دلت کارکنان نے راجستھان ہائی کورٹ کے احاطے سے ’’منو‘‘ کا مجسمہ ہٹانے کا مطالبہ کیا
نئی دہلی، جون 26: 600 سے زائد دلت اسکالرز، دانشوروں اور ان کے خیر خواہوں نے راجستھان ہائی کورٹ کے احاطے سے ’’منو‘‘ کے مجسمے کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر 15 اگست تک اس مجسمے کو نہیں ہٹایا گیا تو وہ ایک احتجاج شروع کردیں گے۔
اس سلسلے میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو بھی ایک خط بھیجا گیا ہے۔
کارکنوں کا موقف تھا کہ عدالت کے احاطے کے اندر ’’منو‘‘ کا مجسمہ ’’ہندوستانی آئین اور دلتوں کی توہین‘‘ ہے۔
گجرات میں نچلی سطح کی ایک دلت تنظیم نوسرجان ٹرسٹ کے مارٹن میکوان کے ذریعے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے ’’ہم یہ خط اس لیے لکھ رہے ہیں، کیوں کہ ہمیں یقین ہے کہ راجستھان میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کی حیثیت سے، جس کی وہاں حکومت ہے، آپ کے پاس ایسا قدم اٹھانے کا مطلوبہ اختیار ہے جو مساوات کے لیے دلت تحریک کو مضبوط بنانے میں تاریخی ثابت ہوگا۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’منو‘‘ کا مجسمہ ’’ہندوستانی آئین کے ساتھ ساتھ دلت، خواتین اور برابری اور انصاف پر یقین رکھنے والے تمام لوگوں کی بھی توہین ہے۔‘‘
ہندو تعلیمات کے مطابق ’’منو‘‘ بنی نوع انسان کا پیش گو ہے اور متنازعہ ’’منو اسمرتی‘‘ کا مصنف ہے، جو مختلف سماجی گروہوں کے حقوق اور فرائض کی تائید کرتا ہے۔
میکوان نے لکھا ہے کہ یہ مجسمہ ایک جابرانہ ماضی کی علامت ہے اور ہندوستان میں دلتوں اور خواتین کی حقیقت کو نقصان پہنچانے والا ہے، جن کی زندگیاں ابھی تک منواسمرتی میں منو کے ذریعے بتائے گئے متعصبانہ امتیازی قوانین سے متاثر ہیں۔
نوسرجان ٹرسٹ کے ممبروں نے راجستھان میں کانگریس حکومت کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر 15 اگست تک اس مجسمے کو نہیں ہٹایا گیا تو وہ احتجاج شروع کریں گے۔