جموں وکشمیر: مرکزی حکومت نے لوک سبھا میں دعویٰ کیا کہ عوامی خدمات اور تعلیمی مقاصد کے لیے 2 جی انٹرنیٹ کافی ہے
سرینگر، ستمبر 21: پی ٹی آئی کے مطابق مرکز نے اتوار کے روز لوک سبھا میں جموں و کشمیر میں عائد مواصلات اور انٹرنیٹ کی بندش کا دفاع کیا اور دعوی کیا کہ 2G نیٹ ورک کی سست خدمت ڈیجیٹل تعلیم اور کورونا وائرس وبائی امراض کے دوران اہم عوامی خدمات کی فراہمی کے لیے کافی ہے۔
حکومت نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ اب کسی بھی ویب سائٹ تک رسائی پر پابندی نہیں ہے۔
وزیر مملکت براے داخلہ جی کے ریڈی نے تحریر طور پر لوک سبھا کو مطلع کیا کہ ’’انٹرنیٹ خدمات کشمیر میں پہلے سے ہی مقررہ لائن پر دستیاب ہیں اور وہ بھی بغیر کسی رفتار کی پابندی کے، ساتھ ساتھ 2 جی موبائل ڈیٹا خدمات بھی 24 جنوری 2020 سے کام کر رہی ہیں۔مارچ کے بعد سے ہی سوشل میڈیا سائٹوں تک رسائی پر پابندیاں بھی ختم کردی گئیں۔‘‘
واضح رہے کہ گذشتہ سال جموں و کشمیر میں مرکز کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے اور ریاست کو دو مرکز علاقوں میں تقسیم کرنے کے گھنٹوں قبل سے ہی جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات منقطع کردی گئیں تھیں۔
اس کے بعد سے اب تک خطے میں تیز رفتار انٹرنیٹ پر پابندی عائد ہے۔
حکومت نے بار بار یہ استدلال کیا ہے کہ خطے کو بہتر طور پر ہندوستان کے ساتھ ضم کرنے اور ’’ملک دشمن عناصر‘‘ اور پاکستان سے دراندازی کے خطرات کو روکنے کے لیے اس طرح کے حفاظتی اقدامات ضروری تھے۔
اگست میں حکومت نے ’’پابندی کو ختم کرنے میں نرمی‘‘ کے ایک حصے کے طور پر ’’آزمائشی بنیادوں‘‘ پرگندربل اور ادھم پور اضلاع میں تیز رفتار موبائل ڈیٹا سروس دوبارہ شروع کی۔ لیکن 9 ستمبر کو مرکز نے دونوں اضلاع کے باہر تیز رفتار موبائل انٹرنیٹ بڑھانے سے انکار کردیا۔
لوک سبھا میں اپنے جواب میں ریڈی نے کہا کہ ’’کوویڈ 19 کو کنٹرول کرنے کے اقدامات میں 2 جی موبائل انٹرنیٹ کی رفتار رکاوٹ نہیں ہے۔‘‘
وزیر نے مزید کہا ’’ای-لرننگ ایپس اور تعلیم اور حکومت کی ای لرننگ ویب سائٹ ای بک اور دیگر مطالعاتی مواد کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے 2 جی انٹرنیٹ کارآمد ہے‘‘
جواب میں کہا گیا ہے کہ سست رفتار انٹرنیٹ انتظامیہ کے راستے میں کسی بھی رکاوٹ کا باعث نہیں ہے۔
کل لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے نیشنل کانفرس کے فاروق عبداللہ نے اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اگر ہندوستان ترقی کر رہا ہے تو کیا جموں و کشمیر کو باقی ملک کے ساتھ ترقی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے؟‘‘
خطے میں انٹرنیٹ بند ہونے سے مختلف حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی فورم میں بھی نریندر مودی حکومت کے خلاف کافی تنقید ہوئی ہے۔ میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز سنز فرنٹیئرس نے پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان کی درجہ بندی کو کم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کے نمبر کشمیر میں عائد ڈیجیٹل رکاوٹ سے متاثر ہوئے ہیں۔