خاندان کا اسلامی نظام

اور اس کی نظریاتی و اخلاقی قوت

سید سعادت اللہ حسینی

 

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
اقبال کی یہ پیشین گوئی جدید مغربی تہذیب کے جن شعبوں میں پوری ہوتی ہوئی صاف نظر آرہی ہے ،اُن میں خاندان کا شعبہ شاید سر فہرست ہے۔ لبرل مکتب فکر مغربی دنیا کا مقبول ترین مکتب فکر تھا۔ اس نے خاندان کے بارے میں یہ تصور پیش کیا کہ یہ پدر شاہی ادارہ ہے اور اس کا اصل مقصد عورت کا استحصال ہے۔مارکسی مفکرین نے اور آگے بڑھ کر کہا کہ یہ بورژوا طبقہ کا ایک استحصالی ذریعہ ہے اور خاندان کے ادارہ کا بنیادی مقصد دولت کی تقسیم کو روکنا اور بورژوا طبقہ کی طاقت کا استحکام ہے۔
ان تمام تصورات نے یہ یقین پیدا کیا کہ خاندان کی انسان کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔چنانچہ پہلے مرحلہ میں شادی کے بغیر جنسی زندگی کا رواج شروع ہوا۔ میاں بیوی کی جگہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ نے لے لی ۔ بغیر شادی کے اور بغیر کسی طویل المیعاد پابندی Long Term Commitment کے ساتھ رہنے کا سلسلہ چل پڑا۔ اسے لیو ان رلیشن اور کو ہیبیٹیشن cohabitationجیسے نام دیئے گئے۔ جنسی آوارگی عام ہوگئی اور خاندانی ادارہ تیزی سے معاشرہ سے غائب ہونے لگا۔
دوسرے مرحلہ میں جنسی رجحاناتSexual orientation کا تصور عام ہوا۔ فلسفیوں نے اسے انصاف اور مساوات کے تصور سے جوڑ ڈالا۔کہا گیا کہ جنسی تعلق مرد اور عورت کے درمیان ہی ہو یہ ضروری نہیں ہے۔ فطرت نے کئی طرح کے جنسی جذبے پیدا کئے ہیں۔مرد اور مرد کے درمیان اور عورت اور عورت کے درمیان نہ صرف جنسی تعلق ہوسکتا ہے بلکہ مرد اور مرد یا عورت اور عورت مل کر ہم جنسی خاندان بھی بناسکتے ہیں۔ کہا گیا کہ یہ جذبات بھی فطری ہیں اور ایسے جذبات رکھنے والے جنسی اقلیت sexual minorities ہیں۔ ان کے حقوق کا تحفظ عدل و انصاف کا تقاضہ ہے۔ ہم جنسی کے خلاف کچھ بولنا یہ ظلم کی تائید اور ظلم کی راہ ہموار کرنا ہے۔ وغیرہ۔چنانچہ تمام مغربی معاشروں میں اور اس کے بعد مشرقی معاشروں گے جوڑے اور لیسبین جوڑے عام ہوگئے۔ کئی ملکوں میں ان کو قانونی موقف بھی حاصل ہوگیا۔
اب تیسرے مرحلہ میں مشینوں اور مصنوعات کے ساتھ جنسی تعلق کی ہمت افزائی کی جارہی ہے۔ جنسی کھلونے اور اس مقصد کے لئے بنائے گئے روبوٹ مغربی معاشروں بلکہ مشرقی معاشروں میں بھی عام ہونے لگے ہیں۔اب یہ پچاس بلین ڈالر سالانہ کی صنعت ہے جس میں تیس فیصد سالانہ کی رفتار سے ترقی ہورہی ہے۔ ایسے روبوٹ sexbotتیزی سے عام کئے جارہے ہیں جو شوہر یا بیوی کا جنسی کردار ادا کرسکیں۔
ان سب بے ہودہ تصورات اور رواجوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام پوری طرح تباہ ہوگیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سو سالوں میں امریکہ میں شادی کی شرح میں 66فیصد کمی آئی ہے۔ یعنی سو سال پہلے ہر سال جتنی عورتیں شادی کرتی تھیں، آج اس کے مقابلہ میں آبادی میں اضافہ کے باوجود 66فیصد کم عورتیں شادیاں کررہی ہیں۔ شادی کی عمر والے افرا میں صرف باون فیصد امریکی ہی رشتہ ازدواج میں بندھے ہوئے ہیں۔ یعنی تقریباً آدھی آبادی‘‘آزاد’’ہیْ۔25فیصد بچے اکیلی ماں کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ان میں سے اکثر کے باپ کا پتہ ہی نہیں ہے۔دوتہائی امریکی آبادی یہ مانتی ہے کہ دو مرد یا دو عورتیں مل کر بھی فیملی بناسکتے ہیں اور بچوں کی پرورش کرسکتے ہیں۔39فیصد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ اب خاندان کا ادارہ متروک ہوتا جارہا ہے۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹThe Decline of Marriage and Rise of New Families, November 2010)
ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ اب مغربی معاشروں میں یہ احساس بھی بڑھتا جارہا ہے کہ خاندان کا تحفظ نہایت ضروری ہے۔ اور خاندان کا بحران ایک بڑا سماجی بحران ہے۔محولہ بالا سروے میں 96فیصد امریکیوں نے کہا کہ خاندان کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ قدروں کے عالمی سروے رپورٹوں (World Values Survey) کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری مغربی دنیا میں اب بہت بھاری اکثریت خاندان کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کرنے لگی ہے۔ اور ایسا سوچنے والوں کی تعداد سال بہ سال بڑھتی جارہی ہے۔
چنانچہ اب امریکہ کے صدارتی انتخابات میں جن موضوعات پر بحثیں ہوتی ہیں ان میں فیملی اور خاندانی قدروں کا موضوع نہایت اہم موضوع ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اس موضوع پر اپنا نقطہ نظر واضح کرتی ہیں۔ یورپ کے کئی ملکوں میں بھی یہی رجحان ہے۔ آسٹریلیا میں تو ایک سیاسی جماعت اسی نعرہ کے ساتھ وجود میں آئی تھی اور اس کا نام ہی فیملی فرسٹ پارٹی تھا۔ اسی نام سے یہ پارٹی گذشتہ پندرہ سالوں سے الیکشن لڑتی رہی اور اپنے نمائندوں کو منتخب کراتی رہی۔ (اپریل 2017 میں یہ پارٹی ایک اور پارٹی میں ضم ہوگئی)۔
امریکہ کا مشہور دانشور فرانسس فوکویاما، جس کا جدید امریکہ پر غیر معمولی اثر ہے، وہ ملک کی ترقی حتی کہ معاشی ترقی کے لئے بھی ایک چیز کو ضروری قرار دیتا ہے، جسے وہ سماجی سرمایہ Social Capital کہتا ہے اور اس سرمایہ کی ضرورتوں میں فیملی اور خاندانی قدروں کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔
مختصر یہ کہ اب مغرب کا انسان خاندانی ادارہ کے انتشار سے تنگ آچکا ہے اور چاہتا ہے کہ مضبوط خاندان کی بنیادیں دوبارہ بحال ہوں، لیکن جو طرز زندگی، جو اخلاقی تصورات اور جو سماجی روایات اب وہاں عام ہوچکی ہیں، ان کے پیش نظر اب ا س کا امکان باقی نہیں رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ اب معاملہ صرف مغربی معاشروں تک محدود نہیں ہے۔ جاپان میں گذشتہ دہے میں طلاق کی شرح میں 66فیصد اضافہ ہوا ہے اور وہاں کے مزدوروں(Labour Force) میں ِسنگل مدرس کا تناسب 85فیصد ہے۔چین میں بھی خاندانی نظام تیزی سے زوال کا شکار ہے۔چلی میں 70فیصد اور میکسیکو میں 68فیصد بچے شادی کے بغیر پیدا ہوئے ہیں۔ یہی صورت حال استوانیہ اور بلغاریہ جیسے ملکوں کی ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان کے شہری علاقوں میں بھی گے خاندان، لیو ان ریلیشن وغیرہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اور طلاق کی شرح سال بہ سال تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔
اس طرح سنجیدہ جائزہ اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ خاندان کا نظام مغربی دنیا میں زوال پذیر ہونے کے بعد اب تیزی سے مشرقی معاشروں میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اب خاندان کا آخری قلعہ اسلام ہی ہے۔
دوسری طرف جدید سرمایہ دارانہ استعمار نے اپنے مقاصد کے لئے عورت کا بدترین استحصال کیا ہے۔ یہ صورت حال بھی اب ساری دنیا میں تیزی سے عام ہوتی جارہی ہےاور مشرقی معاشروں میں عورت کا روایتی رول پامال ہورہا ہے اور وہ استعمار کے استحصال کے لئے نرم نوالہ بنتی جارہی ہے۔ جدید عورت کو اب یہ بات بھی سمجھ میں آرہی ہے۔چنانچہ عورت کے نسوانی وجود کے تحفظ کا بھی اب آخری قلعہ اسلام ہی باقی رہ گیا ہے۔
اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی قدروں کی بنیاد نہایت مستحکم عقائد پر رکھی گئی ہے۔ ایک مسلمان معاشرہ خاندانی زندگی کی قدروں اور عورت کے نسوانی کردار کا تحفظ کرتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہوتی کہ اس معاشرہ کی قدیم روایتیں اس کا تقاضہ کرتی ہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ معاشرہ اس پر پختہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ اللہ کے احکا م ہیں جن میں تبدیلی کا اسے کوئی اختیار نہیں ہے۔یہ پختہ ایمان ہی اُس طوفان بلاخیز کا مقابلہ کرسکتا ہے جو جدید مغرب کی دانش گاہوں سے اٹھا اور اب ساری دنیا کے روایتی ڈھانچوں کو ملیامیٹ کرنے پر تلا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اب خاندان اور عورت کے نسوانی وجود کی آخری پناہ گاہ، اسلام ہی میںہے۔
اسلام کی یہ خصوصیت بہت سے لوگوں کے لئے زبردست کشش کا باعث ہے، تو اسلام مخالف طاقتوں کے لئے اسلام سے خوف کا بھی ایک اہم سبب ہے۔مشہور نومسلم دانشور مراد ولفریڈ ہافمین نے اپنی فکر انگیز کتاب Religion on the Rising:Islam in the Third Millenium میں بہت تفصیل سے واضح کیا ہے کہ خاندانی نظام اور خاندانی قدریں اسلام کی بہت بڑی طاقت ہیں اور مستقبل میں یہ مغربی دنیا میں اسلام کے لئے بہت بڑی کشش پیدا کریں گی۔
فیمینسٹ تھیریسا کوربن نے اسلام قبول کرلیا اور حجاب اختیار کرلیا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا حجاب استحصال اور ظلم کی علامت نہیں ہے تو اس نے بڑا دلچسپ جواب دیا۔
’’ہاں میں اسکارف پہنتی ہوں۔میرا اسکارف پشت پر میرے ہاتھ نہیں باندھتا۔ یہ کیسے میرے استحصال کا ذریعہ ہوسکتا ہے؟میرا اسکارف نہ دماغ میں خیالات کے داخلہ میں کوئی رکاوٹ بنتا ہے اور نہ منہ سے اس کے اظہار کی راہ میں آڑے آتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ میں کچھ ایسا ہی سمجھتی تھی۔میرا اسکارف البتہ مردوں کی ان ہوسناک نظروں کی راہ میں آڑے آتا ہے جو عورت کے استحصال کی پہلی کڑی ہوتی ہیں۔ یہ مجھے تحفظ اور احترام و عزت عطا کرتا ہے۔ ‘‘اس نے آخر میں بہت صحیح بات کہی ’’کہ اسلام فیمینسٹ تصورات سے یقیناً ہم آہنگ نہیں ہے لیکن فیمنسٹ آئیڈیلز کی تکمیل کہیں ہوسکتی ہے تو وہ صرف اسلام ہے‘‘۔
یہ صرف تھریسا کوربن کا ہی خیال نہیں ہے۔ سفید فام عورتوں میں اب یہ تصور بہت تیزی سے عام ہوتا جارہا ہے۔ برطانیہ میں اندازہ یہ ہے کہ تقریباً پچاس ہزار سفید فام برطانو ی ہر سال اسلام کی آغوش میں آتے ہیں۔ ان میں ستر فیصد خواتین ہوتی ہیں۔ ٹونی بلیر کی نسبتی بہن لارن بوتھ، بی بی سی کی نامہ نگار یوان ریڈلی اور ایم ٹی کی اداکارہ کرسٹیانی بیکر وغیرہ جیسی مشہور عورتیں بھی ان میں شامل ہیں۔چند سال پہلے کیمرج یونیورسٹی کے سینٹر فار اسلامی اسٹڈیز نے ایک دلچسپ اسٹڈی کی تھی۔ اس نے نومسلم برطانوی خواتین سے انٹرویو کئے اور وجہ جاننے کی کوشش کی کہ انہوں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ اس اسٹڈی کے سربراہ پروفیسر یاسر سلیمان نے آبزرور کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
’’ہم جدیدیت کے زمانہ میں ہیں۔ہماری زندگیوں کا غالب فریم ورک سیکولر ہے اور اس میں اسلام کوایسے مذہب کے روپ میں دیکھا اور دکھایا جاتا ہے جو نہایت ظالم، پرتشدداور جدید دنیا کے عقلیت پسند رویہ سے غیر ہم آہنگ ہے۔ اس کے باوجود ہر سال کچھ انتہائی ذہین، کامیاب اور دلچسپ لوگ اسلام کے عقیدہ میں اپنی الجھنوں اور سوالوں کا جواب پاتے ہیں اور اسلام کی آغوش میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کی وجہ تلاش کرنا اس اسٹڈی کا ایک اہم مقصد ہے۔‘‘
چنانچہ یہ اسٹڈی مکمل ہوئی اور مارچ 2013 میں اس کی تہلکہ مچادینے والی رپورٹ Narratives of Conversion to Islam: Female Perspective کے نام سے شائع ہوئی۔ اس میں اُن اعلی تعلیم یافتہ خواتین نے قبول اسلام کے جو اسباب گنائے ا ن میں سے بیشتر کا تعلق عورت اور خاندان سے متعلق اسلام کی تعلیمات سے ہے۔مثلاً کئی خواتین نے اسلام میں نکاح کے تصور اور بیوی کے مقام کو قبول اسلام کا ایک اہم سبب گردانا۔ شوہر اور بیوی کے درمیان فرائض و اختیارات کی تقسیم نے کئی خواتین کو اپیل کیا۔بعض خواتین حجاب کے تصور سے متاثر ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حجاب ہی اصل فیمنسٹ علامت ہے۔ اس لئے کہ اس سے نسوانی شخصیت کا باعزت اظہار ہوتا ہے اور سماج جس طرح عورت کو جنس کی علامت بنادیتا ہے، اس کا رد ہوتا ہے۔ زوجین کے حقوق کا تصور، شوہر کی عائلی ذمہ داریوں کی تفصیلات وغیرہ نے بھی کئی خواتین کو متاثر کیا۔ حیرت انگیز طور پر ان جدید اعلی تعلیم یافتہ انگریز عورتوں میں ایسی عورتیں بھی تھیں جنہیں اسلام کے تعدد ازدواج کے اصول نے متاثر کیا۔ایک خاتون نے کہا: ’’شوہر کی دوسری بیوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی خاندانی اور ازدواجی ذمہ داریاں آدھی ہوگئیں۔ جبکہ حقوق میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔یہ سودا تو عورت کے حق ہی میں ہے۔‘‘
دوسری طرف اسلام کے مخالف، اسلام کی خاندانی زندگی کو لے کر اسلام سے خوف میں مبتلا ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام کی ایسی طاقت ہے جس کا کوئی توڑ ان کے پاس نہیں ہے۔ڈیوڈ سیلبورن ایک مشہور اسلاموفوبک مصنف ہے۔ اس کی کتاب اسلام سے ہاری ہوئی جنگ Losing Battle with Islam بہت مشہور ہوئی۔ اس نے دس اسباب گنائے ہیں جن کی وجہ سے اس کے خیال میں اسلام سے جنگ جیتنا امریکہ اور مغرب کے لئے ممکن نہیں ہے۔ ان میں ساتواں سبب امریکہ کا اخلاقی افلاس، قدروں کا بحران اور اس کے مقابلہ میں اسلام کا نہایت مستحکم اخلاقی نظام ہے۔ جب وہ قدروں کی بات کرتا ہے توخاص طور پر خاندانی قدروں کو اسلام کی بڑی قوت قراردیتا ہے۔
اس بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا خاندانی نظام اور عورت کو اسلام میں دیا گیا مقام، اُن امور میں شامل ہے جن کی وجہ سے اسلام میں جدید دور کے لوگوں کو کشش محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام مخالف طاقتوں کا ایک اہم ہدف مسلمان عورت اور اسلامی خاندان ہے۔آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے جو کوششیں ہورہی ہیں ان میں ایک اہم کوشش یہ ہے کہ مسلمان شریعت اور شریعت کے عائلی قوانین سے دستبردار ہوجائیں یا ان میں ’’اصلاحات‘‘ کے لئے تیار ہوجائیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے اس عظیم اثاثہ کی حفاظت کریں اور اسے زیادہ سے زیادہ اسلام کے نظام رحمت کی عملی شہادت کا ذریعہ بنائیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم خاندان کے زبردست وکیل اور عالمی سطح پر خاندان کے طاقتور نگہبان کے طور پر سامنے آئیں۔ خاندان کی اہمیت پر بحث میں پرزور حصہ لیں۔ کسی تذبذب اور مداہنت کے بغیر اسلام کے عائلی احکام کی برکتوں کو اجاگر کریں۔
صنفی رول اورخاندان
اسلام کے مطابق مرد اور عورت کو اللہ نے الگ الگ سماجی رول کے لئے پیدا کیا ہے۔دونوں اصناف سماجی حیثیت کے لحاط سے یقیناً برابر ہیں لیکن ان کے جسم ، نفسیات اور سماجی رول میں فرق ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے تکمیل کنندہ (complementary) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حیاتیاتی لحاظ سے بھی اور سماجی لحاظ سے بھی۔مرد عورت کے بغیر نامکمل ہے اور عورت مرد کے بغیر۔ اللہ نے ان کے درمیان حیاتیاتی فرق پیدا کیا ہے۔اس فرق کی وجہ سے خود بخود سماجی فرق بھی واقع ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی پرورش میں بھی بعض رول ایک عورت ہی ادا کرسکتی ہے۔ مرد ادا نہیں کرسکتا۔وہ اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاسکتا۔ماں کی کوکھ سے پیدا ہونے کی وجہ سے اور اس کا دودھ پینے کی وجہ سے جو ُانس اور قربت بچے ماں کے تئیں محسوس کرتے ہیں وہ باپ کے سلسلہ میں نہیں کرتے۔بچوں کے باپ سے تعلق اور محبت کی نوعیت اور ماں سے تعلق کی نوعیت میں واضح فرق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان فطرت نے صرف جسمانی فرق نہیں رکھے بلکہ مزااج اور نفسیات کے بھی واضح فرق رکھے ہیں۔ عام طور پر ایک مرد، عورت سے زیادہ جسمانی طاقت رکھتا ہے۔ عام طور پر شیر خوار لڑکے بھی ٹرک اور کار کے کھلونے اٹھاتے ہیں اورشیر خوار لڑکیاں، گڑیاں اٹھاتی ہیں۔ اسکول میں لڑکے کچھ اور مضامین میں اچھے ہوتے ہیں اور لڑکیاں کچھ اور مضامین میں۔ ان کے دماغ واضح طور پر ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ یہ سب حقائق اس بات کی دلیل ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں سماجی رول کے اعتبار سے بھی فرق ہے۔
جدید فیمینسٹ تصور میں اور اسلام میں اصل فرق یہی ہے کہ اسلام کے نزدیک خاندان ایک بڑی انسانی ضرورت ہے اور اس ادارہ کا تحفظ ہونا چاہیے۔ خاندان کے اس ادارہ کے تحفظ کا فطری طریقہ یہی ہے کہ مرد اور عور ت اپنے فطری دائروں میں اپنے اپنے رول ادا کریں۔ دونوں کے رول چونکہ الگ الگ ہیں، اس لئے اس حوالہ سے انصاف کے تقاضوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہوگا۔ کچھ خصوصی مراعات عورت کو اس کے رول کی وجہ سے حاصل ہوں گی تو کچھ اضافی اختیارات مرد کو اس کے رول کی وجہ سے۔ ماں کے حقوق باپ سے زیادہ ہیں۔ بیوی کو خصوصی معاشی مراعات حاصل ہیں۔۔ بیٹوں کے مقابلہ میں بیٹیوں کی پرورش کا زیادہ ثواب ہے۔دوسری طرف مرد کو قوام کی حیثیت میں بعض اضافی اختیارات حاصل ہیں۔ اس فرق کا مقصد یہ ہے کہ دونوں اصناف اپنے اپنے دائروں میں اپنے تمدنی فرائض انجام دے سکیں اور اس کے نتیجہ میں ایک خوش حال خاندان اور ایک خوشحال سماج وجود میں آسکے۔اسلام میں صنفی عدل کے تصور کو سمجھنے کے لئے ان بنیادی تصورات کو سمجھنا ضروری ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو خاندان کے سلسلہ مین اسلام کے وژن میں اور جدید فیمنسٹ وژن میں پایا جاتا ہے۔
چونکہ اسلام کے نزدیک خاندان سماج اور تمدن کی بنیادی ضرورت ہے اس لئے اس ضرورت کی تکمیل کے لئے اس نے مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض میں بعض فرق رکھے ہیں۔ تولید و تناسل کی اہم تمدنی ضرورت کی تکمیل کے لئے عورت کو پر مشقت مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔یہ فرق سماج کا پیدا کردہ نہیں ہے، فطری ہے۔ بچوں کی یہ ضرورت ہے اور ان کا حق ہے کہ ان کی پرورش ماں کے شفیق آنچل کے زیر سایہ ہو۔ماں سے جو قربت وہ محسوس کرتے ہیں اور جس طرح اس کا اثر قبول کرتے ہیں اس کاتقاضہ ہے کہ ان کی شخصیت ساز ی میں وہ اہم رول ادا کرے۔ خاندان کی اہم اکائی اور ادارہ کا نظم و انتظام بھی وقت اور توجہ چاہتا ہے۔ان سب ضرورتوں کی تکمیل کا کام اسلام نے عورت کے سپرد کیا ہے۔ ان کاموں میں اور اس کی جسمانی و نفسیاتی خصوصیات میں گہری مطابقت ہے ۔ یہ مطابقت سماجی اور تاریخی عوامل کی پیدا کردہ نہیں بلکہ فطرت کی پیدا کردہ ہے۔چنانچہ اسلام نے ان فرائض کی انجام دہی کے لئے عورت کو معاشی ذمہ داریوں سے فارغ رکھا ہے۔ خاندان کی کفالت شوہر کے ذمہ ہے۔ بیوی اگر مال دار ہو تب بھی اس کی کفالت شوہر ہی کے ذمہ ہے۔ مالی ضروریات کی تکمیل کے علاوہ بیوی کا تحفظ اور اس کی دلجوئی بھی شوہر کی ذمہ داری ہے۔ قوّام کی حیثیت سے اس کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ خاندان کی تمام تر ذمہ داری قبول کرے اور ادا کرے۔ اسلام نے عورت کو معاشی مصروفیت سے منع نہیں کیا۔ اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اور شریعت کے حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے وہ معاشی مصروفیت بھی اختیار کرسکتی ہے لیکن یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس طرح اسلام کی خاندانی اسکیم میں سماج اور تمدن کی اہم ضروریات کا لحاظ بھی ہے اور مرد ، عورت اور بچوں کے ساتھ مکمل انصاف بھی۔
صنف کی بنیاد پریہ تقسیم کار مغرب زدہ خواتین کو اس لئے کھٹکتی ہے کہ فیمینسٹ تصورات کی ایک اہم بنیاد نسوانی شخصیت اور نسوانی رول کا استخفاف ہے۔ ان کے نزدیک ہوائی جہاز میں مسافروں کی خدمت اور استقبالیہ پر مہمانوں کی دلجوئی تو قابل احترام مصروفیت ہے لیکن نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور خاندان جیسے بنیادی ادارہ کا نظم و انصرام حقیر کام ہے۔ان تصورات نے عورت کے تشخص ، اس کے جذبات و نفسیات اور اس کے رول کی قدر و منزلت کو اتنا گھٹا دیا کہ عورت اپنے عورت پن پر شرمندہ رہنے لگی۔ اسلام نے عورت ہی کو نہیں اس کے نسوانی وجود کو عزت و احترام بخشا ہے۔عورت کو سماج میں قدر و منزلت حاصل کرنے کے لئے یہاں مرد بننا ضروری نہیں ہے۔
خاندانی ادارے کے زوال کا ایک بڑا سبب صنفی عدل اور صنفی رول کے حوالے سے جدیدیت کے پیدا کردہ کنفیوژن ہیں۔ بعض غیر اسلامی روایتوں نے بھی خاندان کے ادارے پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔اس پر علیٰحدہ سے تفصیل سے گفتگو ہوسکتی ہے۔ لیکن دور جدید میں خاندان کے ادارے کو سب سے زیادہ نقصان جدیدیت کا پیدا کردہ مذکورہ کنفیوژن ہے۔ اس لیے خاندانی ادارے کے احیاء اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کا نہایت معتدل نقطہ نظر عام ہو جو فطرت سے بالکل ہم آہنگ ہے۔ یہ حقوق وفرائض کا نہایت متوازن نظام فراہم کرتا ہے اور خاندان کے ادارے کو نہ صرف انتہائی پائیدار بنیادوں پر کھڑا کرتا ہے بلکہ اسے اپنے عظیم تمدنی اور تہذیبی مقاصد کے حصول کے لیٔے بھی تیار کرتا ہے۔
جبکہ نام نہاد غیر روایتی خاندان سے خاندان کاکوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور خاندان کی بقا کا کوئی راستہ اسلامی اخلاقیات کے سوا ممکن نہیں ہے۔ اس بات کی زبانی شہادت کے ساتھ ساتھ عملی شہادت بھی دیں جو اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے خاندانوں میں اسلامی احکام نافذ ہوں اور ہمارے خاندان اسلام کی رحمتوں اور منفعتوں کے عملی نمونے بن جائیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021