محمد اکرم علی، جدہ
تحریک اسلامی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا دین ہماری زندگی اور ہمارے معاشرے میں قائم ودائم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کا دین غلبہ چاہتا ہے اور اس کی شروعات انسانوں کے عقیدہ وفکر میں تبدیلی کی جدوجہد سے ہوتی ہے اسی کو قرآنی تعلیمات اور انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں کی روشنی میں ’دعوت‘ کہتے ہیں۔ یہ دعوت سارے انسانوں کے لیے ہے چاہے وہ زمین کے کسی بھی حصے میں قیام پذیر ہوں۔ یہ دعوت بے پناہ فیوض وبرکات اور دنیا وآخرت میں عظیم الشان کامیابی کی بشارتیں وضمانتیں دینے والی ہے۔ یہ دعوتی جد وحہد ہی ایک واحد ذریعہ ہے جس سے:
• انسان اس زمین پر اپنی اصل حیثیت جان سکتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کا بندہ ہے
• اس کائنات کا خالق، مالک، آقا ومعبود صرف اللہ وحدہ لا شریک ہی ہے اور سارے انسانوں کو صرف اور صرف اللہ تعالی ہی کی عبادت کرنی چاہے– ان اہم باتوں کا علم بھی صرف اس دعوت ہی کے ذریعہ سے حاصل ہو سکتا ہے۔
• دنیا میں رسولوں کی اطاعت کی جائے اور رسولوں کے گزر جانے کے بعد کیسے انسانوں کو اپنا رہنماء وقائد بنایا جائے اس دعوت کے ذریعہ سے ہی لوگوں کو بتایا جا سکتا ہے۔
• اس دنیا میں انسان کا اصل دشمن کون ہے اس دعوت کے ذریعہ ہی سے جانا جا سکتا ہے۔
زمین کے کسی بھی حصہ میں اگر اس دعوت کا اہتمام نہ ہو تو وہ حصہ ظلم وفساد سے بھر جاتا ہے اور وہاں بسنے والے انسان اسلام جیسی عظیم نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی نہیں چاہتا کہ ایسا ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالٰی رحمٰن ورحیم ہے۔ بڑی رحمت، محبت وشفقت سے انسان کی تخلیق فرمائی ہے اور اسی کے لیے دنیا اور آخرت کی نعمتوں کو وجود بخشا۔ دنیا کی نعمتیں تو اللہ تعالٰی اپنی مشیت سے ہر ایک کو دے رہا ہے لیکن آخرت کی وہ عظیم نعمتیں جن کے سامنے دنیا کی نعمتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، اللہ تعالی صرف انہیں کو عطا فرمائے گا جو اس دعوت کو قبول کریں گے اور جن کو اللہ تعالی کی طرف سے اس دعوت کی علمبرداری نصیب ہوئی ہو ان کے لیے یہ بڑا اعزاز ہے کیونکہ یہ کام اللہ تعالٰی کے نزدیک سب کاموں سے زیادہ پسندیدہ اور بہترین کام ہے۔ سارے انسانوں کی دنیا اور آخرت میں کامیابی کا دار ومدار صرف اسی دعوت پر منحصر ہے۔ دعوت کے اس کام کو انجام دینے کے لیے قرآن مجید اور سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ جس درجہ گہرا ہوگا اسی درجہ میدانِ عمل میں کارِ دعوت کو صحیح رخ ملے گا۔
اب رہا یہ سوال کہ اس دعوت کو انجام دینے کے لیے کم از کم قابلیت کیا ہونی چاہیے تو اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ میری طرف سے پہنچا دو اگرچہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو ’’بلغوا عنی ولو آیۃ‘‘۔ ہر مسلمان جو توفیقِ رب سے قرآن کا اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کا جتنا علم حاصل کر پایا اور پھر اللہ تعالٰی کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے اس پر خود عمل کرتا رہا اور ان باتوں کو اللہ کے ان بندوں تک پہنچاتا رہے جو ان باتوں کو نہیں جانتے چاہے وہ ایک بات ہی کیوں نہ ہو وہی داعی ہے۔
قرآن مجید نے کارِ دعوت کے لیے جس اصطلاح کا استعمال کیا ہے وہ ’’دَعا‘‘ ہے
ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین –
حم السجدہ 33
ادع إلى سبیل ربك .. النحل 125
ادع إلى ربك انك لعلى هدى مستقیم – الحج 67
قال ربی إنی دعوت قومی لیلا ونهارا – نوح 5
کارِ دعوت کا میدان تو بہت بڑا ہے۔ جیسے کسی مضبوط جڑ سے گھنے پیڑ کی بے حساب شاخیں نکلتی ہوں اور معاشرہ کے ہر معاملہ کا احاطہ کرلیتی ہوں۔ قرآن مجید نے متعدد مقامات پر انبیا علیہ السلام کے ان خطابات کو محفوظ کیا ہے جو ان عظیم الشان جڑوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں لیکن سورہ الشعراء میں اختصار کے ساتھ ان کے خطابات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔
سیدنا موسى، سیدنا هارون، أبو الأنبیاء سیدنا إبراهیم، آدمِ ثانی سیدنا نوح، سیدنا هود، سیدنا صالح، سیدنا لوط، سیدنا شعیب، علیهم السلام جیسے جلیل القدر پیغمبروں کی جدوجہد کو اللہ تعالی نے سورہ الشعراء میں یکجا کر کے وہ چیز ظاہر فرمائی جو دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں جڑ کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس کے بعد کے تمام انبیاٗ اور مرسلین نے لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف بلاتے ہوئے اسی ایک انداز کو اختیار کیا :إنی لكم رسول أمین. فاتقوا الله وأطيعون وما أسألكم عليه من أجر-
فاتقوا اللہ کا یہ کلمہ بڑا جامع ہے۔ جو اللہ تعالٰی پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اس کی عبادت اختیار کرنے، اس سے ڈر کر برے اعمال سے بچنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے شوق میں نیک اعمال کر گزرنے کے لیے انسان کو آمادہ کرتا ہے۔ تقویٰ کے ذریعہ ہی سے انسانی معاشرہ انسانی اقدار پر حسن وجمال کا عظیم پیکر بن سکتا ہے۔
اس گفتگو کی روشنی میں وہ مبارک، متبرک اور مشکل ترین جدوجہد ہمیں نظر آتی ہے جو انبیاء علیہم السلام نے اپنے اپنے معاشروں کے اندر انجام دیں اور اس جدوجہد کے اندر جن محاذوں کی واضح نشاندہی ہوتی ہے، تحریک میں ان کی اہمیت اور حیثیت کے پیش نظر ان کی ترتیب کچھ اسطرح بنتی ہے:-
• جو بندے اپنے معبودِ حقیقی کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کر رہے تھے ان کو اللہ تعالٰی کی عبادت کی طرف بلایا جائے اور اس کام کو انجام دینے کے لیے قرآن مجید کی ان آیات کا سہارا لیا جائے جن میں اللہ تعالٰی نے سارے انسانوں کو بڑے محبت بھرے انداز میں مخاطب فرمایا!
یا ایها الانسان ما غرك بربك الكریم. الذی خلقك فسواك فعدلك. فی أی صورة ما شاء ركبك. (الانفطار 6 – 8)
كیف تكفرون بالله وكنتم امواتا فاحیاكم ثم یمیتكم ثم یحییكم ثم إلیه ترجعون . (البقرة 27)
یا ایها الناس اعبدوا ربكم الذی خلقكم والذین من قبلكم لعلكم تتقون
( البقرة 21)
• جو لوگ اسلام قبول کرکے اللہ تعالٰی کی عبادت کرنے پر آمادہ ہو چکے ہوں ان کو دین اسلام کی مزید تعلیمات سے روشناس کرانے کا مستقل انتظام کیا جاے تاکہ ان کی سوچ وفکر میں توحید، رسالت اور آخرت کی جڑیں مضبوط ہو جائیں۔
• جو لوگ اللہ تعالٰی کے فضل سے پیدائشی مسلمان ہیں اور جو نئے مسلمان اللہ تعالٰی کے دین سے جڑ رہے ہیں ان کے لئے مستقل تذکیر ویاد دہانی کا اہتمام ہو تاکہ ایسا ماحول قائم ہو جہاں سب مل کر اللہ تعالٰی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور صوم وصلاۃ ودیگر فرائض وسنن کی پابندی کے ساتھ ساتھ ’’دعوت الی اللہ ‘‘اور ’’شہادۃ علی الناس‘‘ کی اس تحریک سے جڑ کر اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کر لیں کہ انہیں ایک ایسی جدوجہد کا حصہ بننا ہے جس کے نتیجہ میں دیر یا سویر اللہ تعالٰی کا دین یا تو غالب ہوگا یا پھر اس جدوجہد میں مصروف رہتے ہوئے ہمیں اللہ تعالی سے ملاقات کا شرف حاصل ہو گا۔
(ولا تموتن الا وانتم مسلمون)
اوپر بیان کئے گئے تینوں نکات مل کر کارِ دعوت کا مکمل خاکہ بناتے ہیں۔ اگر اس میں سے ایک نکتہ بھی نظر انداز کر دیا گیا تو دعوت کا کام نامکمل رہ جاتا ہے۔ خاص طور پر پہلا نکتہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ترتیب کے اعتبار سے اس کو اولین ترجیح نہیں دی گئی تو باقی دونوں محاذوں پر کام کرنے کے لیے صحیح بنیاد ہی میسر نہیں آسکتی اور اس اہم بنیاد ہی کے بغیر ہی اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ یہ کام کئے جا رہا ہے تو وہ اصلاح معاشرہ کے کام پر مامور ایک صالح گروہ تو کہلایا جا سکتا ہے لیکن ایک داعی گروہ نہیں بن سکتا۔ اس قسم کی جدوجہد سے نہ تو رائے عامہ کے عقیدہ وفکر میں کوئی تبدیلی آتی ہے اور نہ ہی اسلام کے غلبہ کی جدوجہد کو صحیح رخ دیا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالٰی ہندوستان کے مسلمانوں کو عموماً اور تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کو خصوصاً ان باتوں پر غور وفکر اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021