جذبۂ قربانی ۔۔حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اہلِ غزہ تک

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

قربانی کا مفہوم :
اسلام میں قربانی کا تصور نہایت اعلیٰ و ارفع ہے اور اس کی مجسم مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جذبۂ قربانی سے معمور زندگی ہے۔ عیدالاضحیٰ جسے ’’عیدِ قرباں‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اسی عظیم واقعے کی یادگار ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا عزم کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قربانی کے مفہوم کو قرآن میں اس طرح بیان فرمایا :لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ (سورۃ آل عمران : ۹۲) ’’تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں خدا کی راہ میں خرچ نہ کر دو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو۔‘‘ اس آیت میں فرمایا گیا کہ نیکی کی روح قربانی کا جذبہ ہے۔ قربانی کا جذبہ جتنا زیادہ ہوگا اسی قدر نیکی کا معیار ہوگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں۔ چونکہ انبیاء کے خواب وحی کا درجہ رکھتے ہیں، لہٰذا انہوں نے اس حکم پر عمل کرنے کی ٹھانی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی اطاعت کا مظاہرہ کیا اور فرمایا: قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِن شَاء اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (سورۃ الصافات :۱۰۲) "ابا جان! جو حکم آپ کو دیا گیا ہے، اسے بجا لائیے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔” دونوں باپ بیٹے کامل تسلیم و رضا کی علامت بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو اس طرح قبول فرمایا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے ایک دنبہ بھیج دیا اور اس واقعہ کو قربانی کی مستقل سنت بنا دیا۔
اسلام میں قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک علامتی عبادت ہے جو انسان کو یہ سبق دیتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی سب سے قیمتی چیز بھی قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔ قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے: لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ (سورۃ الحج: ۳۷) ’’اللہ کو نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے‘‘ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی بے نیاز ہے۔ اس کو کسی کی قربانی کی حاجت نہیں ہے بلکہ وہ دلوں میں اللہ کی محبت سے اپنی محبوب ترین چیز کو اللہ کی رضا کی خاطر قربان کرنے کے جذبہ کو دیکھنا چاہتا ہے جس کو یہاں پر تقویٰ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ تقویٰ اللہ تک پہنچتا ہے اور گوشت اللہ کو نہیں پہنچتا بلکہ گوشت اللہ کے بندوں تک پہنچتا ہے۔ اسلام میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا تصوریہ ہے کہ اگر کوئی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہتا ہو تو اسے چاہیے کہ اللہ کا دیا ہوا مال اللہ کے ان بندوں پر خرچ کرے جو مدد کے محتاج ہیں۔ ورنہ اللہ تو غنی اور بے نیاز ہے۔
عیدالاضحیٰ کا پیغام :
عیدِ قرباں خوشی کا موقع ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ ہمیں دینِ اسلام کی آغوش میں پناہ ملی اور اس کی بدولت حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی عظیم شخصیت سے نسبت پیدا ہوئی (سورۃ الحج : ۷۸) ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی کا عنوان تسلیم ورضا اور قربانی ہے۔ قربانی کا تصور یہ ہے کہ ہم منعمِ حقیقی کی نعمتوں کا ادراک کرتے ہوئے احسان شناسی کے جذبہ کے ساتھ اللہ کی محبت سے سرشار ہوکر اس کے لیے ہر چیز قربان کرنے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں۔ سب سے بڑی نعمت زندگی کی نعمت ہے جو اللہ کی دی ہوئی ہے۔ دوسری عقل وشعور کی نعمت ہے۔ تیسری نعمت دولتِ ایمان ہے۔ چوتھی نعمت صحت و عافیت ہے۔ پانچویں علم کی نعمت ہے۔یہ اہم نعمتیں ہیں۔ ان کے علاوہ جو دوسری نعمتیں ہیں ان کی کوئی حد نہیں ہے۔ وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَةَ اللّهِ لاَ تُحْصُوهَا إِنَّ اللّهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورۃ النحل :۱۸) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گِن نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے‘‘ ابراہیم علیہ السلام ؑکے اندر اللہ کی رضا کی خاطر قربانی کا جو عظیم جذبہ موجود تھا وہ ان کے اندر اللہ سے بے انتہا محبت کی بنا پر تھا اور محبت کے جذبات شدید احسان شناسی کے احساسات کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جن کو قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے اس انداز میں ادا کیا گیا: الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ (سورۃ الشعراء: ۷۸ تا ۸۲) ’’جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا اور جس سے میں اُمید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔“ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد کریں کہ کس طرح اس نے ہم کو اشرف المخلوقات بنا کر پیدا فرمایا پھر امتِ مسلمہ کا حصہ بنایا، ایمان کی دولت سے نوازا جس پر دنیا و آخرت کی بھلائی اور کامیابی کا دارومدار ہے۔ پھر ہمیں صحت و عافیت عطا فرمائی، ہمیں خطرات سے بچایا اور ہماری جان و مال عزت وآبرو کی حفاظت کا انتظام کیا اور ہمیں امن وامان عطا فرمایا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی نعمتوں سے اللہ نے ہم کو نوازا جن کی ہم گنتی نہیں کرسکتے۔ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی نعمتوں کو یاد کرکے اپنے دل میں اللہ کی محبت کے جذبات کو موجزن رکھا اسی طرح ہم بھی انہیں کی سنت پر عمل کریں۔ جب ہمارا دل اللہ کی محبت سے سرشار ہوگا تو اس وقت ہمیں اللہ سے محبوب تر اور کوئی نہ ہوگا اور اپنی محبوب ترین شئے کو اللہ کی محبت میں قربان کرنا دل کی ایک تمنا بن جائے گی۔ جس طرح شاعر نے کیا خوب کہا:
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اس لیے عیدالاضحیٰ محض خوشی یا گوشت کے تہوار کا دن نہیں، بلکہ قربانی، ایثار اور بندگی کی تجدیدِ عہد کا دن ہے۔ عیدالاضحیٰ کا پیغام یہ ہے کہ ہم اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے سبق حاصل کریں۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلانے کے لیے وقف کر دیا جس کے نتیجے میں پہلے باپ مخالف ہوا، پھر معاشرہ اور جب وقت کے بادشاہ (نمرود) کے سامنے جب دعوتِ توحید پیش کی تو اس نے اس دعوت کو قبول کرنے کے بجائے آپ کو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے معجزہ کے ذریعے آگ کو آپ کے لیے سلامتی بنا دیا۔ سب سے پہلی آزمائش یہ تھی کہ آپ نے دہکتی آگ میں گرنا گوارا کیا اور اپنی جان کی قربانی پیش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچالیا۔ پھر آپ نے اللہ کی خاطر اپنے گھر، خاندان اور وطن کو چھوڑا۔ دوسری عظیم آزمائش یہ تھی کہ اللہ کے حکم پر اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ دیا۔ تیسری اور آخری آزمائش یہ تھی کہ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے بوڑھے باپ کا سہارا بننے کی عمر کو پہنچے تو اس وقت حکم ہوا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کریں۔ ان تینوں امتحانات میں کامیاب ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانیت کا امام بنا دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مطالبے پر ایک مسلمان اپنی سب سے قیمتی چیز یہاں تک کہ اپنی جان اور اپنی اولاد کو بھی اللہ کی محبت میں قربان کرنے کے تیار رہے۔ قربانی جان ومال کی بھی ہو سکتی ہے سب سے جو اعلیٰ مطالبہ ہے۔لیکن روزمرہ زندگی میں ہم سے کئی اور چیزوں کی قربانی کا مطالبہ بھی ہوتا رہتا ہے جیسے: اپنی انا اور غصہ کی قربانی، خواہشاتِ نفس کی قربانی، حق کی خاطر باپ دادا یا اپنی جماعت یا پارٹی کے طور طریقوں کی قربانی، قرآن و سنت کے مقابلے میں مروجہ رسوم کی قربانی اور ملت کے اجتماعی فائدہ کی خاطر ذاتی مفادات کی قربانی وغیرہ۔ اگر امت ان چھوٹی چھوٹی قربانیوں کو پیش کرنے کی بھی خوگر ہوتی تو آج ملک میں مسلمانوں کا مستقبل اتنا مخدوش نہ ہوتا۔ مذہبی اور سیاسی قائدین کے اپنی انانیت کو قربان کرنے کے جذبہ کے فقدان کی وجہ ملت کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور بھارت جیسے مسلمانوں کی کثیر الآبادی والے ملک میں بھی مسلمانوں کی مرکزی قیادت پیدا نہیں ہوسکی۔
عصرِ حاضر میں اہلِ فلسطین کی قربانیاں: عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربانی کے مفہوم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کے ساتھ ساتھ اہل فلسطین اور اہلِ غزہ کی حالیہ قربانیوں کے تناظر میں بھی سمجھنا چاہیے۔ آج جب ہم قربانی کی اس عبادت کو انجام دیتے ہیں تو دنیا کے کئی خطے ایسے ہیں جہاں مسلمان روزانہ اس قربانی کے جذبے کو عملی طور پر زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں مثال اہلِ فلسطین اور خاص طور پر اہلِ غزہ کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گھروں، بچوں، اپنی جانوں اور اپنی بنیادی ضروریات کو تک اللہ کی رضا، اپنے دین، قبلۂ اول اور حق کی خاطر قربان کر دیا ہے۔ انہوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کے جذبۂ تسلیم و رضا کو اپنی زندگیوں میں مجسم کر دیا ہے۔ اہل غزہ ایک طویل عرصہ سے محاصرہ میں زندگی گزار رہے تھے گویا وہ ایک کھلی جیل میں رہ رہے تھے جہاں زندگی کی بنیادی ضروریات کی تکمیل اپنے بد ترین دشمن اسرائیل کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔ چنانچہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ کو اہلِ غزہ نے غلامی کی زنجیروں سے ہمیشہ سے آزاد ہونے کا فیصلہ کیا کہ چاہے تو فلسطین آزاد ہو جائے یا پھر سارے فلسطینی شہید ہو جائیں۔ انہوں نے چند یہودیوں کو اغوا کیا تاکہ بے قصور فلسطینیوں کو جیلوں سے رہائی ملے۔ اس کو بہانہ بنا کر حماس کو ختم کرنے کے نام پر معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو بموں سے شہید کیا جا رہا ہے۔ان کے سارے بلڈنگس، اسکولز، مساجد اور ہسپتال مسمار ہوچکے ہیں۔ مگر اس دوران بھی وہ نمازیں پڑھتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو شہید ہوتا دیکھ کر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ان کو شہادت کے اعزاز سے نوازا ہے۔ وہ خوراک، پانی، بجلی اور دوا کے بغیر بھی صبر و شکر کی روش پر قائم ہیں اور شکوہ تک نہیں کرتے۔ اہلِ غزہ چاہیں تو ہجرت کرکے آرام و آسائش کی زندگی گزار سکتے تھے لیکن انہوں نے یہ عزم کر رکھا ہے کہ چونکہ وہ انبیاء کی زمین کے وارث ہیں اور مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کا کام اللہ تعالیٰ ان سے لینا چاہتا ہے اس لیے وہ اپنی، اپنے معصوم بچوں کی اور ان کی ماوؤں کی جانیں قربان کر رہے ہیں تاکہ اس سعادت سے محروم نہ رہ جائیں۔ آج دنیا کے انصاف پسند لوگ ورطۂ حیرت میں ہیں کہ وہ کون سی ایمانی طاقت ہے جو مرد و خواتین کو یہاں تک کہ بچوں کو بھی صبر کی چٹان بنا دیا ہے۔ جو لوگ اسلام کی ایمانی طاقت کی حقیقت تک پہنچتے ہیں وہ اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ غزہ میں ایثار و قربانی کے مناظر دیکھ کر لوگ اسلام میں داخل بھی ہو رہے ہیں۔ جب ہم اہلِ فلسطین و غزہ کی دلی کیفیات کو جاننے کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے جنت کے بدلے اپنا سب کچھ بیچ دیا ہے۔ ان کو یقین ہے کہ جس چیز کے بدلے میں انہوں نے اپنی عارضی زندگی کو قربان کر دیا ہے وہ بہت قیمتی چیزہے اور وہ ہے ابدی جنت۔ بظاہر وہ دنیا میں رہ رہے ہیں لیکن وہ جنت کے منتظر ہیں اور اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ دنیا میں رہ کر آخرت میں جی رہے ہیں۔ اللہ سے ان کو بے حد محبت ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب ان کو دنیا کی شدید ترین آزمائش میں ڈالا ہے تو دراصل یہ اس کی خصوصی نظرِ عنایت کی بنا پر ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت کے اعلیٰ مقامات عطا کرنا چاہتا ہے اس لیے اس نے ان کو غیر معمولی حالات سے گزارنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون جنت کے اعلیٰ مقامات کا مستحق بن سکتا ہے۔ اسی استحقاق کے بقدر اللہ تعالیٰ ایسے نفوس کو صبر کی دشوار گزار گھاٹیوں سے گزارتا ہے۔ اسی طرح جو سفاک اور ظالم جہنم کے درد ناک عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو ظلم پر ظلم کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنیاد پر لوگوں کو جزا و سزا نہیں دیتا بلکہ وہ ان کو عمل کے موقع فراہم کرتا ہے کہ نیکو کار اعلیٰ صبر اختیار کریں اور بد کار بھی ظلم کی داستانیں رقم کرکے دردناک سزا کے مستحق بنیں۔ اسی اصول پر اللہ تعالیٰ اس دنیا کے نظام کو چلا رہا ہے۔ آج صہیونی، نسل پرستی کے زعم میں پاگل پن کا شکار ہو کر معصوم بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا رہے ہیں بمباری کے ساتھ انہوں نے بھوک وپیاس کو بھی ہتھیار بنالیا ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں سے لے کر آج غزہ کے مسلمانوں کی قربانیوں تک دو قسم کے جذبات کار فرما ہیں اور وہ ہیں: اللہ سے بے حد محبت اور جنت کی تمنا۔ ہم عہدِ حاضر میں قربانی کی اس عظیم مثال سے سبق لیں اور اپنی زندگیوں میں ایثار و قربانی اور حق کی سر بلندی کے لیے صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں اور اہلِ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں، ان کے لیے دعا، مالی مدد اور مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں سیاسی بیداری کو اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ اللهم انصر اخواننا المستضعفين في غزة وفلسطين،اللهم تقبّل شهداءهم، واشفِ جرحاهم، واربط على قلوبهم،آمين يا رب العالمين۔

 

***

 ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں سے لے کر آج غزہ کے مسلمانوں کی قربانیوں تک دو قسم کے جذبات کار فرما ہیں اور وہ ہیں: اللہ سے بے حد محبت اور جنت کی تمنا۔ ہم عہدِ حاضر میں قربانی کی اس عظیم مثال سے سبق لیں اور اپنی زندگیوں میں ایثار و قربانی اور حق کی سر بلaندی کے لیے صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں اور اہلِ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں، ان کے لیے دعا، مالی مدد اور مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں سیاسی بیداری کو اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ اللهم انصر اخواننا المستضعفين في غزة وفلسطين،اللهم تقبّل شهداءهم، واشفِ جرحاهم، واربط على قلوبهم،آمين يا رب العالمين۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025