جوا اور آن لائن گیمبلنگ‘ایک لعنت

ذاتی اور سماجی زندگی پر تباہ کن اثرات

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

جوا کھیلنے کو سماج میں تفریح سمجھا جاتا ہے لیکن اسے غیر سنجیدہ کھیل بھی مانا جاتا ہے ۔ حقیقت میں یہ ایک ایسی لت ہے جو انسان کو نہ صرف ذاتی طور پر نقصان پہنچاتی ہے بلکہ خاندانی نظام کو تباہ کرتے ہوئے سماج کے اندر خرابیاں پیدا کرتی ہیں۔ اگر اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسان کے وجود کے ابتدائی زمانے سے موجود ہے۔ پرانے زمانے میں سٹہ دو افراد یا دو گروہوں کے درمیان کھیلا جاتا تھا جو ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے تھے۔ آج بھی اس کی کیفیت وہی ہے لیکن اس کے انداز بدل گئے ہیں۔ دور جدید میں آن لائن گیمبلنگ کا سحر انسانوں پر ایسا چڑھ گیا ہے کہ اب یہ باضابطہ ایک صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
گیمبلنگ یعنی سٹے بازی دو طرح سے کی جاتی ہے ایک بالراست اور دوسرے بالواسطہ۔ تاش کے پتے، پانسے، پوکر، لاٹری وغیرہ راست سٹے کی مثالیں ہیں جبکہ بالواسطہ سٹہ ہر کھیل میں لگایا جاتا ہے جیسے کرکٹ، فٹ بال وغیرہ۔ غرض ہر طرح کے کھیل پر پیسہ لگایا جاتا ہے جسے عام زبان میں سٹہ بازی کہتے ہیں۔ سٹہ بازی کو ہر مذہب میں غلط قرار دیا گیا ہے اور سماجی طور پر بھی اسے غلط ہی تصور کیا جاتا ہے۔ بھارت کے آئین میں بھی سٹہ بازی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن یہ قوانین صرف راست گیمبلنگ یا جوا کھیلنے پر لاگو ہوتے ہیں۔ اس الکٹرانک دور میں آن لائن گیمبلنگ سے متعلق کوئی واضح قوانین ابھی تک مدون نہیں کیے گئے ہیں۔ بھارت کے آئین میں اسے ریاست کا موضوع قرار دے کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے الگ الگ ریاستوں میں اس سے متعلق الگ الگ قوانین پائے جاتے ہیں۔ بھارت میں پبلک گیمبلنگ ایکٹ 1867 لاگو ہے جسے چند ریاستوں نے اپنایا ہے جیسے اتر پردیش، پنجاب، مدھیہ پردیش وغیرہ۔ بہت ساری ریاستوں نے گیمبلنگ کے لیے الگ سے قوانین بنائے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہ سارے قوانین اس وقت کے ہیں جب کہ آن لائن گیمبلنگ یا سٹہ بازی کا تصور بھی نہیں تھا۔
ریاستی جوئے کے قوانین کو سجھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان قوانین میں سے ’’گیم آف اسکل‘‘ کو الگ رکھا گیا ہے (اڑیسہ و آسام کو چھوڑ کر) مغربی بنگال، ناگا لینڈ اور سکم میں ’پوکر‘ سمیت کچھ اسی قبیل کے کھیلوں کی اجازت ہے جنہیں حکومت خود ہی لائسنس دیتی ہے۔ گوا میں سرکاری اجازت نامے کے ساتھ جوئے بازی کے اڈے چلائے جاتے ہیں۔ قومی سطح پر آن لائن یا آف لائن گیمبلنگ، جوا یا سٹہ بازی سے متعلق کوئی ہمہ گیر قانون نہیں ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں اس بات پر کافی بحث ہوئی ہے کہ ’گیم آف اسکل‘ کیا ہے اور ’گیم آف چانس‘ کیا ہے۔ ایسا کھیل جس میں ہنر سے زیادہ قسمت یا چانس کا عمل دخل ہوتا ہے ایسے کھیل کو ’ گیم آف چانس‘ تصور کیا جائے گا۔
متحدہ آندھرا پردیش کے ایک کیس ’اسٹیٹ آف اے پی بمقابلہ کے ستیہ نارائن (1968)‘ کے معاملے میں سپریم کورٹ نے رمی کے کھیل کو ’مہارت کا کھیل‘ کہتے ہوئے اپنا فیصلہ دیا تاہم، عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ اشارہ بھی دیا کہ اگر کوئی جوا کھیل رہا ہے یا جوا گھر میں رمی کھیل رہا ہے اور اس سے پیسہ کما رہا ہے تو یہ موجودہ اے پی کے قوانین کے تحت جرم ہوگا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ تین کارڈ گیم جسے کئی ناموں سے جانا جاتا ہے جیسے فلش، برگ وغیرہ وہ خالص قسمت کا کھیل ہے۔ اس بات کا اظہار سپریم کورٹ نے اپنے دوسرے فیصلوں میں بھی کیا ہے جیسے ایم جے سیوانی بمقابلہ ریاست کرناٹک (1995) اور ڈاکٹر کے آر۔ لکشمنان بمقابلہ ریاست تامل ناڈو و اے ین آر (1996)۔
27 اکتوبر کو ریاست آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ نے مرکزی حکومت کو ایک خط لکھتے ہوئے کہا کہ آن لائن کھیل اور سٹہ بازی ایک وبا کی طرح پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے سماج پر اور خاص طور پر نوجوان طبقے پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ نوجوان آسانی کے ساتھ گھر بیٹھے اپنے موبائل فون کے ذریعے اس لت میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ حکومت کے لیے یہ مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ اس قسم کے آن لائن گیمبلنگ اور سٹہ بازی پر روک لگا سکے۔ انہوں لکھا کہ 25 ستمبر کو ریاست نے 1974 کے ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے آن لائن گیمبلنگ اور سٹہ بازی کو قانوناً جرم قرار دیا ہے۔ انہوں نے مرکزی وزیر روی شنکر پرشاد جو آئی ٹی ومواصلات و الکٹرانکس اور قانون کے وزیر ہیں سے کہا کہ وہ 132 ویب سائٹس پر امتناع عائد کرے جو آن لائن گیمبلنگ اور سٹہ بازی چلاتی ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں سے یہ دیکھا گیا ہے کہ عوام میں آن لائن جوئے کی لت بڑھتی جا رہی ہے۔ اندازے کے مطابق تقریباً 80 فیصد ملک کے شہری سال میں کم از کم ایک بار جوا کھیلتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس طرح کی تفریح غیر قانونی ہونے کے باوجود مقبولیت حاصل کرتی رہی ہے۔ آئی پی ایل کرکٹ میں آن لائن بٹنگ بھی تیزی سے مقبولیت حاصل کرتی جا رہی ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ سٹے بازوں میں آئی پی ایل کرکٹ اس وقت دنیا کا سب سے مقبول ترین ٹورنامنٹ بن چکا ہے۔
چونکہ ملک میں آن لائن جوئے یا سٹے بازی کے لیے کوئی قوائد و ضوابط موجود نہیں ہیں اسی وجہ سے بہت سے ممالک نے بھارت کی کثیر آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے آن لائن جوئے کے اڈوں کو یہاں کی عوام کے لیے کھول دیا ہے جو دن کے چوبیس گھنٹے اور سال کے بارہ مہینے کام کرتے ہیں۔ ان تک رسائی کے لیے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ضرورت ہے بلکہ اب تو صرف ایک اسمارٹ موبائل ڈیوائس کی ضرورت ہے جس کے ذریعے کوئی بھی آسانی کے ساتھ جب اور جسں جوئے خانے (Casino) میں چاہے داخل ہو سکتا ہے۔
2019 میں آن لائن جوئے کے اڈوں نے ملک میں 62 ارب ڈالر کی آمدنی کی ہے۔ اسی تناسب سے یہ اڈے سال 2024 تک یہ تخمینہ لگا رہے ہیں کہ وہ 250 ارب ڈالر کی آمدنی کریں گے۔ ملک کی دولت کو یوں بیٹھے بٹھائے گنوا دینا کوئی دانشمندی نہیں ہے نیز، اس کے نہایت خطرناک و منفی اثرات نہ صرف فرد پر بلکہ سماج پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ جو بھی جوئے کی لت میں مبتلا ہو جاتا ہے اسے جلد یا بدیر معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی زندگی پر کس قدر منفی و تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جو کوئی جوئے میں پیسہ لگاتا ہے وہ عموماً یہ سمجھتا ہے کہ اسے فوری طور پر وافر مقدار میں پیسے مل جائیں گے لیکن اس کا یہ بھرم جلد ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ لت اپنے ساتھ کئی مسائل لے کر آتی ہے۔ پہلے تو یہ اس کی ذہنی و جسمانی صحت کو متاثر کرتی ہے، پھر اس کی ملازمت پر، معیار زندگی پر اور اس کے خاندانی تعلقات پر اپنے تباہ کن اثرات ڈالنا شروع کر دیتی ہے۔ درحقیقت جوا ایک ایسا کھیل ہے جو صرف فرد کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ اس کا خاندان، دوست اور ساتھی بھی براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
جوئے کی لت میں مبتلا شخص جوا کھیلنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے، وہ کسی بھی حد کو پار کر دیتا ہے اس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں رہتی۔ اگر اس کے پاس رقم دستیاب نہیں ہوگی تو وہ قرض لینے میں جھجھک محسوس نہیں کرتا، وہ اپنی گاڑی یا کوئی بھی قیمتی شئے یہاں تک کہ گھر کو تک گروی رکھ دیتا ہے اور رقم ہارتا چلا جاتا ہے لیکن اس کی خواہش ختم نہیں ہوتی۔ اگر وہ اپنے قرضوں کو ادا نہیں کر سکا تو گروی رکھی ہوئی ساری چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور دیوالیہ ہو جاتا ہے۔ سماج میں اس قسم کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں کہ اس لت میں مبتلا فرد نے اپنی بیوی اور بچوں کو تک گروی رکھ دیا۔ اس کے بعد نا جائز و مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہوتا چلا جاتا ہے۔ چوری، ڈاکہ، یہاں تک کہ قتل جیسے سنگین جرائم میں بھی ملوث ہو جاتا ہے۔
غور کیجیے کہ کوئی جواری اپنا گھر یا کار کھو دیتا ہے جسے اس نے بہت ہی محنت و مشقت سے حاصل کیا تھا تو اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہوگی؟ یقیناً اس کی حالت تباہ کن ہوتی ہے۔ اس کا خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے، ان کی ازدواجی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ بہت سے شادی شدہ جوڑے تو طلاق تک لے لیتے ہیں۔ اس صورت میں ان کے بچوں کی کیا حالت ہوتی ہوگی؟ وہ اسکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی اسکول کی فیس ادا کرنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ اکثر جوئے باز ذہنی اور جسمانی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ بعض مرتبہ خود کشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
اس لت سے سماج پر تباہ کن اور شدید اثرات پڑتے ہیں تو پھر اس کو کنٹرول کرنے کے اتنے سخت اصول اور قوانین مدون کرنے چاہئیں کہ کوئی فرد بھی اس لت میں مبتلا نہ ہونے پائے۔ کسی معاشرے میں اس طرح کی لت عام ہو جائے تو ملک کسی صورت میں ترقی نہیں کر سکے گا۔ اگر ارباب اقتدار ملک کو ترقی کی راہ پر آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اس قسم کے کھیلوں کی کبھی بھی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ریاست آندھرا پردیش نے بجا طور پر جوئے کی آن لائن ویب سائٹس پر امتناع لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس اہم مسئلے کی طرف دیگر ریاستوں کو بھی متوجہ ہونے کی ضرورت ہے اور ملک وسماج کے بہترین مفاد میں سارے ہی ملک میں گیمبلنگ کی تمام ویب سائٹس پر امتناع عائد کر دینا چاہیے۔ اسلام میں جوا کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے ۔ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر جوئے اور شراب کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے، دونوں کا ذکر ایک معاشرتی بیماری کے طور پر کیا گیا ہے جو فرد کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ خاندانی وسماجی زندگی کو تباہ کرنے والی ایک خطرناک لت ہے۔ ’’پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہے، مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے‘‘ (البقرہ:219)
شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟ (المائدہ:91)۔
اسلام میں عمومی تعلیم یہ ہے کہ محنت ومشقت سے ہی پیسے کمائے جائیں۔ دیانت داری اور علم و ہنر سے حاصل ہونے والی دولت ہی جائز ہے۔
ایسی دولت جو کسی محنت کے بغیر ’قسمت‘ یا جوئے جیسی چیزوں سے حاصل ہوتی ہو وہ جائز نہیں ہے۔ اس طرح کی اسکیمیں جو فریب پر مبنی ہوں جو انسان کے اندر لالچ پیدا کرتی ہوں وہ بھی اسلام میں غیر قانونی ہیں۔

قرآن مجید میں اکثر مقامات پر جوئے اور شراب کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے، دونوں کا ذکر ایک معاشرتی بیماری کے طور پر کیا گیا ہے جو فرد کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ خاندانی وسماجی زندگی کو تباہ کرنے والی ایک خطرناک لت ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020