جامعہ پولس تشدد: سپریم کورٹ نے مداخلت سے کیا انکار، درخواست گزاروں کو دی ہائی کورٹ جانے کی صلاح

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے  شہریت ترمیم قانون کےخلاف مظاہرہ کر رہے لوگوں پر پولیس کے مبینہ تشدد سے متعلق عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے منگل کو کہا کہ راحت کے لیے پہلے ہائی کورٹ جانا چاہیے۔ عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ دہلی میں مظاہرہ کے دوران بسوں کو کیسے جلایا گیا۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی رہنمائی والی بنچ نے کہا ’’ہم حقائق جاننے میں وقت برباد نہیں کرنا چاہتے، آپ کو پہلے نچلی عدالت میں جانا چاہیے۔‘‘

بنچ نے کہا ’’مرکز ی اور ریاستی حکومت کو سننے کے بعد ہائی کورٹ کے پاس تفتیش کرانے کے لیے سبکدوش جج کی تقرری کرنے کی آزادی ہے۔‘‘ بنچ نے کہا کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے۔

اس سے پہلے جامعہ  کے سابق طالب علموں کی تنظیم کے وکیل نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کو پر امن مظاہرہ کے حق کی حفاظت کرنی چاہیے۔ وہیں مظاہرین کی طرف سے سینئر وکیل اندرا جے سنگھ نے کہا کہ اے ایم یو اور جامعہ کے طالب علموں کے خلاف ایک کے بعد ایک ایف آئی آر درج کی گئی۔ انھوں نے شکایت کی کہ پولیس نے طالب علموں پر حملہ کیا۔ طالب علموں کو اس طرح سے جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔ پولیس نے انتظامیہ سے اجازت لیے بنا یونیورسٹی کیمپس میں گھسنے کا کام کیا۔

اس پر چیف جسٹس بوبڈے نے پوچھا ’’اگر طالب علم اس طرح  کریں‌گے تو افسروں کو کیا کرنا چاہیے؟ اگر طالب علم پتھربازی کرتے ہیں تو کیا ایف آئی آر نہیں درج کی جانی چاہیے؟‘‘ مرکزی حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ کوئی بھی طالب علم جیل میں نہیں ہے اور زخمی طالب علموں کو پولیس ہاسپٹل لے گئی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس افسروں کو بھی چوٹ لگی ہے۔

(ایجنسیاں)