خبر و نظر
پرواز رحمانی
لَو جہاد کی سیاست
حکم راں پارٹی کے مرکزی لیڈروں کے اس اعلان کے بعد کہ دو مختلف فرقوں کے درمیان بزور زبردستی شادی کے خلاف قانون بنایا جائے گا، بی جے پی کی کچھ ریاستوں میں بڑا جوش و خروش پیدا ہو گیا تھا۔ کرناٹک میں کچھ حکم راں پارٹی کے لیڈروں نے اعلان کیا کہ قانون کا مسودہ اسی اجلاس میں پیش کیا جائے گا تاہم کچھ دوسرے لیڈروں نے کہا کہ اسمبلی کے اِس اجلاس میں بل پیش ہونے کا امکان نہیں ہے۔ کچھ اور لیڈروں کا بھی کہنا ہے کہ اس قانون سازی میں جلد بازی کرنا ٹھیک نہیں ہے کیوں کہ یہ سراسر سیاسی معاملہ ہے۔ اس طرح ریاست کی حکومت اور عوام کے مابین اس معاملے میں کوئی اتفاق رائے اور یکسوئی نہیں ہے۔ مجوزہ قانون کے خلاف عوام میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ زیادہ تر عوام اِس قانون کے خلاف ہیں، وہ اسے فرقہ پرستی اور مختلف فرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنا رہے ہیں اسی لیے حکم راں پارٹی نے ابھی کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ وہ عوام کا رخ دیکھ رہی ہے کہ اس قانون کو کس قدر حمایت مل سکتی ہے۔ اگر بھر پور حمایت ملنے کی امید ہوئی تو پارٹی اپنے چاروں ہاتھ پاؤں پھیلا دے گی بصورت دیگر خود ڈھیلی پڑ جائے گی اور قانون کا کاروبار ریاستی حکومت کے حوالے کر دے گی۔
یو پی کی کاریگری
باوجود اس کے کہ گزشتہ ۲۵سال میں بی جے پی کرناٹک کو اپنے گیروا رنگ میں رنگنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکی ہے لیکن اس کے آہنی پنجوں میں ریاست پوری طرح جکڑی نہیں جا سکی ہے۔ادھر یو پی میں ریاستی سرکار نے اپنا عملی کام شروع کر دیا ہے۔ وہاں بریلی میں ایک نوجوان کو ایک لڑکی کا دھرم بدلنے کی کوششوں میں پکڑ لیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ لڑکی لڑکے میں قربت بہت دن سے تھی۔ کیرپال نامی لڑکی کے بھائی کا کہنا ہے کہ ’’یہ معاملہ گزشتہ سال ہی سلجھ گیا تھا اور اب کوئی تنازع نہیں تھا۔ تازہ ایف آئی آر پولیس نے اپنے طور پر درج کی ہے، لڑکی کے گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں کیا‘‘۔ یو پی میں ’لَو جہاد‘ کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا، ریاستی سرکار ایک آرڈیننس کے ذریعے یہ کام چلا رہی ہے۔ لَو جہاد کی اصطلاح چند سال قبل بی جے پی نے وضع کی تھی اور اسے خوب فروغ دیا تھا۔ تخریبی سیاسی اصطلاحیں گھڑنے میں اِس پارٹی کا کوئی جواب نہیں۔ دو فرقوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکی کے مابین رسم و راہ بڑھتی ہے اور معاملہ شادی تک پہنچتا ہے تو اس عمل کو بی جے پی ’لَو جہاد‘ کہتی ہے۔ اس سلسلے میں مسلم نوجوان خاص طور پر زد پر ہیں۔ اس کے ذریعے پارٹی بڑے بڑے فتنے جگا چکی ہے۔
ِصورت حال کا نوٹس لیجیے
لیکن لَو جہاد کی حقیقت وہ نہیں ہے جو دنیا کو دکھائی جا رہی ہے۔ اصل معاملہ اس کے برعکس ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ کام اب سنگھ پریوار کے لوگ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ہندو نوجوانوں کو مسلم لڑکیوں کے خلاف ورغلا رہے ہیں، خود یو پی میں میرٹھ، ہاپوڑ اور اس کے آس پاس ایسے کئی واقعات روشنی میں آئے ہیں کہ مسلم لڑکیاں غیر مسلم نوجوانوں کے بہکاوے میں آکر ان کے ساتھ یا تو فرار ہوگئیں یا ان سے رسم و راہ پیدا کرکے ان کے طور و طریقے اپنے گھروں میں لے آئیں۔ ایک گھر میں مورتی سجائے جانے کی بھی خبر ہے۔سنگھ والے اس ذلیل حرکت سے دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ مسلمان جو کچھ کر رہے ہیں ہندو لڑکوں کی یہ کارروائی اُسی کے جواب میں ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا سے کہتے ہیں کہ جو کام مسلم لڑکے کر رہے ہیں وہ تم کیوں نہیں کرتے۔ ہندتوا کا یہ خصوصی ہتھکنڈہ ہے۔ لَو جہاد کا نوٹس مسلم رہنماؤں اور دانشوروں کو بھی لینا چاہیے۔ سنگھ کو ملک کی تباہ ہوتی ہوئی معیشت کی کوئی پروا ہے نہ بے روزگار ی کی۔ عام آدمی کی حالتِ زار سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے جو مہنگائی کی مار سے ادھ مَرا ہو گیا ہے۔ اس کا مقصد صرف ہندتوا کا ایجنڈا تکمیل تک پہنچانا ہے۔ مسلمانوں اور عوام کے سنجیدہ طبقات کو اس صورت حال کا جائزہ لے کر کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020