خواتین ریزرویشن بل میں او بی سی اور مسلم خواتین کو بھی نمائندگی ملنی چاہئے

جماعت اسلامی ہند نے پارلیمنٹ میں پاس خواتین ریزرویشن بل کی حمایت کی، او بی سی اور مسلم کمیونٹی کی خواتین کو نظر انداز کرنا حیرت ناک  قرار دیا

نئی دہلی،20ستمبر:

ملک کے نئی پارلیمنٹ میں ایوان پارلیمنٹ نے ایک تاریخی بل پاس کرتے ہوئے آغاز کیا ہے ۔مرکزی حکومت نے خواتین ریزرویشن بل کو آج لوک سبھا میں پیش کیا جو اکثریت سے پاس بھی ہو گیا۔اس سلسلے میں تمام پارٹیوں نے بل کی حمایت کا اعلان کیا۔اپوزیشن اتحاد کی تمام جماعتوں نے بل کی حمایت کرتے ہوئے اس میں او بی سی خواتین کے لئے الگ کوٹہ کا بھی مطالبہ کیا۔ملک کے تمام طبقات کی طرف سے اس بل کی حمایت اور خوشی کا اظہار کیاجا رہا ہے ۔اسی سلسلے میں ملک کی سر کردہ مسلم تنظیم جماعت اسلامی ہند نے بھی ایک بیان جاری کر کے خواتین ریزرویشن بل کی حمایت کی ہے ساتھ ہی اس میں مسلم خواتین اور او بی سی خواتین کے لئے الگ کوٹہ کا بھی مطالبہ کیا۔

نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسرسلیم انجینئر نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں  کہا کہ آزادی کے 75 سال گزرجانے کے باوجود پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی ہنوز انتہائی مایوس کن ہے جبکہ ایک مضبوط جمہوریت کے لئے ضروری ہے کہ اقتدار کی تقسیم میں ملک کے تمام طبقات کو مناسب نمائندگی دی جائے۔ خواتین کی نمائندگی کو ان کی تعداد کے اعتبار سے ایک حد تک لانے کی کوششوں میں حالیہ ویمن ریزرویشن بل ایک اچھا قدم ہے۔ اسے بہت پہلے آجانا چاہئے تھا“۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”بل کے مسودہ میں او بی سی اور مسلم خواتین کو الگ رکھا گیا ہے۔ اس طرح کے بل سے جس میں ان دو طبقوں کو شامل نہیں کیا گیا،ملک میں پائے جانے والے سماجی عدم مساوات کو دور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ مسودے میں ایس سی اور ایس ٹی کی خواتین شامل ہیں مگر او بی سی اور مسلم کمیونٹی کی خواتین کو نظر انداز کرنا حیرت ناک ہے۔ جبکہ مختلف رپورٹوں اور مطالعوں میں مثال کے طور پر سچر کمیٹی رپورٹ (2006)، پوسٹ سچر ایو لیشن کمیٹی رپورٹ (2014) ڈاورسٹی انڈیکس پر ماہرین کی رپورٹ (2008)، انڈیا ایکس کلوزن رپورٹ (2013-14) اور 2011 کی مردم شماری اور تازہ ترین این ایس ایس رپورٹ، ان تمام میں مسلمانوں خاص طور پر خواتین کی سماجی و اقتصادی پسماندگی کوبتایا گیا ہے۔ مزید براں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ نمائندگی ان کی آبادی کے اعتبار سے قطعی نہیں ہے۔“

پروفیسر سلیم نے کہا کہ ” بل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ اگلی مردم شماری کے بعد ہی عمل میں لایا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بل کے فائدے 2030 کے بعد ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بل آئندہ پارلیمانی انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے سامنے لایا گیاہے اور اس کے نفاذ میں اخلاص کی کمی نظر آرہی ہے۔ جبکہ ملک میں سماجی عدم مساوات کو دور کرنے کے لئے ریزرویشن ایک موثر طریقہ ہے جسے عمل میں لاکر اس کمی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اس بل یعنی ویمن ریزرویشن بل میں او بی سی اور مسلم خواتین کو نظر انداز کرنا ناانصافی ہوگی اور حکومت کا جو نعرہ ہے ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس“ یہ عمل اس پالیسی کے بھی خلاف ہے۔