
! حزب اختلاف بھی عوام کو جوابدہ
آپریشن سندور:سفارتی محاذ پر اپوزیشن کی شمولیت۔ مقاصد، نتائج اور اگلے مرحلے کے سوالات
زعیم الدین احمد ، حیدرآباد
نیشنل سیکیورٹی کے نام پر سیاسی خاموشی: اہم معلومات بیرونِ ملک شیئر ہو سکتی ہیں، تو بھارتی عوام سے کیوں نہیں؟
بھارت کی جانب سے پاکستان پر حالیہ فوجی کارروائی یعنی "آپریشن سندور” کے بعد جو سفارتی مہم شروع کی گئی ہے اس میں تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی بیانیے کا ساتھ دینا مناسب سمجھا اور حکومت کے ساتھ شامل ہو گئیں۔ یہ وفود دنیا بھر کا دورہ کر رہے ہیں، عالمی رہنماؤں اور اداروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور بھارت کے مؤقف کی وضاحت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
یہ پہلو اپنی جگہ خوش آئند ہے کہ قومی سلامتی جیسے اہم مسئلے پر سیاسی اتفاقِ رائے قائم ہوا ہے۔ لیکن اس اتفاقِ رائے اور یکجہتی کا ایک بنیادی پہلو ہمیں مفقود نظر آتا ہے اور وہ ہے بھارتی عوام کو اعتماد میں لینا۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاست داں عوامی نمائندے ہوتے ہیں۔ ان کی اصل جواب دہی اپنے عوام یعنی اپنے ووٹروں کے سامنے ہوتی ہے نہ کہ عالمی اداروں یا غیر ملکی حکومتوں کے سامنے؟ چنانچہ جب یہ سیاست داں بین الاقوامی دوروں پر جاکر اپنے ملک کا دفاع کر رہے ہیں تو اس سے قبل یا کم از کم اس کے بعد انہیں عوام کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے۔
بیرونِ ملک بریفنگ، اندرونِ ملک خاموشی!
حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے یہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی میڈیا، تھنک ٹینکس اور سفارت کاروں کو اپنے موقف کی بریف کی جا رہی ہے لیکن اپنے ملک کے عوام کو اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے، فوجی کارروائی میں کیا کچھ ہوا، اس کی معلومات بیرون ملک میڈیا سے حاصل ہو رہی ہیں، اور یہ معلومات بھی ہمارے اپنے نمائندے پیش کر رہے ہیں! یہ نہ صرف جمہوری اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اس سے عوام میں بے اعتمادی بھی جنم لیتی ہے۔ اگر کوئی معلومات غیر ملکی عوام یا صحافیوں سے شیئر کی جا سکتی ہیں تو وہی معلومات عوام سے کیوں چھپائی جا رہی ہیں؟ کہیں یہ "خفیہ معلومات” کی آڑ میں ذمہ داری سے فرار کی کوشش تو نہیں ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی کے طرزِ عمل سے تو ہم اچھی طرح وقف ہیں کہ ان کے طرزِ عمل سے اب کسی وضاحت کی توقع ہی نہیں رہی۔ وہ مسلسل سوالات سے بچتے رہے ہیں۔ لیکن سوال اپوزیشن سے ہے: اگر وہ خود کو ایک سنجیدہ متبادل سمجھتی ہے تو کیا اسے بھی وہی روش اختیار کرنی چاہیے، جو وزیراعظم مودی نے اختیار کی ہے؟
سوالات جو جواب چاہتے ہیں!
عوامی سطح پر اس پورے عمل کے حوالے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ کچھ سوالات وہ ہیں جو ان بین الاقوامی وفود سے خود بیرونی دنیا میں پوچھے جا رہے ہوں گے اور کچھ سوالات ایسے ہیں جو ملک واپس آکر انہیں عوام کو خود بتانے چاہئیں۔
1۔ آپریشن سندور کا مقصد کیا تھا اور کیا وہ حاصل ہوا؟
جنگ اگر سیاست کا تسلسل ہے تو یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس کے کیا نتائج حاصل ہوئے؟ کیا اس کارروائی نے زمینی حقائق میں کوئی سیاسی تبدیلی لائی ہے؟ کیا کشمیری عوام، بالخصوص سیاحوں کے تحفظ کے لیے کوئی مستقل حکمت عملی تیار کی گئی ہے جیسا کہ سرکاری بیانات میں کہا جا رہا ہے کہ کارروائی صرف "روکی گئی ہے”، اگر کارروائی معطل ہی کی گئی ہے تو کیا اس کا اگلا مرحلہ متعین کیا گیا ہے؟ یہ سوالات بیرون ملک کیے گیے ہیں، اگر یہ سوالات بیرونِ ملک کیے گئے ہیں تو ان کا جواب یہاں کے عوام کو کیوں نہیں دیا گیا؟
2۔ مسئلہ کشمیر کا مستقل حل کیا ہے؟
حکومت کی جانب سے بارہا دعویٰ کیا گیا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی، ریاست کی تقسیم اور دیگر سخت اقدامات دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تھے۔ لیکن آج حالات اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ پہلگام میں ہندو یاتریوں کو مذہب کی بنیاد پر قتل کیا جانا ایک ناقابلِ تصور سانحہ ہے۔ اگر حکومت یہ کہتی ہے کہ اب صرف پاکستانی مقبوضہ کشمیر پر بات ہوگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جموں و کشمیر کی حتمی حیثیت ابھی بھی طے نہیں ہوئی ہے۔ کیا اپوزیشن اس بیانیے پر متفق ہے؟ اور سب سے اہم بات، اگر حکومت کی حکمت عملی ناکام رہی ہے، تو کیا اپوزیشن کے پاس کوئی متبادل حکمت عملی موجود ہے؟
3۔ ہمارے ہمسائے ممالک ہماری اس کارروائی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جن ممالک سے بھارتی وفود رابطے کر رہے ہیں، ان میں بیشتر ایسے ہیں جن کا نہ تو براہِ راست جغرافیائی تعلق ہے اور نہ ہی اس مسئلے میں کوئی مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ کیا ہم نے چین، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا یا افغانستان سے اس معاملے پر کوئی مشاورت کی ہے؟ کیا ہم نے ان کی آراء کو اہمیت دی ہے؟ جب عالمی میڈیا بھارت سے یہ پوچھے گا کہ اس کے اپنے ہمسایہ ممالک اس کارروائی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمارے پاس کیا اس کا کوئی ٹھوس جواب موجود ہے؟ اگر نہیں، تو کیا یہ ہماری سفارتی ناکامی نہیں ہے؟
4۔ دنیا بھارت کو مسئلے کا حصہ سمجھتی ہے یا حل کا؟
یہ سوال ان وفود سے کیا جائے جو دنیا بھر کا دورہ کر کے لوٹے ہیں۔ کیا دنیا ہمیں ایک ذمہ دار جمہوری ریاست کے طور پر دیکھ رہی ہے، یا ایک ایسے ملک کے طور پر جو تنازعات کو بڑھا رہا ہے؟
بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں بھارت کا تاثر ایک ایسے ملک کے طور پر ابھرا ہے جو نہ صرف اندرونِ ملک اپنی اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ رویہ رکھتا ہے بلکہ بیرونِ ملک بھی انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث حکومتوں کی حمایت کرتا ہے۔ اندورن ملک اقلیتوں، خاص کر مسلم اقلیتوں اور پسماندہ طبقات دلت، آدی واسی طبقات کے خلاف ہونے والے ظالمانہ کارروائیوں پر حکومت لب کشائی تک نہیں کرتا، نہ صرف خاموش تماشائی بنا رہتا ہے بلکہ حکم راں پارٹی کے نمائندے فرقہ پرستی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ یہ ساری کارروائیاں دنیا دیکھتی ہے۔ روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کا عمل دنیا دیکھ رہی ہے، بنگلہ دیش میں غیر قانونی اقدامات، میانمار کی فوجی حکومت سے مراسم، طالبان سے قربت یہ تمام عوامل ہمارے کردار کو متاثر کر رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہوگی کہ کسی بڑے ملک نے "آپریشن سندور” کی کھل کر حمایت نہیں کی، جب کہ جنگ بندی کے اعلان پر سب نے سکھ کا سانس لیا۔
اپوزیشن کو جواب دینا ہوگا
اب جب کہ اپوزیشن نے حکومت کی سفارتی کوششوں میں شمولیت اختیار کی ہے تو اس پر بھی لازم ہے کہ وہ بھارتی عوام کو جواب دے۔ سیاست صرف حکومت پر تنقید کا نام نہیں ہے۔ اگر آپ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں تو آپ کو اس کے مؤقف کا بوجھ بھی اٹھانا ہوگا، اور عوام کو یہ بتانا ہوگا کہ آپ کی اپنی ترجیحات کیا ہیں، متبادل حکمت عملی کیا ہے اور آپ آئندہ کن اصولوں کی بنیاد پر قومی سلامتی کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔
کیا آپ محض خاموش تائید میں شریک ہیں یا واقعی ملک و ملت کے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچا بھی ہے؟ اگر سوچا ہے تو اب بتانے کا وقت آگیا ہے۔ عوام منتظر ہیں۔
***
اپوزیشن نے حکومت کی سفارتی کوششوں میں شمولیت اختیار کی ہے تو اس پر بھی لازم ہے کہ وہ بھارتی عوام کو جواب دے۔ سیاست صرف حکومت پر تنقید کا نام نہیں ہے۔ اگر آپ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں تو آپ کو اس کے مؤقف کا بوجھ بھی اٹھانا ہوگا، اور عوام کو یہ بتانا ہوگا کہ آپ کی اپنی ترجیحات کیا ہیں، متبادل حکمت عملی کیا ہے اور آپ آئندہ کن اصولوں کی بنیاد پر قومی سلامتی کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025