جے این یو: فیس میں اضافے کی مکمل واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہزاروں طلبا کا ایچ آر ڈی منسٹری آفس کے باہر احتجاج
نئی دہلی، نومبر 29: ہاسٹل فیسوں میں اضافے کے خلاف اپنے بڑے احتجاج کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے، جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ہزاروں طلبا جمعہ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب کیمپس سے مرکزی ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ منسٹری (MHRD) کے دفتر کی طرف روانہ ہوئے۔
ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز تھامے جے این یو طلبا اور بہت سے دوسرے جو ان کی حمایت میں دیگر یونی ورسٹیوں سے آئے تھے، ہاسٹل کی فیس میں اضافے اور ہاسٹل دستی کے مکمل رول بیک کا مطالبہ کررہے تھے۔ پچھلے 30 دنوں میں اس مسئلے پر آج کا ان کا پانچواں زبردست احتجاجی مظاہرہ تھا۔
اضافے کی فیس رجسٹریشن اور ہاسٹل دستی کے رول بیک کے علاوہ طلبا وائس چانسلر ایم جگدیش کمار کو یہ الزام عائد کرتے ہوئے برطرف کرنے کا مطالبہ بھی کررہے تھے کہ انہوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے طلباکے ساتھ ایک بھی میٹنگ نہیں کی ہے۔
طلبا کے دو بڑے احتجاج کے بعد یونی ورسٹی نے پچھلے دو ہفتوں میں جزوی طور پر دو بار فیس واپس کردی ہے۔ تاہم طلبا نے دونوں پیش کشوں کو مسترد کردیا ہے اور موجودہ فیس کے ڈھانچے کی بحالی پر سختی کی ہے۔
پچھلے ایک ماہ میں طلبا نے اس معاملے پر چار بڑے مظاہرے کیے ہیں۔ پہلا 11 نومبر کو اس وقت ہوا جب انہوں نے یونی ورسٹی کے کانووکیشن کے مقام پر احتجاج کیا جہاں ہندوستان کے نائب صدر اور ایچ آر ڈی منسٹر مہمان تھے۔ 18 نومبر کو انہوں نے کیمپس سے پارلیمنٹ تک مارچ کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے انہیں وسط راستے سے روک دیا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کا بھی سہارا لیا تھا جس کے نتیجے میں متعدد طلبا زخمی ہوگئے تھے۔ 23 نومبر کو جے این یو، ڈی یو، جامعہ ملیہ کے ہزاروں طلبا، اساتذہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے منڈی ہاؤس سے جنتر منتر تک ایک بڑا مارچ نکالا۔ 27 نومبر کو طلبہ نے کناٹ پلیس پر ایک بہت بڑا انسانی سلسلہ بنایا تھا۔
کناٹ پلیس کے احتجاج میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے جے این یو ایس یو کے صدر ایشے گھوش نے کہا تھا کہ اس احتجاج کا مقصد بی شتر عوامی فنڈز سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں فیس میں اضافے کو کم کرنا اور جے این یو کی شبیہہ کو تازہ کرنا ہے۔
گھوش نے کہا کہ ’’جب میڈیا جے این یو ایس یو کے منفی امیج کی تشہیر کررہا ہے، وہ جے این یو کے رجسٹرار اور یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی عدم موجودگی کے بارے میں کچھ نہیں لکھ رہا ہے۔ جے این یو ایک مرکزی یونیورسٹی ہے اور یہ حیرت کی بات ہے کہ اس کا رجسٹرار اور وائس چانسلر یونی ورسٹی نہیں آ رہے ہیں لیکن میڈیا انتظامیہ پر سوال نہیں اٹھا رہا ہے۔‘‘