جاگ چکا ہے،ملک کا کسان بھی اور شہری بھی

زرعی قوانین کی واپسی تک لڑائی جاری رکھنے کا عزم

افروز عالم ساحل

زرعی قوانین کے خلاف جاری کسان تحریک کے 10ویں دن ایک بار پھر ہم دلی کے سنگھو بارڈر پر موجود تھے۔ آج یہاں پولیس اہلکاروں کی تعداد گذشتہ 9دنوں کے مقابلے تھوڑی زیادہ تھی۔ ریپیڈ ایکشن فورس بھی تعینات تھی۔ ادھر کسان بھی آج آر پار کی لڑائی کے موڈ میں نظر آ رہے تھے۔ ان کے حوصلے پہلے سے زیادہ بلند نظر آ رہے تھے جس کا اندازہ یہاں ایک دیوار پر چسپاں پوسٹر سے ہی ہو جاتا ہے جس پر لکھا ہے ’قتل ہوئے جذبوں، بجھی ہوئی نظروں، ہاتھوں پر پڑے گٹوں کی قسم کھا کر کہتے ہیں۔ ہم لڑیں گے ساتھی!‘

یہاں لگے بیریکیڈس اور کٹیلی تاریں ظاہر کر رہی ہیں کہ ہم اب گویا جنگ کے میدان میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔ اب اسٹیج پر ہونے والی تقریروں کی آوازیں ہمارے کانوں تک آسانی سے پہنچ رہی ہیں لیکن پنجابی زبان میں ہونے کی وجہ سے پوری طرح سمجھنا مشکل تھا۔ ویسے فلموں میں پنجابی زبان بلکہ یوں کہیے کہ پنجابی ٹون بہت سوں کوپسند ہے، لیکن شاید یہ پنجابی اس سے بہت مختلف تھی۔ ان کٹیلی تاروں اور یہاں لگے بیریکیڈس کے کنارے بنے راستے سے اندر داخل ہوتے ہیں۔جیسے ہی ہم ان کٹیلی تاروں اور یہاں لگے بیریکیڈس کے کنارے بنے راستے سے اندر داخل ہوئے بہت سے نوجوان اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈس لیے کھڑے ہیں۔ ان پلے کارڈس پر صاف صاف لکھا ہے، ’وی آر فارمرس، ناٹ ٹیررسٹ‘ (ہم کسان ہیں، دہشت گرد نہیں)، ’کالے قانون واپس لو۔۔۔’، ’دلی کسان کی سبزی جا سکتی ہے تو کسان کیوں نہیں جا سکتا؟‘ اور اس سے بھی اہم جو پلے کارڈ تھا، ’GODI MEDIA is not allowed here’، ’ Shame on National Media who are against Farmers‘ اور اس سے اہم تھا کہ کچھ پلے کارڈس پر چینلوں کے نام لکھے تھے اور ان سے کہا گیا تھا کہ ’ Don’t Cover us: You are Fake Media’

ان پلے کارڈس کو دیکھنے سے ہی یہ اندازہ ہو گیا کہ کسانوں کو ہمارے نام نہاد مین اسٹریم میڈیا سے کس قدر غصہ اور شکایت ہے۔ اور شکایت ہو بھی کیوں نہ بھلا؟ آخر اس نام نہاد مین اسٹریم میڈیا نے ان کسانوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر بھی تو نہیں چھوڑی ہے۔ بے شرمی کی حد دیکھیے کہ ان کسانوں کو انہوں نے خالصتانی اور پاکستانی تک بنا ڈالا۔

میڈیا کے رول پر ذہن میں ابھی طرح طرح کے سوال آ ہی رہے تھے کہ اچانک ایک معمر سردار چچا نے بڑی ہی محبت سے کہا کہ بیٹا! لنگر چکھ لو، شاہی پنیر ہے۔ میں نے بھی مسکرا کر جواب دیا، انکل ابھی تو پیٹ کافی بھرا ہے، لوٹتے وقت آتا ہوں۔ آگے بڑھنے پر ہر طرف لوگ کھاتے پیتے نظر آ رہے ہیں، ایک بار تو دل میں خیال آیا کہ ایک گلاس مٹھا میں بھی پی لوں لیکن پھر ذہن میں خیال آیا کہ مَیں یہاں دعوت میں نہیں بلکہ ہفت روزہ دعوت کے لیے رپوٹنگ کرنے آیا ہوں۔ اور میرا خیال ہے کہ جہاں میں رپورٹنگ کے لیے جاتا ہوں وہاں میرے لیے کچھ بھی کھانا نا مناسب ہے۔

میں نے آگے بڑھتے ہی سوچا کہ یہاں لوگوں سے بات چیت کرنے سے پہلے کیوں نہ میں ان نانی دادی سے مل لوں جن کو لے کر ٹویٹر پر کنگنا رناوت اور دلجیت دوسانجھ کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ ایک شخص سے پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ ’’بیبیاں نال ملنا ہے تاں بہت پیچھے جانا پئے گا‘‘۔ ان کی بہت پیچھے سے کیا مراد تھی، یہ میری سمجھ سے باہر تھا کیونکہ پیچھے اس جی ٹی کرنال روڈ پر قریب 40-35 میٹر تک لوگ بیٹھے ہیں لیکن اس کے باوجود میں آگے بڑھتا گیا۔ راستے میں سڑکوں پر موجود ٹریکٹرس پر بلند آواز میں پنجابی گانے بج رہے ہیں۔ مظاہرہ کرنے کا یہ آئیڈیا مجھے بے حد شاندار لگا، بالکل نئے طریقے کا۔ پولیس اہلکار بھی کنفیوز ہو جائیں کہ یہ مظاہرہ کرنے آئے ہیں کہ خوشی منانے۔ لیکن اس بات سے تو قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ غم کے موقع پر بھی خوشی منانا کوئی پنجابیوں سے سیکھے۔ اسی سوچ کے ساتھ میں آگے بڑھتا جا رہا تھا، راستے میں جگہ جگہ لنگر چل رہا تھا۔ وہیں کچھ لوگ دوائیاں بھی تقسیم کر رہے تھے۔ خالصہ ایڈ بھی لوگوں کی خدمت میں لگا ہوا تھا۔ کئی بار تو ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ کسان پنجاب سے آئے تو اپنی روزی روٹی بچانے کے لیے تھے، لیکن لگ گئے لوگوں کو روٹی کھلانے۔ اتنا بڑا دل پنجاب کے کسانوں کا ہی ہو سکتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس علاقے میں رہنے والا شاید کوئی شخص ان دنوں اپنے گھر میں کھانا بناتا ہوگا۔

قریب دو کلو میٹر پیچھے جانے کے بعد عورتوں کا گروپ ملا، اس گروپ میں 80 سال کی معمر خواتین سے لے کر 5 سال کی ان کی پوتیاں تک موجود تھیں۔ پریشانی یہ تھی کہ ان میں زیادہ تر خواتین صرف اور صرف پنجابی ہی بول سکتی تھیں۔ بڑی مشکل سے میں نے ان سے بات چیت کی۔ ان خواتین کا صاف طور پر کہنا تھا کہ مودی حکومت نے جو زرعی قوانین نافذ کیے ہیں وہ جب تک واپس نہ لیے جائیں ہم واپس نہیں جائیں گے۔ انہیں آنے والی پریشانیوں کے تعلق سے سوال پر انہوں نے بتایا کہ ان کا قیام ٹرالی میں ہے۔ وہ اسی میں سوتی ہیں۔ پہلے دن بیت الخلا جانے کی پریشانی آئی لیکن اب قریب ہی ایک مسلم خاندان رہتا ہے، اب ہم ان کے گھر چلے جاتے ہیں۔ ان عورتوں کے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا لیکن پریشانی یہ تھی کہ میں ان کی زبان نہیں سمجھ سکتا تھا۔ لیکن ان کے بات کرنے کے طریقے اور حوصلے نے یہ بات بخوبی سمجھا دی کہ وہ یہاں سے اتنی جلدی ٹلنے والی نہیں ہیں۔

ہریانہ کے سونی پت سے آئے انکیت کا کہنا ہے کہ یہ قانون ہمارے منڈی سسٹم کو ہی ختم کر دے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ میڈیا کے ذریعے لوگوں میں بھرم پھیلایا جا رہا ہے کہ ہریانہ کا کسان قانون سے خوش ہے اور اس کسان تحریک میں شامل نہیں ہے۔ یہ بات پوری طرح سے غلط اور جھوٹ ہے۔ ہریانہ کیا، پورے ملک کا کسان اس تحریک میں شامل ہے۔ یہ تحریک پورے ہندوستان میں چل رہی ہے۔ موہالی سے آنے والے ہرپریت سنگھ کہتے ہیں کہ حکومت جو یہ تین کالے قانون لائی ہے وہ کسان مخالف ہیں اور اس سے کسان برباد ہو جائیں گے۔ ملک امبانی و اڈانی کے حوالے ہو جائے گا اور یہ حکومت انہی دونوں کے مفاد کے لیے ہی یہ قانون لے کر آئی ہے۔ وہیں کرندیپ سنگھ کا بھی یہی ماننا ہے۔ وہ کھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ ہماری یہ حکومت کارپوریٹ گھرانوں کی غلام ہے۔ ملک میں تمام قوانین انہی کارپوریٹس کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ انہیں ملک کے عوام سے کوئی مطلب نہیں ہے۔

ہرپریت سنگھ اور کرندیپ سنگھ دونوں میڈیا سے خاصے ناراض نظر آتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے یہاں موجود ہر شخص میڈیا سے ناراض ہی ہے۔ کسی سے بات کرنے سے پہلے یہ تمام لوگ اس رپورٹر کے ہاتھ میں موجود مائک دیکھتے ہیں کہ وہ کس چینل یا میڈیا ادارے سے ہے۔ اور اگر کسی پر ان کو شک و شبہ ہوتا ہے تو ’گودی میڈیا! گو بیک‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیتے ہیں۔ گویا بیشتر مین اسٹریم میڈیا اپنا اعتماد و اعتبار پوریھ طرح سے کھو چکا ہے۔ ان دونوں کا کہنا تھا کہ میڈیا حکومت کو خوش کرنے کے لیے ہم کسانوں کو ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ صحافی یہ الزام لگانے کا موقع تلاش کر رہے ہیں کہ اس تحریک میں ملک دشمن عناصر شامل ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ میڈیا نے ہمیں خالصتانی اور پاکستانی تک بنا دیا جب کہ ہم لوگ جمہوری طریقے سے خاموشی کے ساتھ اپنا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہیں قریب میں کھڑا ایک نوجوان جو کافی دیر سے اپنے جذبات کو روکے ہوئے تھا، کہنے لگا کہ یہ حکومت اور ساتھ ہی میڈیا اتنا گر چکا ہے کہ ہمیں بدنام کرنے کے لیے رات میں یہاں کال گرل کو بھیجتے ہیں تاکہ کسی سے کوئی غلطی ہو اور وہ ہمیں بدنام کر سکیں۔ اس کا غصہ اس کے چہرے پر صاف جھلک رہا تھا۔ آگے کی بات چیت میں اس نے بتایا کہ ہم میں سے کئی لوگ پنجاب میں شراب نوشی کرتے ہیں لیکن ہم نوجوانوں نے خاص طور پر یہاں لوگوں کو منع کر رکھا ہے کہ وہ یہاں شراب نوشی ہرگز نہ کریں۔

مالیر کوٹلہ کے حیدر نگر سے آئے سکھجیت سنگھ گریوال سوالیہ انداز بتاتے ہیں کہ ان کا بھائی انڈین آرمی میں ہے، وہ وہاں وطن کے لیے لڑ رہا ہے اور یہ (میڈیا) ہمیں غدار کہہ رہا ہے، اب آپ ہی بتائیں کہ اصل غدار کون ہے۔ اصل خاطی تو پارلیمنٹ میں بیٹھے وہ لیڈر ہیں جو ہمارے خلاف قانون بنا رہے ہیں۔ سکھجیت میڈیا کے ساتھ سنی دیول اور کنگنا رناوت سے بھی ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کبھی میں سنّی پاجی کا فین ہوا کرتا تھا۔ اس کی ہر فلم دیکھی ہے، لیکن اب اس سے نفرت ہونے لگی ہے۔ سکھجیت پنجاب سرکار سے بھی ناراض نظر آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیپٹن نے بھی کسانوں کے لیے کچھ اچھا نہیں کیا ہے۔ پنجاب کے ترن تارن ضلع سے آئے جسوندر سنگھ کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت تینوں قوانین واپس نہیں لے لیتی اور ایم ایس پی کو لے کر نیا قانون نہیں بنا دیتی ہم یہاں سے جانے والے نہیں ہیں۔

اگر حکومت نے آپ کا یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو؟ اس پر وہ کہتے ہیں مانے گی کیسے نہیں۔ ہم یہاں سے منوا کر ہی جائیں گے، چاہے اس کے لیے ہمیں شہید ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ وہ یہاں اپنے ساتھ چھ مہینے کا راشن لے کر آئے ہیں۔ ضرورت پڑی تو اور لے آئیں گے۔ یہ پوچھنے پر کہ آج تو حکومت سے کوئی بات بنی نہیں، تو پھر آگے کیا ہوگا؟ اس پر ان کا کہنا ہے کہ ابھی تو یہ ٹریلر ہے دوست، پوری پکچر ابھی باقی ہے۔ ان کو ہمارا مطالبہ ماننا ہی پڑے گا۔

بتادیں کہ کسانوں اور حکومت کے درمیان اب تک کے تمام مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ اگلی گفت وشنید کی تاریخ 9 دسمبر کو طے پائی ہے۔ تب تک یہ بات طے ہے کہ کسان سڑکوں پر ہی رہیں گے۔ اس درمیان کسانوں نے 8 دسمبر کو ’بھارت بند‘ کا مطالبہ کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ وہ ٹول پلازوں کو بند کر دیں گے۔ کسان لیڈروں نے واضح کر دیا ہے کہ حکومت ہند کی کوئی بھی ترمیم قبول نہیں کی جائے گی۔ اسے ہر حال میں قانون واپس لینا ہی پڑےگا۔

وہیں دوسری جانب شاہین باغ کی طرح اب کسانوں کے خلاف معاملہ سپریم کورٹ پہنچا ہے اور انہیں دہلی کی سرحدوں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ شام ہو چکی ہے۔ دہلی کے مختلف علاقوں سے اپنے الگ الگ مقصد سے آئے لوگ لوٹ رہے ہیں۔ لنگر کے چولہے یہاں موجود لوگوں کو گرمی پہنچا رہے ہیں اور ان چولہوں پر بننے والی روٹیاں لوگوں میں باہمی الفت کو مزید گہرا کر رہی ہیں۔ میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ روٹی روٹی میں بھی فرق ہوتا ہے۔ ایک روٹی وہ ہے جو حکومت ہمارے منھ سے چھین رہی ہے اور ایک یہ ہے جو کسان اپنے مشکل دور میں بھی ہمیں کھلا رہے ہیں۔ میں اب اپنے گھر کی جانب رواں ہوں۔ میری روٹی گھر پر میرا انتظار کر رہی ہے۔ بار بار یہ خیال آ رہا ہے کہ اب ملک کا کسان جاگ چکا ہے، تبھی تو سنگھو بارڈر کی دیواریں سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
***

یہ حکومت اور میڈیا اتنا گرچکا ہے کہ ہمیں بدنام کرنے کے لیے رات میں یہاں کال گرل کو بھیجتے ہیں تاکہ کسی سے کوئی غلطی ہو اور وہ ہمیں بد نام کر سکیں۔ (پنجابی نوجوان)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020