جے این یو کے وائس چانسلر کو ہٹانے کے لیے ہزاروں افراد نے کیا دہلی میں مارچ
نئی دہلی جنوری9: جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے طلبا اور اساتذہ پر وحشیانہ حملے کے خلاف جمعرات کے روز ہزاروں طلبا، اساتذہ، سماجی کارکنوں، سیاست دانوں اور دیگر افراد نے دہلی میں ایک زبردست احتجاجی مارچ نکالا۔ وہ گذشتہ اتوار کو کیمپس میں طلبا اور اساتذہ کی حفاظت میں ناکامی پر جے این یو کے وائس چانسلر ایم جگدیش کمار کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
نوجوانوں کے علاوہ مارچ کرنے والوں میں سی پی آئی-ایم، سی پی آئی اور آر جے ڈی کے سینئر رہنما اور دیگر لوگ بھی شامل تھے۔
سی پی آئی کے رہنما پرکاش کرت نے منڈی ہاؤس میں احتجاجی مارچ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’وائس چانسلر اے بی وی پی اور حکمران جماعت کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے کوئی معروضی اور منصفانہ تفتیش ممکن نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وائس چانسلر کو ہٹا دیا جائے۔ سب سے پہلے جس فرد کو جے این یو میں موجودہ گڑبڑ کی ذمہ داری لینی چاہیے وہ وائس چانسلر ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ اتوار (05 جنوری) کو متعدد نقاب پوش افراد نے جے این یو کے ہاسٹل میں گھس کر طالب علموں اور اساتذہ کو بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ بعد میں نقاب پوش افراد میں سے کچھ کی شناخت آر ایس ایس کے اسٹوڈنٹ ونگ اے بی وی پی کے ممبر کے طور پر ہوئی۔ جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کی صدر آئشی گھوش بھی ان درجنوں طلبا میں شامل تھیں جن پر غنڈوں نے بے دردی سے حملہ کیا تھا۔ ان کے سر میں چوٹیں آئیں اور اسن کا بایاں ہاتھ بھی ٹوٹ گیا۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ جب غنڈے ہاسٹلوں پر چھاپے مار رہے تھے اور طلبا کو پیٹ رہے تھے، اس وقت دہلی پولیس کے اہلکار یونی ورسٹی کے مین گیٹ پر کھڑے تھے اور پولیس کی موجودگی میں نقاب پوش غنڈے مار پیٹ کرنے کے بعد کیمپس سے باہر چلے گئے۔ ان میں سے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔
اس احتجاجی مارچ میں متعدد ماہرین تعلیم نے بھی حصہ لیا۔
انڈیا ٹومورو سے گفتگو کرتے ہوئے دہلی یونی ورسٹی کے پروفیسر رتن لال نے یونی ورسٹیوں پر حملے کے لیے بی جے پی-آر ایس ایس پر سخت حملہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ ان دنوں یونی ورسٹیوں پر مسلسل حملے کیے جارہے ہیں کیونکہ سنگھ کی سرپرستی میں بی جے پی کی حکومت کے ایجنڈے میں کبھی بھی تعلیم، یونی ورسٹی اور ملازمت نہیں تھی۔ ان کے ایجنڈے میں منوسمرتی پر عمل درآمد اور گروکول کھولنا ہے جہاں صرف ایک طبقہ کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگا اور پسماندہ، دلتوں اور مسلمانوں سمیت باقیوں کو ایسا کوئی بھی حق حاصل نہیں ہوگا۔ پروفیسر لال نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے یونی ورسٹیوں پر حملہ کرنا ضروری تھا۔
یہ کہتے ہوئے کہ موجودہ حکومت کی ناکامی کے خلاف معاشرہ سڑکوں پر نکل آیا ہے، انھوں نے سیاسی جماعتوں سے معاشرے کی پیروی کرنے کو بھی کہا۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت تمام محاذوں پر ناکام ہو چکی ہے- وہ ملازمت فراہم کرانے سے قاصر ہے، امن و امان خراب ہورہا ہے۔ ہمارے پاس ان کے خلاف سڑکوں پر لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ آج پورا معاشرہ ہی سڑک پر ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی سڑک پر آنا ہوگا۔
مارچ میں موجود دیگر رہنماؤں میں سی پی آئ-ایم کے سیتارام یچوری اور برندا کرت، سی پی آئی سے ڈی راجہ اور آر جے ڈی سے پروفیسر منوج جھا شامل تھے۔
متعدد مظاہرین نے شہریت ترمیمی قانون، نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر کے خلاف بھی پیغامات کے ساتھ پلے کارڈ بھی اٹھا رہے تھے۔
وہ پچھلے ماہ سی اے اے کے خلاف احتجاج کے دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبا پر حملوں کی بھی مذمت کر رہے تھے۔
سی پی آئی-ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’میں یہاں جے این یو طلبا یونین کے سابق صدر کی حیثیت سے آپ کے طلبا سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا ہوں۔‘‘
بڑے پیمانے پر احتجاجی مارچ کے انعقاد پر طلبا کو مبارکباد دیتے ہوئے انھوں نے کہا ’’انتظامیہ نے منڈی ہاؤس تک آپ کو اجازت نہ دینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن آپ نے اسے بڑا بنا دیا ہے۔ یہ آپ کی مستقل جدوجہد کی کامیابی ہے کہ آج انسانی وسائل کے وزیر نے آپ کو بات چیت کے لیے مدعو کیا ہے۔‘‘
یچوری نے جے این یو وی سی کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا۔
واضح رہے کہ جے این یو طلبہ گذشتہ دو ماہ سے ہاسٹل کی فیس میں اضافے کو واپس لینے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔