حافظ قرآن سائنس داں :مدرسے کے طالب علم کا امریکہ تک کا سفر

کینسر یا ٹیومر (tumour) کو غیر معمولی قوت کے ساتھ ختم کر کے محفوظ علاج کے لئے کی جا رہی ہے ریسرچ

بنگلورو (دعوت نیوز بیورو)

 

مسلسل محنت، منظم منصوبے، استقامت اور لگن کے ذریعہ کھولےجاسکتے ہیںبند دروازے
کینسر کی مختلف شکلوں پر تحقیقی کام کر رہے ڈاکٹر کوثر رضا کے ساتھ راشدہ بکیت کی خاص گفتگو
محنت کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی۔ اس کہاوت کو دہلی کے رہنے والے ڈاکٹر کوثر رضا نے سچ ثابت کیا ہے۔ ڈاکٹر رضا ریسرچ کی دنیا میں آگے بڑھ کر امریکہ میں پوسٹ ڈوکٹورل فیلو کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ چھ سال کی عمر میں مدرسہ میں داخل ہوئے، تین چار سال میں حافظ مکمل کیا۔ ان کے استاد نے ان کے شوق اور ذہانت کو دیکھ کر انہیں آگے کی تعلیم کے لیے اسکول میں داخلہ لینے کا مشورہ دیا۔ پھر اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے غیر معروف اسکول کے آٹھویں جماعت میں داخلہ لیا۔ ایک سال بعد کوثر بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پڑھ رہے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ انٹرنس ٹسٹ دینے کی تیاری کرنے لگے۔ اردو اور انگریزی میں کمزور ہونے کے باوجود کوثر کی محنت اور حفظ کرنے کی عادت سے امتحان پاس کرنے کے بعد نویں جماعت میں داخلہ مل گیا۔
ایسے ہی کوثر کا سفر بڑھتا گیا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیمسٹری مکمل کی اور آئی آئی ایس سی، بنگلور میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے داخلہ لیا۔ آئی آئی ایس سی میں بھی کوثر نے اپنی ہوشیاری اور محنت کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ ممالک جیسے امریکہ، سوئٹزرلینڈ، میں ہوئی کانفرنسوں میں بھارت کی نمائندگی کی۔ میں جب کانفرنس میں گیا تب میں نے دیکھا کس طرح وہاں ریسرچ کی جاتی ہے اور وہاں اسٹوڈنٹ کس طرح ریسرچ کو آگے بڑھاتا ہے۔ اپنے تجربے میں اضافہ کرنے کے لیے آج ڈاکٹر کوثر امریکہ کی کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹکنالوجی (کالٹیک) میں پوسٹ ڈوکٹورل فیلو کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ آج ڈاکٹر کوثر رضا دنیا کی سب سے خطرناک بیماری کینسر پر کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر کوثر رضا کی کینسر ریسرچ کو تفصیل سے جاننے کےلیے انڈیا ٹومارو کی جرنلسٹ راشدہ بکیت کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی ہے، اسی گفتگو کا خلاصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: برائے مہربانی اپنے ریسرچ کی ایک مختصر وضاحت پیش کریں۔
جواب: میری تحقیقی دلچسپی بنیادی طور پر اس بات پر مرکوز ہے کہ [4Fe-4S] کے مرکبات (جو عناصر فولاد اور گندھک سے مل کر بنا ہوتا ہے) اور پلاٹینم (جسے طب حکمت میں طلائی سفید کے نام سے جانا جاتا ہے) پر مبنی کینسر مخالف ایجنٹس (anticancer agents) کی مدد سے کینسر کی تشخیص اور اس کے علاج (جسے انگریزی میں Anticancer Therapy کہتے ہیں) کی تلاش کی جا سکے۔یہ تحقیقی دائرہ دو حصوں میں منقسم ہے: 1- برقی کیمیا (Electrochemical) اور حیاتیاتی کیمیا (Biochemical) کے مطالعات کے ذریعے یک خلوی لحمیہ (یوکیریاٹک پروٹین) میں [4Fe-4S] گچھے کے کیمیائی کردار کی تحقیقات کرنا۔ 2-کینسر کے کیموفوٹو تھراپی (chemo phototherapy) علاج کے لیے پلاٹینم پر مبنی مرکبات کا استعمال کرنا۔ کینسر مہلک ترین بیماریوں میں سے ایک بیماری تسلیم کی جاتی ہے، جو انسانی جسم کے مختلف حصوں کو اپنا شکار بناتی ہے۔ جسم میں کینسر زدہ خلیوں (cancerous cells) کے پھیلنے کے عمل کو غیر موثر بنانے کے لیے اب تک کئی طریقوں کو اپنایا گیا ہے، جیسے کیمیائی علاج (خاص طور پر پلاٹینم پر مبنی کینسر مخالف ادویات)، ضیا حرکتی علاج (فوٹو ڈائنامک تھراپی)، وغیرہ۔ انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس، بنگلور (IISc, Bangalore) میں پی ایچ ڈی کی تحقیق کے دوران میں نے روایتی کیموتھراپی اور فوٹو ڈائنامک تھراپی کے ادویات، بشمول NER مشینری (یہ کلیدی ترشہ یا DNA کی جراحت کر کے اس کو مرمت کرنے کو کہتے ہیں) میں موجود خلا کو پر کرنے کی کوشش کی۔ میں ان دو معروف طریقوں، یعنی کیمیائی علاج (کیموتھراپی) اور ضیا حرکتی علاج (فوٹو ڈائنامک تھراپی، جو کہ عناصر کے جواہرات کی حرکتوں کی وجہ سے اثر انداز ہوتی ہے) کو ملا کر کینسر کے خلیوں کو منتخب طور پر ہلاک کرنے کے لیے طلائی سفید یعنی پلاٹینم پر مبنی مرکبات کی ساختی خصوصیات کو مرتب کیا۔ سوچ یہ تھی کہ اس کے لیے کینسر کے روایتی علاج کے کیمیات وادویات، سیسپلاٹین (cisplatin) اور BODIPY (جو کہ دراصل ایک خضاب ہوتا ہے)، یا اسی طرح کے ساختی ڈھانچہ پر مشتمل مختلف مرکبات کا ایک سلسلہ تیار کیا جائے جن میں ضیا حرکتی سرگرمی کی خوبیاں موجود ہوں۔ ضیا حرکتی علاج (فوٹو ڈائنامک تھراپی) میں روشنی کی مدد سے کینسر خلیات کی بڑھوتری پر روک لگائی جاتی ہے۔ اس کی یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ٹیومر سیل کے ڈی این اے کو پھاڑ کر اسے ختم کر دیتی ہے، جس کے نتیجے میں اس سیل (خلیہ) کی موت ہو جاتی ہے۔
سیل کی شبیہ سازی (cell imaging)جسم کے اندر موجود کینسر مخالف ادویات پر نظر بنائے رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ پلاٹینم اور BODIPY شبیہ سازی میں مدد کرنے کے ساتھ روشنی کی موجودگی میں کینسر زدہ خلیات کو ختم کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ضیا حرکتی اور کیمیائی علاج کے کینسر مخالف ایجنٹس کے ڈیزائن کو اور موثر بنانے کی طرف امید کی کرن لے کر آئی ہے۔ اس سے پہلے پی ایچ ڈی میں میری تحقیقی کوشش کینسر کے علاج کی طرف مائل تھی، لیکن اب میری تحقیق کا دائرہ کلیدی ترشہ (DNA) کے ذریعے ہونے والے برقی ذرے کے نقل وحمل کے کیمیائی مطالعے پر مرکوز ہے۔ اس کے تحت لوہا اور گندھک کے گچھے [4Fe-4S] کی مدد سے یک خلوی کلیدی ترشے کو بڑھانے اور اس کی مرمت کرنے والی لحمیات کے عملی کردار کا جائزہ لینا مقصود ہے۔ ٹیومر کی جگہ معلوم کرنے کے لیے کلیدی ترشہ کے ذریعے ہونے والے برقی منفیہ کے تبادلے کا استعمال کر ہم برقی کیمیائی تجزیہ کو انجام دیتے ہیں۔
سوال: آپ نے اپنے تحقیق کی شروعات کب کی اور اسے کب مکمل کیا؟
جواب: میرے ریسرچ کا آغاز سال 2014 میں ماسٹرز (ایم ایس سی) کے مقالہ کے کام سے ہوا۔ جنوری 2015 سے میں نے پی ایچ ڈی محقق کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا، جسے اکتوبر 2018 میں کامیابی کے ساتھ مکمل کر ریسرچ مقالہ جمع کر دیا۔ فی الحال، جنوری 2020ے، پوسٹ ڈوکٹورل فیلو کی حیثیت سے بایو کیمسٹری کے شعبے میں تحقیق کا کام انجام دے رہا ہوں۔
سوال: آپ کی تحقیق کا اصل مقصد کیا تھا؟
جواب: چونکہ آج الگ الگ کے کینسر، جیسے: کولوریکٹل کینسر (colorectal cancer)، سینے کا کینسر (breast cancer)، منہ کا کینسر (mouth cancer)، پھیپھڑوں کے کینسر (lungs cancer)، وغیرہ کے علاج معالجے میں متعدد قسم کے ادویات کا استعمال ہو رہا ہے، میری تحقیق کا مقصد یہ تھا اس کی دوا اس طرح سے ترتیب دی جائے کہ وہ عام خلیوں کو نقصان پہنچائے بنا صرف کینسر زدہ خلیوں کو نشانہ بناتی ہو۔ ہمارا ارادہ تھا کہ دو عملی ترکیب کو بروئے کار لاتے ہوئے پلاٹینم پر مبنی کینسر کی ایسی دوا تیار کی جائے جو کینسر کے خلیوں کو منتخب کرتے ہوئے ہلاک کرے۔
سوال: آپکی تحقیق سے کیا نتائج برآمد ہوئے؟
جواب: ہم نے پلاٹینم پر مبنی یک عملی مرکب کی ایسی سیریز تیار کی جس کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ کلیدی ترشہ (DNA) سے چپک کر کینسر کے علاج میں معاون ثابت ہو سکے۔
چونکہ خیطی ذرہ (mitochondria) سیل (خلیہ) کی توانائی کا ماخذ ہوتا ہے اور NER مشینری (جس کا کام کلیدی ترشہ یا DNA کی جراحت کر اسے مرمت کرنا ہے) سے بھی محروم ہوتا ہے، ہم نے جس کینسر مخالف ادویات کو ترتیب دیا ہے وہ سیل کے اندر موجود خیطی ذرہ (mitochondria) کو نشانہ بناتی ہے۔ ریسرچ سے برآمد اہم نتائج کہ طور پر مختلف اقسام کی شروعاتی ادویات (prodrugs)، جو کہ ہماری مقامی تجربہ گاہوں میں ہی برسرِ تخلیق ہیں، وجود میں آرہی ہیں۔ کینسر کی روک تھام میں ان ادویات کی کارکردگی FDA کی منظور شدہ فوٹوفرین (photofrin) دوائی کے مقابلے 100 گنا بہتر پائی گئی ہیں۔ مزید یہ کہ خلیوں کے اندر ان ادویات پر نظر بنائے رکھنے میں بھی مدد ملی ہے، جو کہ FDA سے منظور شدہ پلاٹینم پر مبنی کینسر مخالف ادویات کے معاملے میں ممکن نہیں ہے۔ ضیا حرکتی علاج (photodynamic therapy) اور کیمیائی علاج (chemotherapy) کے دو عملی ترکیب کو اپناتے ہوئے ہم نے ان دوائیوں کے تجربات زندہ چوہوں پر کیے (اس عمل میں پہلے چوہا کو کینسر کا مریض بنایا جاتا ہے یعنی اس میں کینسر پیدا کیا جاتا ہے اور پھر دوائیاں کھلا کر ان کے اثرات دیکھے جاتے ہیں)۔ ان تجربات سے جو امید افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں وہ اس ابھرتے ہوئے فیلڈ (حلقہ عمل) میں سند حق ایجاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کام ہم نے آئ آئ ایس سی، بنگلور (IISc, Bangalore) کے تعاون کے ساتھ انجام دیا تھا۔
سوال: اس تحقیقی سفر میں آپ کو کس طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب: ایم ایس سی (.M.Sc) کی تعلیم کے دوران میں نے ہم آہنگی کیمیا (coordination chemistry) کے ایک ریسرچ پراجیکٹ پر کام کیا تھا۔ اس کے تحت میں نے کیمیاوی ترکیب سے دھاتوں کے عبوری مرکبات بنانا سیکھا، اور مختلف طیف پیمائی کی تکنیک کے ذریعے انکے وصف پر گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا۔ اس کے بعد میں بایو- ان آرگینک کیمسٹری (bio-inorganic chemistry) لیبارٹری کے ساتھ جڑا، جہاں کفایتی طریقوں کو اپناتے ہوئے علم الادویہ پر مرکوز ہو کر دھات کے مرکبات کو ترتیب دینا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے علاؤہ اس کی ساخت میں موجود سیلانی شعاؤں کے پہلو میں جذب اور اخراج کے ضیائی مادی وصف کا ہونا بھی لازمی تھا، تاکہ وہ جسم کے کافی اندر تک دوا کی رسائی میں معاون ہو سکے۔ دواؤں کی بنفشی اور بالائے بنفشی (UV-VIS) صفات کے مطالعے کے بعد ہی اس میں کامیابی میسر ہو سکی۔ کینسر زدہ خلیوں کے علاج میں دو عملی ترکیب کو انجام دینے والی دوائی تیار کرنا اپنے آپ میں ایک چیلینج تھا۔ اس تحقیقی سفر کے اگلے پڑاؤ کے طور پر میں نے کالٹیک (Caltech) کی بایو کیمسٹری لیب میں شمولیت اختیار کی جہاں مجھے تجربات اور نتائج کے تجزیاتی مطالعے سے قبل نئی تکنیک اور طریقے سیکھنے پڑے۔
سوال: کوئی تعلیمی وظیفہ یا انعام جو آپ کو اپنے تحقیقی کام کے لیے ملا ہو؟
جواب: میرے ڈوکٹورل ریسرچ کو تسلیم کرتے ہوئے مجھے امریکہ کے گورڈن ریسرچ کانفرنس (GRC, Metal in Medicine) کے لیے کارل اسٹارم انٹرنیشنل ڈائورسیٹی (CSID) کی فیلوشپ سے نوازا گیا۔ اس کے علاؤہ مجھے گورنمنٹ آف انڈیا ٹریول ریسرچ ایوارڈ، سی ایس آئی آر (CSIR) ٹریول ریسرچ ایوارڈ، اور آئی سی ایم آر (ICMR) ٹریول ریسرچ ایوارڈ بھی حاصل ہوا۔ سوئٹزرلینڈ کے آئی سی بی آئی سی (ICBIC-19) کے لیے مجھے ایس بی آئی سی (SBIC) اسٹوڈینٹ ٹریول گرانٹس ملا۔ پی ایچ ڈی کے دوران MHRD اور CSIR کی طرف سے 5 سال کا فیلوشپ بھی مجھے حاصل ہوا۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کی تحقیق معاشرے کو کس طرح سے فائدہ پہنچائے گی؟
جواب: کینسر کا شمار دنیا کی دوسری سب سے مہلک بیماریوں میں ہوتا ہے۔ ہندوستان میں کینسر سے متاثرہ آبادی کا تقریباً 30 فی صدی حصہ صرف منہ کے کینسر سے دوچار ہے۔ کینسر کی روک تھام کے لیے موجود مختلف علاج معالجے میں سے ضیا حرکتی علاج منہ کے کینسر کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہے۔ پلاٹینم پر مبنی ادویات پر میری تحقیق کینسر کے دو معروف طریقہ علاج کو جوڑ کر ٹیومر (tumour) کو غیر معمولی قوت کے ساتھ ختم کرنے کی طرف امکانات کے نئے دروازے کھولتی ہے۔
ہمارے چوہوں کے ماڈل نے ان دوائیوں کی افادیت کا عمدہ مظاہرہ کیا ہے۔ یہ نئی دریافتیں جسم کے اندر دوا اور ٹیومر کے بیچ باہمی عمل کی تحقیقات کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح پلاٹینم پر مبنی ادویات پر عمل درآمد ہو کر کینسر کے علاج کو اور بھی تاثیر بخش بنانے میں مدد ملنے کی امید ہے۔ مزید یہ کہ ان دوائیوں کی تجارت کاری کے فروغ کے بعد کینسر کے علاج میں ہونے والے اخراجات میں نمایاں کمی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ صنعتی سطح پر اس کی پیداوار ہمارے ملک میں ہنرمند اور تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع فراہم کرے گی۔
سوال: ابھی آپ کس نئے ریسرچ پر کام کر رہے ہیں؟
جواب: فی الحال میری تحقیق کا مرکز کلیدی ترشے کے ذریعے سے ہونے والے تبادلہ برقی منفیہ کے کیمیائی پہلو پر ہے۔ میرا مقصد ان تیز مواصلات کی تفتیش کرنا ہے جو لحمیات کے تکسیدی عمل کے ذریعہ DNA یا کلیدی ترشہ کی مرمت یا اصلاح کے لیے ہوتی ہیں۔ ان کلیدی ترشہ کو ترکیب دینے والے خامرات میں حدید (لوہا) و گوگرد (گندھک) کے گچھے ہوتے ہیں [4Fe-4S]، جو کلیدی ترشہ سے جڑنے یا ملنے پر ایک تکسیدی قمچ کی طرح عمل کرتے ہوئے برق کیمیائی نقل وحمل کرتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر یک خلوی کلیدی ترشہ کے خامرات (جن کو خصوصی طور پر پرائمیس اور پولیمریز کہتے ہیں) میں موجود لوہا اور گندھک کے گچھوں [4Fe4S] کے برق کیمیائی کردار کی تفتیش و تحقیق پر متوجہ ہے۔ اور خاص طور سے برق کیمیا، بذریعہ ترمیم شدہ کلیدی ترشہ کے برقیرہ (الیکٹروڈ)، اس کی سرگرمی اور باندھنے کی صلاحیت کا حساسی برق پیمائش کے ساتھ ردعمل کو انجام دینے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
سوال: آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کی اس تحقیق کو کس طرح سے آگے بڑھایا جا سکتاہے؟
جواب: جسم کے اندر عضوہ کو نشانہ بنانے کا عمل آج ایک ابھرتا ہوا فیلڈ ہے۔ اس کے تحت حیاتیاتی نظام کے اندر دھات سے بنائی گئی ادویات کے عملیات واثرات کی تحقیق کرنے کی مزید ضرورت ہے۔ دواؤں کے ساختی ڈھانچے کا انتخاب کر عضوہ خاص کو نشانہ بنانے کا عمل دوا کو اور بھی زیادہ موثر اور قابل عمل بناتی ہے۔ پلاٹینم کے علاؤہ دوسری کئی دھاتیں بھی کینسر مخالف لڑائی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں، جس وجہ کر کفایتی اور حیاتیاتی موافقت رکھنے والے دھاتی سالمات کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و ترتیب ممکن ہو پائی ہے جو کہ توانائی کے ساتھ متعدد کارروائیوں کو انجام دینے صلاحیت رکھتی ہے۔زندہ جانوروں (چوہوں) کے ساتھ کیے گئے تجربات اور ادویات کے جذب وتقسیم کا مطالعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس میں تفصیلی مطالعے کی مزید ضرورت ہے تاکہ اسے طبی آزمائش تک لے کر جایا جا سکے۔
سوال: ابھرتے ہوئے سائنس دانوں کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟
جواب: تعلیم مہم جوئی سے بھرا، کبھی نہ ختم ہونے والا ایک دلچسپ سفر ہے۔ سائنس کی دنیا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اس سفر کو انتہائی خوشی اور اطمینان کے ساتھ گزارنا چاہیے۔ انسان کو اپنے ذاتی امور اور پیشہ ورانہ زندگی دونوں میں نمایاں ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنا انداز واضح اور منطقی رکھیں۔ اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے یا پھر کوئی اظہار خیال کا موقع ہو، اپنے اندر سے جھجھک ختم کریں، چاہے اس کا تعلق ذہنی دباؤ سے ہو یا پھر عدم توازن سے۔ نیز لیبارٹری سے باہر ایک اور دنیا تخلیق کریں، اور اسے مزید جاننے کی کوشش کریں۔ اپنے ابلاغ کے ہنر کو نکھاریں۔ زندگی کے سفر میں ابلاغی صلاحیت کامیابی کی کنجی ہے۔ ہمیشہ مشارکت کو ترجیح دیں، مزید یہ کہ ایک بین موضوعاتی سائنس داں ہونے کے لیے ضروری ہے کہ باہمی تعاون کے ساتھ کام کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔ کچھ الگ کرنے کی کوشش کریں جسے لوگ زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہوں اور اپنا قیمتی وقت اور اپنی محنت اسی پر مرکوز کر دیں، اپنے علم کو وسعت دیں، باہمت بنیں، پر جوش لگن کے ساتھ کام کریں۔ اپنا نام اور مقام خود پیدا کریں۔ اور شاید سب سے بڑھ کر یہ کہ تعلیمی میدان میں کامیابی کے لیے اپنے اندر استقامت پیدا کریں اور ہر حال میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو زندہ رکھیں۔ واضح ہو کہ بند امکان کھولنے کی اصل کنجی ایسے راستے کی تعمیر وتشکیل ہے جو سائنس میں جدت کو ہموار کرے۔ تحقیقی منصوبوں کو دانشمندی کے ساتھ تربیت دیں اور پھر منظم طریقے سے انہیں عملی جامہ پہنائیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں، زندگی کی اس دوڑ میں کامیابی انہیں کے قدم چومتی ہے جن کی رفتار آہستہ لیکن مسلسل بنی رہتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021