جو بائیڈن انتظامیہ: ترجیحات اور اندیشے

افغان طالبان سے ٹرمپ دور کا امن معاہد ہ ٹوٹ سکتا ہے!

مسعود ابدالی

 

جناب جو بائیڈن نے 46ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔ امن وامان کے حوالے سے تمام خدشات کے باوجود تقریبِ حلفِ وفاداری کے موقع پر امریکی آئین کے احترام، عوام کے حقِ حکمرانی اور قانون کی بالادستی کا روایتی عزم اپنی روح کے ساتھ بہت واضح تھا۔ صف اول کی سیاسی قیادت، عدالت عظمیٰ کا پورا بنچ اور اپنے نئے سپہ سالار کو وفاداری کا یقین دلانے کے لیے جگمگ کرتے تمغے سینوں پر سجائے جرنیل بھی وہاں موجود تھے۔ قومی و سیاسی ہم آہنگی کا تاثر دینے کے لیے تقریب کی نظامت ڈیموکریٹک پارٹی کی سینیٹر ایمی کلوبچر اور امریکی سینیٹ (راجیہ سبھا) میں ریپبلکن پارٹی کی پالیسی کمیٹی کے سربراہ جناب رائے بلنٹ نے مشترکہ طور پر انجام دئے۔ اِس وقت موجود سابق پانچ صدور میں سے تین یعنی بل کلنٹن، جارج بش اور بارک حسین اوباما اپنی بیگمات کے ہمراہ موجود تھے۔ صدر جمی کارٹر خرابیِ صحت کی بناپر تقریب میں حاضر نہ ہو سکے لیکن ایک رات قبل جو بائیڈن سے تفصیلی گفتگو میں جناب کارٹر نے مبارکباد کے ساتھ انہیں مخلصانہ ’نصیحتوں‘ سے نوازا جس کا ذکر کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ ’قومی ہیرو‘ کا فون ان کے لیے ایک اعزاز ہے اور جمی کارٹر کی جانب سے مشورے کی پیشکش ان کی حوصلہ افزائی کا سبب بنا ہے۔ صدر ٹرمپ وہاں موجود نہ تھے اور نہ ہی انہوں نے جو بائیڈن کے انتخاب کو تسلیم کیا۔ صدر ٹرمپ تقریب حلف برداری سے صرف ایک گھنٹہ پہلے دارالحکومت کے اینڈریو عسکری اڈے پر اپنے حامیوں سے الوداعی خطاب کے بعد صدارتی طیارے پر ریاست فلورڈا چلے گئے جہاں ان کا گھر ہے۔ٹرمپ اقتدار بہترین نہیں تو امریکیوں کے لیے کئی اعتبار سے بہت بہتر تھا۔ عالمی امن کے حوالے سے سبکدوش صدر اس بات پر فخر جتانے کا حق رکھتے ہیں کہ گزشتہ 40 سال کے دوران یہ واحد دورِ صدارت تھا جس میں امریکہ نے نئی جنگ کا آغاز یا کسی ملک پر حملہ نہیں کیا بلکہ شام، عراق اور افغانستان سے فوجیں واپس بلائیں۔ کانگریس اور مراکزِ دانش کے دباو کے باوجود ایران کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کیا۔ ان کے دور میں شمالی کوریا سے کشیدگی اس حد تک کم ہوگئی کہ امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کی مشترکہ ششماہی مشقوں کی ضرورت نہ رہی۔ کورونا ویکسین کی تیز رفتار تیاری ان کا ایک چشم کشا کارنامہ ہے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ حفاطتی ٹیکوں کی تیاری میں کئی سال لگیں گے لیکن مراقشی نژاد ڈاکٹر منصف سلاوی کی قیادت میں امریکہ نے یہ ہدف صرف 9 مہینے میں حاصل کرلیا۔
تاہم شکست کے بعد دھاندلی، دھاندلی کے شور، بے جا ضد اور کھسیائے رویے نے ان کی کامیابیوں کو گہنا دیا اور نظام کے بجائے ذات کو آگے رکھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوشل میڈیا پر بندش کے بعد اب ان کی کامرانیوں کا ذکر کرنے والا بھی کوئی نہیں۔
صدر ٹرمپ سے شدید نظریاتی اختلاف کے باوجود ہم نے ان کے عہد اقتدار کے مثبت پہلووں کا ذکر انتہائی فراخدلی سے کردیا لیکن انہوں نے جس بیدردی و بے رحمی سے فلسطینیوں کی پشت میں چھرا گھونپا وہ ان کا ناقابل معافی جرم ہے۔ صدر ٹرمپ نے ان مظلوموں کو دیوار سے لگانے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اہل غزہ و غربِ اردن کو دیوار میں چن ڈالا۔ بیت المقدس اور گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کے ظالمانہ فیصلے کے ساتھ عرب و مسلم ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کرانے کے ہونکے میں وہ اپنی حدود سے تجاوز کر گئے۔ انہوں نے افریقہ کا مغربی صحارا مراقش کو بخش کر بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کے پرامن حل کا دروازہ بند کردیا اور اب مذاکرات پر آمادہ پولیساریو فرنٹ کے لیے ہتھیار دوبارہ اٹھالینے کے علاوہ کوئی راستہ ہی باقی نہیں بچا۔
روایت کے مطابق تقریب حلف وفاداری کے دن خاتونِ اول نو منتخب صدر اور ان کے اہل خانہ کو چائے پر مدعو کرتی ہیں اور تقریب حلف وفاداری کے لیے جاتے ہوئے نو منتخب صدر اور ان کی اہلیہ سبکدوش ہونے والی خاتون اول کے ساتھ قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کا دورہ کرتی ہیں۔ اس موقع پر خاتون اول نئے صدر اور ان کی اہلیہ کو قصر صدارت کا وہ رہائشی علاقہ دکھاتی ہیں جہاں اگلے چار سال ’خاندانِ اول‘ کو قیام کرنا ہے لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ صدر ٹرمپ صبح سویرے ہی وہائٹ ہاوس چھوڑ چکے تھے۔
اس بار جوہری ہتھیاروں کے بٹن کی حوالگی بھی روایت کے مطابق نہ ہوئی۔ جوہری ہتھیاروں کا بٹن ’صدارتی ہنگامی بستے‘ یا Presidential Emergency Satchel میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس بستے کو ’جوہری فٹ بال‘ بھی کہتے ہیں۔ حملے کے لیے پلاسٹک کے ایک کارڈ پر سنہری حرفوں میں لکھا ’خفیہ طلائی کوڈ‘ جسے صدارتی بسکٹ کہتے ہیں ہر وقت امریکی صدر کی جیب میں رہتا ہے۔ امریکہ میں جوہری ہتھیار کے استعمال کا حق صرف اور صرف صدر کو ہے جو ہنگامی صورتحال میں دشمن پر جوہری حملہ کرنے کا مکمل اور نا قابل تنسیخ اختیار رکھتا ہے۔ حملے کے لیے صدر جوہری بٹن دبا کر جوائنٹ چیف آف اسٹاف کو حکم جاری کرتا ہے۔ حکم ملنے کے بعدجوائنٹ چیف آف اسٹٖاف کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ کوڈ کی تصدیق کر کے اس بات کو یقینی بنائے کہ حکم صدر نے جاری کیا ہے اور اس میں کوئی جعلسازی نہیں ہوئی لیکن جنرل صاحب کو صدر سے بحث و مباحثہ کی اجازت نہیں بلکہ بلا تاخیر صدر کے حکم پر عملدرآمد ضروری ہے۔ 1973میں ایک مشق کے دوران جوہری ہتھیار مرکز کے ذمہ دار افسر میجر ہیرالڈ ہیرنگ نے یہ سوال کرلیا کہ اس بات کی کیسے تصدیق کی جائے کہ صد ر نے جوہری حملے کا حکم ہوش و حواس میں دیا ہے؟ اس بقراطی پر موصوف فوری برطرف کر دئے گئے۔امریکہ میں صدر اور نائب صدر کو ایک ایک جوہری فٹ بال یا بستہ فراہم کیا جاتا ہے جبکہ تیسرا فٹ بال وہائٹ ہاوس میں رکھا رہتا ہے۔ تاہم کوڈ صرف صدر کے پاس ہوتا ہے جبکہ نائب صدر کا کوڈ یا بسکٹ امانتاً ان کے ایک عسکری محافظ کے پاس رکھا جاتا ہے تاکہ صدر کی اچانک موت کی صورت میں یہ اختیار بلا تاخیر نائب صدر کے پاس آ جائے۔
عام طور سے تقریب حلف برداری کے بعد صدر اور نائب صدر وہائٹ ہاوس آتے ہیں جہاں سبکدوش ہونے صدر و نائب صدر یہ فٹ بال ان کے حوالے کرتے ہیں لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا اور صدر ٹرمپ جاتے ہوئے فٹبال اپنے ساتھ لے گئے جو ان کے خصوصی طیارے سے واپس ہوا اور دوسرے دن صدر جو بائیٖڈن کے حوالے کیا گیا۔
جوہری فٹبال والی بات ہم نے قارئین کی دلچسپی کے لیے بیان کر دی ورنہ اس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف یعنی خارجہ تعلقات کے حوالے سے بائیڈن کا امریکہ۔ آج کی نشست میں ہم اس موضوع کو بائیڈن انتظامیہ کی متوقع افغان پالیسی تک محدود رکھیں گے۔ کسی اور نشست میں ان شاءاللہ مشرق وسطیٰ اور جنوب ایشیا و برصغیر کے بارے میں جو بائیڈن کے متوقع عزم پر روشنی ڈالی جائے گی۔
امریکہ کی نئی قیادت نے ایسے وقت میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے جب کورونا وائرس کی وبا اپنے سنگین مرحلے میں ہے۔ یہ نامراد جرثومہ سوا چار لاکھ انسانی جانوں کو چاٹ چکا ہے اور ہر روز چار ہزار یا ہر آدھے منٹ میں ایک امریکی لقمہِ اجل بن رہا ہے۔ اس وائرس کے خلاف جدرین کاری (Vaccination) کی مہم بھی سست روی کا شکار ہے۔ سال کے اختتام پر دو کروڑ لوگوں کی جدرین کاری کا ہدف طئے ہوا لیکن 20 جنوری تک صرف پونے دو کروڑ افراد کو پہلا ٹیکہ لگایا جاسکا ہے۔ جو بائیڈن نے دس لاکھ ٹیکہ یومیہ کا ہدف دیا ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوگئے تو اپریل تک امریکہ کی ایک تہائی آبادی کی جدرین کاری ہو سکے گی۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک 70 فیصد آبادی کو حفاظتی ٹیکے نہ لگ جائیں معمولات زندگی پوری طرح بحال نہیں ہو سکتے۔ اس انسانی المیے کے ساتھ معاشی بحران بھی عروج پر ہے۔ دو کروڑ سے زیادہ امریکی بیروزگار ہیں۔ عوام کو وقتی راحت فراہم کرنے کے لیے ٹرمپ انتطامیہ دو قسطوں میں ساڑھے چار ہزار ارب (4.5 Trillion) ڈالر کی امداد تقسیم کر چکی ہے۔ جو بائیڈن 3 ہزار ارب کا ایک اور پیکیج منظوری کے لیے کانگریس (پارلیمان) کو پیش کر رہے ہیں۔ امریکی قانون ساز آجکل سخت مصروف ہیں۔ نئی کابینہ اور کلیدی تقرریوں کی توثیق کے علاوہ سابق صدر کے مواخذے کی وجہ سے اس نئے امدادی منصوبے پر بحث اگلے ماہ کے وسط تک ملتوی ہونے کا امکان ہے۔
دوسری طرف سنٹرل ریزرو (اسٹیٹ بینک) مندی کے پیشِ نظر گرمیِ بازار برقرار رکھنے اور نقدی کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے تجارتی اداروں میں بازار حصص کے ذریعے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ان تمام مصارف کے لیے درکار خطیر رقومات قرض لے کر اور نوٹ چھاپ کر فراہم کی جا رہی ہیں جس پر ماہرین معیشت کو خاصی تشویش ہے۔ غربت و بیروزگاری کی وجہ سے بڑے شہروں میں جرائم بہت بڑھ گئے ہیں۔ غربت میں اٖضافے کے ساتھ نقل وحرکت پر پابندی سے ازدواجی تعلقات بھی متاثر ہو رہے ہیں اور گھریلو تشدد کے واقعات بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ یعنی کورونا، حیات و اسباب حیات کے ساتھ گھریلو محبت ومودت کو بھی غارت کر رہا ہے۔ صدر بائیڈن نے حلف کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں گفتگو ختم کرتے ہوئے کہا تھا ’’دوستو! یہ (کورونا) ٹیسٹ کرانے کا وقت ہے‘‘ اس اختتامیے کی بنیاد پر سیاسی پنڈتوں کو بین الاقوامی تعلقات کی باب میں سال رواں کے دوران کسی اہم پیشرفت یا اقدامات کی توقع نہیں کہ امریکی صدر کی اولین ترجیح اس خونی وائرس کا سدباب اور اس سے وابستہ مشکلات کا ازالہ ہے۔
نئی امریکی انتظامیہ سے وابستہ توقعات و اندیشے اور ترجیحات کے حوالے سے ایک بات پر تمام تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ جو بائیڈن کا دور اپنے پیشرو سے بالکل مختلف ہوگا۔ صدر ٹرمپ ایک غیر روایتی صدر تھے جنہیں عملی سیاست کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ 2016 میں انہوں نے اپنی زندگی کا پہلا انتخاب لڑا اور صدر منتخب ہوگئے۔ موصوف خود کو نہ صرف عقلِ کُل سمجھتے تھے بلکہ اس کا اظہار انہوں نے 20 جنوری 2017 کو حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ہی کر دیا کیا کہ ان کی صدارت کا اولین ہدف واشنگٹن کے دلدل (swamp) کی تحلیل ہے۔ دلدل سے ان کی مراد افسر شاہی کا بنیادی ڈھانچہ تھاجس کا ذکر وہ بار بار کرتے رہے۔
فیصلہ سازی کے معاملے میں وہ اپنی کابینہ، کانگریس کی مجالس قائمہ، مراکزِ دانش یا think tanks سے مشورہ کرنے کے قائل نہ تھے۔ فیصلوں اور موقف کا اعلان بھی ٹویٹر پر وہ خود کیا کرتے تھے اور رابطہ عوام کے لیے وہائٹ ہاوس کے ترجمانوں کو انہوں نے بہت کم ہی زحمت دی۔ صدر ٹرمپ کی تلون مزاجی کا یہ عالم تھا کہ وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بات چیت کے لیے شمالی کوریا جانے کا پروگرام بنایا۔ ضابطے کے مطابق جب انہوں نے سفر کے لیے ایوان صدر سے خصوصی طیارے کی درخواست کی تو انہیں مطلع کیا گیا کہ دورے کی زحمت نہ فرمائیں آپ کو برطرف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ترک صدر طیب ایردوان سے فون پر بات چیت کے دوران صدر ٹرمپ شمالی شام سے امریکی فوج کی واپسی پر رضامند ہو گئے اور گفتگو ختم ہوتے ہی انہوں نے وزیر دفاع جم میٹس سے مشورہ تو دور کی بات انہیں مطلع کئے بغیر فوجی کمانداروں کو فوجی انخلا کا حکم دے دیا۔ وزیر دفاع کو اس کی اطلاع ٹویٹ سے ملی۔
اس کے مقابلے میں جو بائیڈن ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہیں جنہوں نے 28 برس کی عمر میں ایوان بلدیہ سے عملی سیاست کا آغاز کیا۔ وہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ امریکی راجیہ سبھا کے رکن اور 2008 سے 2016 تک نائب صدر رہے۔ امریکی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ جو بائیڈن روایتی سیاستدانوں کی طرح بین الاقوامی امور پر فیصلہ کرتے وقت امریکہ کے پالیسی ساز اداروں یعنی کانگریس کی کمیٹیوں اور مراکز دانش کی سفارشات پرعمل کریں گے۔
اگر فیصلہ سازی کے باب میں یہ تجزیہ درست ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ افغانستان کے متعلق جو بائیڈن کی حکمت عملی پر وزیر خارجہ انتھونی بلینکن، قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون، سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس اور وزیر دفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن اثر انداز ہوں گے اور یہ تمام حضرات طالبان کے بارے میں منفی رویہ رکھتے ہیں۔ جنرل آسٹن 2003 میں ہلکے توپ خانے پر مشتمل اپنے پہاڑی ڈویژن کو لے کر اس دعوے کے ساتھ افغانستان گئے تھے کہ ہمارے زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائیل اور چٹانوں کر ریزہ ریزہ کر دینے والی توپوں کے گولے پہاڑوں میں قلعہ بند ملاوں کے پرخچے اڑا دیں گے۔ اس وحشیانہ کارروائی کے نتیجے میں لاکھوں افغان شہری مارے گئے لیکن خون کی یہ ہولی طالبان کو بہت زیادہ نقصان نہ پہنچا سکی اور چار سال کی سر توڑ کوششوں میں ناکامی کے بعد مزید خونریزی کے لیے جنرل صاحب کو عراق بھیج دیا گیا۔ امریکہ کے تقریباً سارے جرنیل افغانستان میں ملاوں سے پنجہ آزمائی کر چکے ہیں اور بلا استثنا سب کو ہی ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔ اسی بنا پر صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ طالبان کو شکست دینے کے لیے ہمیں ایک کروڑ افغانوں کو قتل کرنا ہوگا یعنی ملاوں کا مقابلہ امریکی فوج کے بس کی بات نہیں اور نہ روایتی ہتھیاروں سے ان سرپھروں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اب سنگ مداوا سے اس آشفتہ سری کا۔ سابق وزیر دفاع جم میٹس اور سابق مشیر قومی سلامتی مائیکل فلن بھی افغانستان میں شکست کا منھ دیکھ چکے ہیں چنانچہ طالبان کے بارے میں ان کے منفی خیالات بہت فطری ہیں۔
نامزد وزیر خارجہ انتھونی بلینکن اوباما حکومت میں نائب وزیر خارجہ، نائب مشیر سلامتی اور نائب صدر جو بائیڈن کے مشیر قومی سلامتی رہ چکے ہیں۔ انہیں اوباما کی افغان پالیسی کا معمار سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان اور شمالی وزیرستان میں وحشیانہ ڈرون حملے انہیں کی تجویز تھی۔ مئی 2011 میں ایبٹ آباد آپریشن المعروف ’اسامہ اوباما انتخابی ڈرامے کا مصنف بھی موصوف کو سمجھا جاتا ہے۔ ان کی معاونت وزارت خارجہ و قومی سلامتی کے اعلیٰ افسر اور معروف سفارتکار ولیم برنس کر رہے تھے جنہیں صدر بائیڈن نے سی آئی کا سربراہ نامزد کیا ہے۔ ولیم برنس اور انتونی بلینکن دونوں کئی برسوں سے جو بائیڈن کے بہت قریب ہیں اور صدر اوباما کے دور میں انہیں خاصا عروج ملا۔ سیاہ فام ہونے کی وجہ سے صدر اوباما اس احساس کمتری میں مبتلا تھے کہ ملک کا سواد اعظم انہیں اصلی اور مخلص امریکی نہیں سمجھتا۔ مسلمان باپ اور درمیانی نام حسین کی وجہ سے قدامت پسند انییں مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے تھے چنانچہ انہوں نے افغانستان، عراق اور صومالیہ میں خونریز کارروائی کر کے خود کو دبنگ امریکی صدر ثابت کیا۔ اس کار خیر میں بلینکن اور برنس صاحبان نے صدر اوباما کو بھرپور مدد فراہم کی۔صدر بائیڈن کے حلف اٹھانے کے بعد اخباری نمائندوں سے اپنی پہلی ملاقات میں وہائٹ ہاوس کی ترجمان محترمہ جین پساکی نے نئی افغان پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ قطر امن معاہدے پر نظر ثانی کر کے اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ افغان طالبان ملک میں تشدد میں کمی اور دہشت گرد عناصر سے اپنے تعلقات ختم کرنے سمیت اس معاہدے کے تحت کئے گئے وعدوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سولیون نے اس معاملے کی ‘تصدیق’ کے لیے افغان حکام سے بات کی ہے۔ تصدیق کے لیے کابل سرکار سے بات چیت انتہائی مہمل بات ہے کہ افغان حکومت نے قطر معاہدے کو پہلے دن سے تسلیم نہیں کیا۔ کابل کا موقف ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے انہیں امن مذاکرات سے الگ رکھا تھا لہٰذا ان کے لیے یہ معاہدہ ناقابل قبول ہے۔
کابل انتظامیہ کے اول نائب صدر امراللہ صالح کھل کر کہہ چکے ہیں کہ افغان امن معاہدے میں امریکہ نے طالبان کی بہت سے ایسی شرائط مان لی ہیں جو ’افغان عوام‘ کو پسند نہیں۔ انہیں اس بات پر شدید حیرت ہے کہ امریکہ نے یہ شرمناک شرائط تسلیم کیسے کرلیں۔ جناب صالح کا خیال ہے کہ فوجی انخلا پر غیر مشروط رضا مندی امریکہ کا اعتراف شکست ہے۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۱۹
جمعہ 22 جنوری کو قومی سلامتی کی ترجمان ایملی ہورنے نے محترمہ پساکی کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جیک سولیون نے اپنے افغان ہم منصب حمد اللہ محب سے تفصیلی گفتگو میں انہیں یقین دلایا ہے کہ امریکہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر کوئی سودے بازی نہیں کرے گا۔ طالبان دو ٹوک انداز میں کہہ چکے ہیں کہ وہ خواتین کی تعلیم اور ان کے کام کرنے کی مخالفت نہیں کرتے۔ افغانستان کے ان علاقوں میں جہاں طالبان کا قبضہ ہے بچیوں کے اسکول اور کالج بھرپور انداز میں کام کر رہے ہیں لیکن کابل انتظامیہ کا کہنا ہے کہا کہ انہیں خواتین کے معاملے میں ملاوں کے اخلاص پر شک ہے اور اسی بے اعتمادی کا اظہار بائیڈن انتظامیہ بھی کر رہی ہے۔سینیٹ سے توثیق کے دوران مجلس قائمہ برائے امور خارجہ کے روبرو سماعت کے دوران انٹونی بلینکن واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اس طویل جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے۔قطر میں کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور سارے افغانستان میں تشدد کی نئی لہر نے افغان امن کے بارے میں شکوک شبہات پیدا کر دئے ہیں۔ اس پس منظر میں امن معاہدے پر نظر ثانی کے شوشے سے صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔ افغان طالبان کھل کر کہہ چکے ہیں ہیں اگر قطر معاہدے کے مطابق موسم بہار تک غیر ملکی فوج کا انخلا مکمل نہ ہوا تو وہ نیٹو سپاہ پر حملے دوبارہ شروع کر دیں گے۔اس وقت افغانستان میں صرف 2500 امریکی فوجی موجود ہیں۔
قطر معاہدے کی منسوخی پر کابل انتظامیہ کا اصرار اپنی جگہ لیکن امریکیوں سمیت تمام عسکری تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ غیر ملکی فوجی مدد کے بغیر کابل انتظامیہ کے لیے طالبان کا مقابلہ آسان نہیں۔ امراللہ صالح اور جنرل عبدالرشید دوستم کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملا اس وقت سارے افغانستان میں سرکاری فوج کا تعاقب کر رہے ہیں اور طالبان سے جھڑپ میں درجنوں سرکاری سپاہی ہر روز مارے جا رہے ہیں۔ پشتون آبادیوں کے ساتھ فارسی بان علاقے بھی اب سرکاری فوج کے لیے محفوظ نہیں۔ امریکہ کو بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور اس کے لیے اضافی فوج افغانستان بھیجنا بہت مشکل ہے جبکہ طالبان کے لیے بھی بذریعہ طاقت کابل پر قبضہ آسان نہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ جو بائیڈن دباو ڈال کر کابل انتظامیہ کو معقولیت پر مجبور کرے۔ ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے احباب خاص طور حمداللہ محب اور امراللہ صالح اس امید پر کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں کہ اگر طالبان اور امریکی فوج میں براہ راست جھڑپ شروع ہوگئی تو واشنگٹن اپنے جوانوں کے تحفظ کے لیے مزید فوج افغانستان بھیجنے پر مجبور ہو جائے گا جس کے نتیجے میں افغانستان کی مزید تباہی تو یقینی ہے لیکن اس طرح کابل حکومت کے تسلسل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
(مسعود ابدالی معروف کالم نویس ہیں جو مشرق وسطیٰ ،
مسلم دنیا اور عالمی سیاست پر لکھتے رہے ہیں)
[email protected]
***

امریکہ کو بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور اس کے لیے اضافی فوج افغانستان بھیجنا بہت مشکل ہے جبکہ طالبان کے لیے بھی بذریعہ طاقت کابل پر قبضہ آسان نہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ جو بائیڈن دباو ڈال کر کابل انتظامیہ کو معقولیت پر مجبور کرے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021