جامعہ پر پولیس تشدد میں زخمیوں کی تلافی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے مرکز اور پولیس کو نوٹس جاری کیا
نئی دہلی، فروری 17: ایک اہم پیش رفت میں دہلی ہائی کورٹ نے جامعہ کے ایک طالب علم شایان مجیب کی طرف سے پچھلے سال پندرہ دسمبر کو دہلی پولیس کے حملوں میں ان کے زخموں کی تلافی کے طور پر 2 کروڑ روپے بطور تلافی کے لیے دی گئی درخواست پر مرکز اور دہلی پولیس کو نوٹسز جاری کیے۔
چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس سی ہری شنکر کی ڈویژن بنچ نے نوٹسز جاری کیے۔
اپنی درخواست میں طالب علم نے الزام لگایا ہے کہ جب وہ 15 دسمبر 2019 کو شام کو جامعہ ملیہ اسلامیہ لائبریری کے پڑھنے والے کمرے میں پڑھ رہا تھا تو پولیس کی طرف سے مار پیٹ کی وجہ سے اس کی دونوں پیروں میں فریکچر ہوا۔
درخواست کے مطابق مجیب نے اپنے علاج پر اب تک ڈھائی لاکھ سے زیادہ روپے خرچ کیے ہیں۔
اس حقیقت کے پیش نظر یہ بات کافی اہم ہے کہ جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) نے لائبریری کے اندر پولیس کی بے دردی کی ویڈیو فوٹیج جاری کی ہیں۔
فوٹیج میں دکھ رہا ہے کہ کس طرح پولیس نے لائبریری کے داخلی دروازے کو توڑ دیا اور سامنے اور پیچھے سے طالب علموں پر لاٹھی سے حملہ کیا جبکہ طلبا سمیت طالبات بھی ہاتھوں جوڑ کر پولیس سے التجا کر رہی ہیں کہ ان کے ساتھ مارپیٹ نہ کریں۔
پولیس نے پڑھنے والے بچوں کو بھی بے دردی سے مارا۔ طلبا کے ہاتھوں میں صرف کتابیں اور قلم تھے پھر بھی پولیس نے ان پر بے رحمی سے حملہ کیا۔
لائبریری کی ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ طلبہ لائبریری سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سامنے اور پیچھے سے پولیس نے ان پر حملہ کیا۔
تاہم دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ صرف طلبا کا پیچھا کر رہے تھے۔ لیکن طلبا کا کہنا ہے کہ اگر ان کا صرف پیچھا کیا جارہا تھا تو پولیس اہلکار انہیں لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے کیوں پیٹ رہے تھے۔ پولیس کے بہت سے اہلکار اپنے چہرے کو رومال سے ڈھانپ رکھے تھے۔