے کے احتجاج کے دوران 16؍ جنوری 2020 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ان کی تقریر وائرل ہونے کے بعد ان پر تشدد بھڑکانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ انہیں 28؍ جنوری 2020 کو گرفتار کیا گیا اور تقریباً سات ماہ بعد ان پر نئے جرائم کا الزام عائد کیا گیا اور ایف آئی آر 2020/59 میں شامل کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ ان کی ضمانت کی عرضی دو سال پہلے مسترد کر دی گئی تھی۔ 17؍ فروری کو، سی آر پی سی کی دفعہ 436 اے کے تحت قانونی ضمانت کی درخواست کو دلی کی ایک عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔ جبکہ قانون کہتا ہے سی آر پی سی کی دفعہ 436 اے کے مطابق کسی بھی شخص کو اس وقت حراست سے رہا کیا جا سکتا ہے جب اس نے جرم کے لیے مقرر کردہ سزا کا نصف سے زیادہ حصہ جیل میں گزارا ہو۔ جبکہ شرجیل امام کے وکیل نے استدلال کیا کہ چونکہ UAPA کی دفعہ 13 کے تحت مقرر کردہ سزا سات سال ہے اور امام نے اس کا نصف سے بھی زیادہ حصہ یعنی چار سال جیل میں گزار چکے ہیں (اس پر سپریم کورٹ کے اسٹے کے بعد کی بغاوت شامل نہیں ہے) اس لیے وہ قانونی ضمانت کے اہل ہیں۔
الزامات عائد کرنے کے خلاف شرجیل امام کی اپیل 8؍ مارچ کو دلی ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہے۔ وہ تقریباً 1500 دن سےزائد ایام جیل میں گزار چکے ہیں۔
میران حیدر، 32: آر جے ڈی یوتھ ونگ لیڈر
میران حیدر، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی اسکالر اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی دلی یونٹ کے یوتھ ونگ کے صدر بھی تھے۔ ان کو یکم اپریل 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ دلی پولیس نے ان پر فسادات کے لیے فنڈ دینے کا الزام لگایا۔ ان کی ضمانت کی درخواست کو دلی کی عدالت نے 5؍ اپریل 2022 کو مسترد کر دیا تھا اور وہ ابھی بھی دلی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔
نومبر 2023 میں بنچ میں تبدیلی
جسٹس سدھارتھ مردول کو، جنہیں منی پور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ترقی دی گئی، انہوں نے اس سال اس معاملے کی دوبارہ سماعت کی ہے۔ حیدر تقریباً 1400 دن سےزائد ایام جیل میں گزار چکے ہیں۔
عمر خالد، 36: جے این یو کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈر
عمر خالد کو 13 ستمبر 2020 کو یو اے پی اے کے تحت 2020 کے دلی فسادات میں ’کلیدی سازش کار‘ ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پہلے 24؍ مارچ 2022 کو ایک ٹرائل کورٹ اور پھر 18 اکتوبر 2022 کو دلی ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی، مگر خالد کو 12 دسمبر 2022 کو سخت احکامات کے ساتھ صرف ایک ہفتے کی عبوری ضمانت دی گئی تھی۔ انہوں نے گزشتہ سال اپریل میں سپریم کورٹ کے سامنے ایک خصوصی رخصت کی درخواست (SLP) دائر کی تھی لیکن معاملہ کم از کم 13 بار ملتوی کیا گیا اس کے بعد سے اس کی کوئی اہم سماعت نہیں ہوئی۔ 14؍ فروری کو، خالد نے "حالات میں تبدیلی” کی وجہ سے اپنی ضمانت کی درخواست واپس لے لی اور کہا کہ وہ ٹرائل کورٹ میں دوبارہ ضمانت کی درخواست دائر کریں گے۔ انہوں نے تقریباً 1,250 دن سے زائد ایام جیل میں گزارے ہیں۔
گل فشاں فاطمہ، 31: سماجی کارکن اور ریڈیو جاکی
گل فشاں فاطمہ، دلی یونیورسٹی کی ایک سابق طالبہ، ایم بی اے گریجویٹ اور ایک ریڈیو جاکی کو 9؍ اپریل 2020کو گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں دلی فسادات سے منسلک چار مقدمات میں گھسیٹا گیا تھا لیکن ایف آئی آر 2020/59 کے علاوہ تمام میں ضمانت مل گئی ہے۔ دو ماہ کی گرفتاری کے بعد، ان کے والدین نے دلی ہائی کورٹ میں’ ہیبیوس کارپس‘ کی درخواست دائر کی تھی لیکن اسے بھی خارج کر دیا گیا تھا۔
اکتوبر 2020 اور پھر مارچ 2022 میں انہیں ضمانت سے انکار کر دیا گیا۔ ایک سال بعد جسٹس سدھارتھ مردول اور رجنیش بھٹناگر کی ڈویژن بنچ نے دلی ہائی کورٹ میں ان کی طرف سے دائر کی گئی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ لیکن نومبر 2023 میں بنچ کی تبدیلی کی وجہ سے اس سال اس معاملے کی دوبارہ سماعت ہوئی ہے۔ گل افشاں فاطمہ تقریباً 1400 دن سے زائد ایام جیل میں گزار چکی ہیں۔
شفاءالرحمان، 46: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق طلباء ایسوسی ایشن کے صدر
شفاءالرحمان کو 26؍ اپریل 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ دو سال بعد ٹرائل کورٹ نے ان کی ضمانت مسترد کر دی تھی۔ 9؍ جنوری کو، دلی ہائی کورٹ نے دلی پولیس سے کہا کہ شفاءالرحمان کے کردار کو 2021 میں عدالت کی طرف سے ضمانت دینے والوں کے کردار سے ممتاز کرنے کے لیے ایک تقابلی چارٹ داخل کرے۔ انہوں نے 1,400 سے زیادہ دن جیل میں گزارے ہیں۔
تسلیم احمد، 36: ایجوکیشن کنسلٹنٹ
تسلیم احمد کو 24؍ جون 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس کے بعد سے قید ہیں۔ ان کی ضمانت کی درخواست پہلے دلی کی ایک عدالت نے 16؍ مارچ 2022 کو مسترد کر دی تھی اور پھر جمعرات 22؍ فروری کو جب ایڈیشنل سیشن جج سمیر باجپائی نے پچھلے حکم کے پچھلے مشاہدات کی توثیق کی کہ تسلیم احمد کے خلاف ’بڑی سازش‘ کیس میں الزامات ہیں۔
تسلیم احمد کم از کم 1,337 دنوں سے زائد ایام سےجیل میں ہیں۔
طاہر حسین، 42: سابق AAP کونسلر
طاہر حسین کو 6 اپریل 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ جولائی 2022 میں دلی فسادات سے متعلق پانچ دیگر مقدمات میں ضمانت ملنے کے باوجود ایف آئی آر 2020/59 کے تحت قید میں ہیں۔ وہ تقریباً 1400 سے زائد دنوں سے جیل میں ہیں۔
سلیم ملک: کارکن
سلیم ملک کو 25؍ جون 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا اور دلی کی ایک عدالت نے اکتوبر 2022 میں ان کی ضمانت یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ انہوں نے فسادات کی منصوبہ بندی کے لیے ’سازشی میٹنگز‘ میں شرکت کی تھی۔ پھر ایک ماہ بعد دلی ہائی کورٹ میں اپیل درج کی گئی۔ پچھلے سال دسمبر میں انہوں نے عبوری ضمانت کی اپیل کی تھی۔ اپنے ایک بیٹے کی فیس ادا کرنے اور دوسرے سے ملنے کے لیے جو مبینہ طور پر تپ دق کا علاج کروا رہا ہے لیکن اسے ٹرائل کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ 9؍ جنوری کو دلی ہائی کورٹ نے دلی پولیس سے سلیم ملک کے کردار کو ان لوگوں سے ممتاز کرنے کے لیے تقابلی چارٹ داخل کرنے کو کہا جنہیں عدالت نے 2021 میں ضمانت دی تھی۔ انہوں نے تقریباً 1,340 دن سے زیادہ ایام جیل میں گزارے ہیں۔
اطہر خان، 27: دلی کی ایک ٹیلی کام کمپنی کے سابقہ کارکن۔
اطہر خان کو 2؍ جولائی 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اکتوبر 2022 میں ٹرائل کورٹ کے مسترد ہونے کے بعد دلی ہائی کورٹ میں ان کی ضمانت کی درخواست زیر التوا ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں بنچ کی تبدیلی کے بعد اس معاملے کی نئے سرے سے سماعت کی جا رہی ہے۔ وہ 1,330 دن جیل میں گزار چکے ہیں۔
شاداب احمد، 29: کمپیوٹر گریجویٹ
شاداب احمد، جو مبینہ طور پر دلی میں فیکٹری سپروائزر کے طور پر کام کرتےتھے، ان کو 20؍ مئی 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے وہ جیل میں ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں انہوں نے طبی بنیادوں پر 90 دن سے کم کے لیے عبوری ضمانت کی اپیل کی تھی لیکن عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ان کی ’جیل میں تپ دق کی مناسب دیکھ بھال‘ کی جا رہی تھی اور ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ وہ 1,373 دن جیل میں گزار چکے ہیں۔
سلیم خان، 50: گارمنٹ ایکسپورٹ یونٹ کے مالک
سلیم خان، جو مبینہ طور پر اسی علاقے میں گارمنٹ ایکسپورٹ یونٹ کے مالک ہیں جہاں فسادات پھوٹ پڑے تھے، انہیں 13 مارچ 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ دو سال بعد ٹرائل کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ گزشتہ سال نومبر میں بنچ میں تبدیلی کے بعد دلی ہائی کورٹ میں ان کی ضمانت کی درخواست پر نئے سرے سے سماعت ہو رہی ہے۔
سلیم خان 21 نومبر 2023 کو ڈینٹل کلینک کے قیام میں اپنی بیٹی کی مالی مدد کرنے کے لیے دیے گئے دو ہفتوں کے عبوری انحصار کے علاوہ 1,335 دن سے جیل میں ہیں۔
ان ملزمین کے علاوہ بعض ایسے بھی افراد ہیں جنہیں بعض بنیادوں پر ضمانتیں ملی ہیں ۔ان کی تفصیلات ذیل میں درج ہیں :
محمد فیضان خان جو موبائل سیلز مین تھے، انہیں 29؍ جون 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا، مگر چار ماہ بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ صفورا زرگر، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ایک طالبہ کارکن کو 13؍ اپریل 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا اور تقریباً دو ماہ بعد انہیں انسانی بنیادوں پر ضمانت مل گئی تھی، کیونکہ وہ اس وقت چھ ماہ کی حاملہ تھیں۔ کانگریس کی سابق کونسلر اور ایڈووکیٹ عشرت جہاں کو 21؍ مارچ 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا اور دو سال جیل میں گزارنے کے بعد سیشن عدالت نے ضمانت دی تھی۔ جے این یو کے ریسرچ اسکالرز اور صنفی حقوق کے کارکن، جنہوں نے ’پنجرہ ٹوڑ‘ تحریک کی مشترکہ بنیاد رکھی، نتاشا نروال اور دیونگنا کلیتا کو ایک سال سے زیادہ جیل میں گزارنے کے بعد 15 جون 2021 کو دلی ہائی کورٹ نے ضمانت دی تھی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق طالب علم کارکن اور اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے رکن آصف اقبال تنہا کو 19 مئی 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا اور تقریباً 13 ماہ بعد دلی ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی۔
افسوس کی بات ہے کہ دلی فسادات اور دیگر معاملات میں جتنے بھی مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ان میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کا کوئی قصور ہی ثابت نہیں ہوا ہے اور جب ضمانت دینے کی بات آتی ہے تب بھی مختلف بہانوں کے تحت ان کی ضمانتیں ضبط کرلی جاتی ہیں اور انہیں ہنوز قید بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہنا پڑتا ہے۔ ایسے میں ہمیں چاہیے کہ ہم بے قصور لوگوں کے سلسلے میں قانونی جدوجہد کریں اور بے قصوروں کی رہائی کے لیے کوشش کریں ۔
(بشکریہ : آکریتی ہنڈا ،دی کوئینٹ)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 مارچ تا 9 مارچ 2024