ڈاکٹر محمد اسامہ
دین اسلام میں خاندان کی اہمیت و استحکام پر خصوصی زور دیا گیا ہے کیوں کہ یہ معاشرے کی سب سے اہم اور بنیادی اکائی ہے اور معاشرے کی ترقی، نشوونما اور استحکام کا انحصار بھی اسی کے استحکام پر منحصر ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم کے ایک تہائی احکام عائلی نظام زندگی سے متعلق ہیں۔اس کا مقصد جہا ں ایک طرف نسلِ انسانی کو باقی رکھتے ہوئے اسے تحفظ فراہم کرنا ہے وہیں دوسری طرف ایسے افراد تیار کرنا بھی ہے جومعاشرے و ملت کی تعمیر اور انسانیت کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔
نظامِ زندگی میں خاندان کا وجود مرد اور عورت کے درمیان شادی سے ہوتا ہے،پھر اس میں ان کے بچے،والدین او ر دیگر خونی رشتے دار بھی شامل ہو کر ایک وسیع خاندان کو تشکیل دیتے ہیں۔البتہ شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوی،بچوں کی کفالت ،نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے ساتھ قیامِ زندگی سے متعلق امور کی سربراہی کرے۔بیوی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر کے داخلی امور و انتظام کو سنبھالے۔واضح رہے کہ مرد کی سربراہی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت کا درجہ اسلام کی نظر میں کم تر یا کم زور ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس نے مرد و عورت دونوں کی سرگرمیوں کے دائرے متعین کر دیے ہیں اور ان کوان ہی حدود میں رہ کر کام کرنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’تم میں سے ہر ایک نگراں ہے،اور اس سے،اس کے ماتحتوں سے متعلق سوال ہوگا۔پس امیر نگراں ہے اورآدمی اپنے گھر والوں پر نگراں ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اوراپنے بچوں پر نگراں ہے،پس تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
اسلام نے درج بالا مقاصد کے پیشِ نظر خاندان اور اس کی اساس نکاح کو بہت اہمیت دی ہے،البتہ اللہ تعالیٰ نے مؤخر الذکر کو لازمی اور اٹل حیثیت نہیں دی ،بلکہ اس بات کی گنجائش رکھی کہ اگر زوجین کے درمیان تمام اصلاحی کوششوں کے باوجود بھی نباہ ہونا مشکل ہورہا ہے تو بھلے طریقے سے شریعت کے مطابق دونوں طلاق یا خلع کے ذریعہ علیحدہ ہو جائیں۔یہ پہلو بھی درحقیقت ایک انعامِ خداوندی ہے۔
امتِ مسلمہ کی بدقسمتی یہ رہی کہ وہ دیگر قوموں بالخصوص مغربی تہذیب کی بنیادوں اور اس کے پرفریب نعروں کو سمجھ نہیں سکی اور اس کی اقدار کو اس کے اثرات کے ساتھ قبول کرتی چلی گئی۔اس کا نقصان اسے اپنے عائلی نظام زندگی میں بھی اٹھانا پڑ رہا ہے،چناں چہ اب مسلمانوں کے خاندان بھی چھوٹے سے چھوٹے ہوتے چلے جا رہے ہیں،نوجوان لڑکے لڑکیوں میں تاخیر سے شادیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔مرد اورخواتین دونوںمیں آبادی کی تخفیف کرنے یا تنہا ہی زندگی بسر کرنے کے خیالات جنم لے رہے ہیں۔ یقینا یہ مسلم خاندانوں کا افسوس ناک پہلو ہے۔اس صورت حال پر اگر غور کیا جائے تو اسے دواسباب کے تحت بیا ن کیا جاسکتا ہے:
(الف)داخلی عوامل
مسلمانوں کے خاند انوں میں بگاڑ کا ایک اہم سبب خود ان کا اپنے دین اور اسلامی تہذیب سے دور ہونا ہے۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم، اسوۂ نبوی کو تھامے رکھا، کبھی بھی نہ تو کسی دوسری تہذیب و ثقافت سے متاثر ہوئے اورنہ ہی ان کی عائلی نظام زندگی میں کوئی تہذیب شگاف ڈال سکی۔
دوسرا اہم سبب وہ ہے جو تکثیری معاشرے کے زیرِ اثر ہے۔ یہاں ہندوستانی سماج کی بہت سی برائیوں اور اسلام مخالف رسوم و رواج کو انھوں نے ثقافتی اثر کے طور پر قبول کیا اور اپنی دینی اقدار و روایات کو چھوڑ بیٹھے۔ اس کی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مثلاً وراثت کے اسلامی نظام سے جہیز کی برائی تک کا سفر سب کے سامنے ہے۔
تیسرا اہم سبب جس نے مسلمانوں کے خاندان کو مستحکم ہونے میں روکاٹ ڈالی ہے وہ ان کا اپنے دینی تعلیمی نظام سے دوری اختیار کرتے ہوئے مغربی نظام تعلیم کو اختیار کرنا ہے۔اولاً تو امت مسلمہ تعلیمی میدان میں ہی پیچھے ہے اور اس پر مزید ستم یہ کہ اس نے ایک ایسے تعلیمی نظام کی پیروی کی ہے جس میں مرکزیت نہ تو انسان کو حاصل ہے اور نہ اللہ کو بلکہ اس کا مرکزی نقطہ دنیا کے لیے سرمایہ داروں کے لیے ورک فورس تیار کرنا ہے۔ایسی تعلیم سے فارغ افراد کی قوتِ فکر وعمل کا منہج کیا ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔آج ہمارے معاشرے کی تہذیبی اقدار کے اتھل پتھل کرنے میں اس تعلیمی نظام اور اس سے بننے والی سوچ کا بڑا عمل دخل ہے۔
(ب)خارجی عوامل
جب کوئی قوم دیگر اقوام کے مقابلے زوال پذیر ہوتی ہے تو پھر وہ زندگی کے ہر میدان میں دوسروں کی تقلید کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔یہی حال امت ِ مسلمہ کے ساتھ ہوا۔نیز اس میں یورپ کی تحریک آزادی نسواں، صنفی مساوات، حقوق نسواں وغیرہ کے پرفریب نعروں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یورپ نے اپنے افکار و نظریات کے فروغ کے لیے نہ صرف اقوام متحدہ،سیڈا اور اسی طرح کی دیگر بین الاقوامی تنظیمیں تشکیل دیں بلکہ ان کے تحت مختلف کانفرنسیں ،سیمینارز اور پروگرام وغیرہ منعقد کرانے کی پالیسی بنائی ہے۔ مغربی مفکرین بھی اپنی تحریروں میں اسلامی عائلی نظام اور اس کی تہذیب کو اپنی قوم و نسل کے لیے ’خطرہ‘ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب عورت نکاح کے بعد اپنی عائلی زندگی کا آغاز کرتی ہے تواس کا ذہن مرد کو گھر کا سربراہ اور نگراں کے طور پر قبول نہیں کرتا اور پھر ازدواجی زندگی تلخ سے تلخ ترین ہوتی چلی جاتی ہے۔اسی سوچ کے ساتھ جب وہ مغربی تہذیب کے زیر اثر باہر نکلتی ہے تو پھر بچوں کی تعلیم و تربیت، پرورش اور دیکھ بھال نیز دیگر گھریلو ذمہ داریاں متاثر ہوتی ہیں۔ان تمام کے مضر اثرات کہیں نہ کہیں خاندان پربھی ہوتے ہیں۔امریکہ کے ایک مشہور جریدے کے مدیر مارٹن بی زگ نے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا:
’’جس طرح روس کے آنجہانی رہ نما جوزف اسٹالن نے کمیونزم کے دفاع کے لیے یورپ و امریکہ سے طویل جنگ لڑی،اسی طرح اب مغرب کو اپنے کلچر و نظریات کی بقا کے لیے اسلام سے جنگ لڑنی ہوگی کیوں کہ مسلم بنیاد پرست اپنے متشددانہ نظریات کو دنیا بھر میں پھیلانے میں مصروف ہیں، جن سے نہ صرف مغرب کے سیاسی ومعاشی فلسفوں اور ان کے نظاموں،ان کے کلچر اور عالمی مفادات کو شدید خطرات لاحق ہیں بلکہ ان کے مذہبی عقائدبھی اسلام کے خطرے کی زد میں ہیں۔اس کا مداوا سوائے جنگ کے اور کچھ نہیں ہے۔‘‘
رہی سہی کسر مغرب کے دیے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام، سودپر مبنی معیشت،بے روزگاری، مہنگائی، پرائیوٹ تعلیمی نظام،آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ،سستی فیملی پلاننگ،کرپشن،عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط نے پوری کردی ہے۔یہ سب ایک ایسے جال ہیں جن میں مسلم ممالک ہی نہیں پوری دنیا بری طرح پھنسی ہوئی ہے،نیزان کے ذریعہ فی کس آمدنی اتنی کم کر دی گئی ہے کہ مرد کا خاندان کی کفالت کرنا مشکل ہورہا ہے اور مجبور ہوکر خواتین کو بھی کمانے کی جدوجہد میں لگنا پڑ رہا ہے اور اس کا اثر براہِ راست خاندانی نظام کی صحت پر پڑرہا ہے۔
مسلمانوں کے خاندانی نظام کو خراب کرنے میں ذرائع ابلاغ نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی اہمیت و افادیت سے یقینا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن تجارتی پہلو سے جو کلچر اس سے وجود میں آرہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ اس کے ذریعہ گھروں میں غیر ضروری اشیاء کی خریداری کا رجحان بہت تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے اور ان سے محرومی کی صورت میں احساس کمتری،آپسی بحث و مباحثہ ،لڑائی اور طلاق تک نوبت پہنچ رہی ہے۔نیزاس میں بہت حد تک مغربی فلموں، کہانیوں،ناولوں اور ڈراموں وغیرہ کابھی اہم کردار ہے جن میں ازدواجی زندگی کو حقیقی زندگی سے بالکل ہی مختلف اور خوش نما بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔مرد اور عورت جب اپنی حقیقی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور معاملات کو اس سے برعکس پاتے ہیں تووہ ذہنی دباؤ اور انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں ،پھر انہیں خاندانی نظام کو باقی رکھنے میں کوئی کشش نہیں رہتی۔ یہ اور اسی قبیل کے دیگر مفاہیم بالواسطہ طورپر اسلامی عائلی زندگی کی فکری بنیادوں کو ڈھانے کا سبب بن رہے ہیں۔
مسئلہ کا حل اورتجاویز
درج بالا بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا خاندانی نظام بھی بہت حد تک کم زور ہو چکا ہے۔سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے اور کن اقدامات سے اسے تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے؟ ہمیںبحیثیت مسلمان کیا کرنا چاہیے؟ کیا اسلام اس سلسلے میں کوئی رہ نمائی کرتا ہے؟ ذیل میں اس حوالے سے بعض تجاویز پیش کی جارہی ہیں جن کے ذریعہ ان مسائل پر یقینا کا فی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے:
٭مسلمانوں میں اس بات کا شعور پیدا کیا جائے کہ’اسلامی تہذیب‘اور’مغربی تہذیب‘ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں،نیزدونوں کے افکار و نظریات اور بنیادی و عملی اساسیات باہم متضاد ہیں۔اس لیے خاندانی نظام میں مغربی تہذیب کے اصولوں کو کلّی طور پر رد کر دینا چاہیے،البتہ اپنے دین کے اصولوں پر چلتے ہوئے مغرب کے تجربات اور وسائل سے مستفید ہونا کوئی حرام اور ناجائز بات نہیں ہے،لیکن اس میں احتیاط لازم ہے کہ ہم مرعوب ذہن کے ساتھ اس کی مکمل اقتدا اور پیروی نہ کرنے لگیں،ورنہ پھر وہی نتائج سامنے آئیں گے جن سے اس وقت مغرب دوچار ہے۔
٭مسلم معاشرے میں ہر شخص/خاندان تک عائلی نظام زندگی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو پہنچانااور اسے یقین دلانا کہ اسی میں خاندان کے لیے دنیا اور آخرت کی کام یابی مضمر ہے۔اس سلسلے میں سمینار، ورک شاپ ،ڈبیٹ،پرنٹ میڈیا،الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا، جاذب نظرتعارفی تمثیلوں اور دیگر ذرائع ابلاغ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے نیزاسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اورمساجدوغیرہ میں عائلی نظام کے موضوع پر خطبات کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔اس پوری کوشش میں ہمارا ہدف یہ ہو کہ اسلام کا عائلی نظام موضوع بحث بنے اور اسے ایک متبادل نظام کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔
٭مسلم معاشرے میں لڑکے اور لڑکیوں کی مناسب وقت پر شادی کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ان کی عصمت وعفت محفوظ رہ سکے اور مخلوط تعلیم یا ملازمت کے دوران ان کے بھٹکنے کے مواقع کم سے کم ہوسکیں۔اس سلسلے میں پیش آنے والی رکاٹوں جیسے جہیزوغیرہ کے خلاف مہم چلائی جائے کیوں کہ اگر انہیں غیر اخلاقی رشتے قائم کرنے کے مواقع زیادہ اور آسانی سے ملیں گے تو پھر ان کے درمیان مضبوط خاندانی رشتے کا وجود صرف خام خیالی ہوگی۔
٭مسلم معاشرے میں موجود شادی بیاہ اور اسی طرح کے دیگر معاملات میں غیر ضروری مقامی اور علاقائی رسم و رواج /روایات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور عورتوں کو اسلام کے عطا کردہ حقوق دیے جائیں۔ بعض تنگ نظر مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات عملاًجم گئی ہے کہ ان کے دین میں عورتوں کے حقوق سے زیادہ فرائض ہیں اور خواتین ان کو پورا کرنے کی ذمہ دار ہیں۔
٭مسلم خواتین کو مغربی طرز کے نظامِ زندگی کی خرابیوں سے واقف کرایا جائے نیزان کے سامنے اس سلسلے میں اقوام متحدہ اور اسی طرح کے دیگر عالمی اداروں کے ذریعے عورتوں کو’مساوات ‘اور’آزادی ‘ کے نام سے دیے گئے ’حقوق‘کی حقیقت کو واضح کیا جائے۔ مزیدبرآں ا ن کی سرگرمیوں ،مقاصد، اہداف اورمضراثرات کو مختلف رپورٹس اور اعداد و شمار کے ذریعے عام کیا جائے۔
٭عورت کے اصل کردار یعنی مادریت (Motherhood)کی اہمیت و افادیت کو معاشرے میں میڈیا اور مضامین کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے ۔قرآن و حدیث نے ماں کے مقام اور درجے کے تعلق سے نہایت اہم باتیں پیش کی ہیں، ان کو دلچسپ انداز میں مسلم خواتین کے سامنے پیش کیا جائے اور پورے معاشرے کو اس کا حصہ بنانے کی کوشش ہو۔
٭خاندان کے بنیادی عناصر والدین، زوجین اور اولاد کے درمیان تعلق اور رشتہ کم زور کرنے والی خرابیوں اور برائیوں پر غور کرتے ہوئے ان سے اجتناب کیا جائے تاکہ خاندانی نظام مضبوط ہو سکے۔خاندان کی اہمیت ،ضرورت اورنزاکت سے لوگوںکو واقف کرانے کے لیے ملک کی مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے آگاہی مہم چلائی جائے۔
٭دینی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے ’خاندان فنڈ‘کی شروعات کی جائے اور اس کا مقصد غریب خاندان کی بقدر ضرورت کفالت،گھر بسانے کی خواہش رکھنے والے مر داور عورت کی قرض حسنہ کے طور پر امداد ،بیوہ اور مطلقہ کی دوبارہ شادی کراناوغیرہ ہوسکتا ہے۔
٭مسلم نوجوانوں میں جدید اور رائج تہذیب کے مضر اثرات اور اس کے نتیجہ میں ممکنہ خطرات جیسے خاندانی منصوبہ بندی،جنسی بے راہ روی،آزادانہ اختلاط اورنفسیاتی و جسمانی بیماریوں سے واقف کرایا جائے تاکہ وہ ان سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔
٭ متبادل میڈیا کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کے ذریعہ جدید تہذیب وثقافت اور اس کے عائلی نظام کے نقصانات کو مسلم معاشرے کے سامنے پیش کیا جائے ۔مزید برآں اسلامی عائلی نظام کی اہمیت، فوائد اور اس کے اخلاقی اقدارکی فوقیت اور اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا جائے کہ انسانیت کی بھلائی اور کام یابی اسی کے ذریعے ممکن ہے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ جدید میڈیا اوراس کے اثرات کو نئی نسل بلا سوچے سمجھے تیزی سے قبول کر رہی ہے جس سے ان کے اندر اخلاقی زوال وانارکی پیدا ہو رہی ہے۔ll
اولاً تو امت مسلمہ تعلیمی میدان میں ہی پیچھے ہے اور اس پر مزید ستم یہ کہ اس نے ایک ایسے تعلیمی نظام کی پیروی کی ہے جس میں مرکزیت نہ تو انسان کو حاصل ہے اور نہ اللہ کو بلکہ اس کا مرکزی نقطہ دنیا کے لیے سرمایہ داروں کے لیے ورک فورس تیار کرنا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021