خبر و نظر
پرواز رحمانی
دو تحریکوں کا موازنہ
حکومت کے وضع کردہ نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک روز بروز زور پکڑتی جارہی ہے ۔حقوق انسانی اور محنت کشوں کے گروپ اس میں شامل ہو رہے ہیں۔حکومت یہ اعلان تو مختلف پیرائوں میں کئی بار کرچکی ہے کہ یہ قوانین واپس نہیں لئے جائیں گے۔لیکن بدحواسی کے عالم میں وہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرپارہی ہے۔کبھی کچھ کہتی ہے ،کبھی کچھ ۔کبھی حکومت کے بیان سے کسانوں کو امید بندھتی ہے کہ ان کی بات سنی جائے گی ،دوسرے دن وہ امید ٹوٹ جاتی ہے۔مذاکرات بھی ہوتے ہیں ،نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔اِسی لئے اپوزیشن پارٹیاں ،سپریم کورٹ اور سماجی حلقے مذاکرات میں سنجیدگی اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیںاس لئے کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔کسانوں نے یوم جمہوریہ یعنی ۲۶؍جنوری کو ٹریکڑریلی کا اعلان کیا ہے جو دہلی شہر سے باہر باہر کو نکلے گی،حکومت اس سے بھی خوف زدہ ہے۔کسان اپنے اعلان پر ڈٹے ہوئے ہیں۔دیکھیں کیاہوتا ہے۔کچھ لوگ کسانوں کے احتجاج کا موازنہ شہری ترمیمی قانون (شاہین باغ کے احتجاج )سے کررہے ہیں ،دونوں تحریکوں کے طرز عمل اور ان پر عوامی رد عمل کا جائزہ لے رہے ہیں۔
رد عمل میں فرق کیوں؟
۲۱؍جنوری کے انگریزی روزنامے ’ہندو‘میں جے این یو کے ایک پروفیسر نے یہی کام کیا ہے۔لکھا ہے ،گزشتہ سال سی اے اے مخالف تحریک اور کسانوں کا موجودہ احتجاج اگر چہ یہ دونوں حکومت کے غیر منصفانہ قوانین کے خلاف ہیں لیکن دونوں پر عوامی رد عمل ایک جیسا نہیں ہے۔شہری ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ سے اٹھنے والی تحریک میں مسلم خواتین پیش پیش تھیں۔اس کے پیچھے یہ ذہن کام کررہا تھا کہ ’’ہم ماضی کے حکمراں ہیں‘‘یعنی اس میں ایک مذہبی فرقے کا تاریخی عنصر بھی کام کررہا تھا،اس لئے اسے زبردست عوامی حمایت حاصل نہیں ہوسکی،جب کہ کسانوں کی تحریک بھی ایک مذہبی (سکھ)فرقے نے شروع کی تھی مگر اس نے اول روز سے تمام مذہبی ،سماجی فرقوں اور عوام کے مختلف طبقوں کو ابتدا ہی سے ساتھ رکھا ،خالصہ علیحدہ ریاست کا نام تک نہ لیا اس لئے اسے سبھی کی حمایت حاصل ہے۔خالصتانیوں نے آغاز میں کچھ اچھل کود کی تھی مگر انہیں طاقت سے کچل دیا گیا۔سی اے اے مخالف تحریک کے خلاف پروپگنڈے کا موقع حکومت کو آسانی سے مل گیا تھا۔کسان تحریک کو بھی حکومت نے علیحدہ سکھ ہوم لینڈ قرار دینے کی کوشش کی تھی۔مگر وہ حربہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ ۔
ِموازنہ غلط ہے
لیکن یہ تجزیہ درست نہیں ہے،بالکل غلط ہے۔سی اے اے مخالف احتجاج ہر چند کے مسلم خواتین نے شروع کیا تھا لیکن اس میں مذہب اسلام یا مسلم قوم کا حوالہ کہیں نہیں آیا حالانکہ غیر ملکوں سے لائے جانے والے اقلیتی افراد کی فہرست سے حکومت نے مسلمانوں کو علی الاعلان نکال دیا تھا۔اس احتجاج کو مذہبی رنگ تو حکومت نے دیا تھا لیکن اس کے باوجود غیر مسلم حلقوں نے بڑی تعداد میں اس کی حمایت کی تھی۔بہت سے دانشوروں نے اس کے حق میں مضامین بھی لکھے۔حکومت نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی واضح کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں دہلی نارتھ ایسٹ میں مسلم کش فسادات بھی ہوئے لیکن حکومت بڑے پیمانے پر خون خرابہ کرانے میں ناکام رہی۔یہ عوامی حمایت ہی تھی کہ احتجاج بڑھتا جارہا تھا مگر حکومت کی خوش قسمتی سے چین کے کورونا وائرس نے آسانی کے ساتھ احتجاج بند کرادیا۔جے این یو کے پروفیسر نے ماضی کی مسلم حکمرانی کی بات کہی ہے۔جبکہ ’’پدرم سلطان بود‘‘کا نعرہ تو انگریزی حکومت کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔انگریزی دور میں کچھ مسلم حلقے یہ بات کرتے تھے مگر آزادی کے بعد یہ بات کسی نے نہیں کہی۔پروفیسر نے مسلم مخالف ذہن کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ بتایا ہے کہ مسلمان سرزمین ہند سے وابستگی کا اظہار زیادہ سے زیادہ کریں۔یہ بات پروفیسر سے سمجھنی پڑے گی ۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021