جارج فلائیڈکا قتل: سر بوقتِ ذبح اپنا اُس کے زیرِ پائے ہے

اے رحمان

امریکی ریاست مِنی سوٹا کے شہر مِنیا پولِس میں گذشتہ پچیس مئی کو ایک سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں سیہ فام امریکی شہری جار ج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل نے امریکہ ہی نہیں تقریباً تمام مغربی ممالک کے اجتماعی ضمیر کو بُری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔سیکیورٹی کے مقصد سے آس پاس نصب سی سی ٹی وی کیمروں اور عوام کے سمارٹ فونز میں ریکارڈ کئے گئے اس ہلاکت کے ویڈیو وائرل ہوتے ہی پورے امریکہ میں پولیس کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے جن کی شدّت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے روز یعنی چھبّیس مئی سے ہی نسلی امتیاز اورمنافرت کے خلاف قائم حقوقِ انسانی کی امریکی تنظیم Black Lives Matter (سیہ فام بھی انسان ہیں) نے اس وقوعے کے خلاف صدائے احٹجاج کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیااور بین الاقوامی سطح پر مظاہرے شروع ہو گئے جو اب بھی جا ری ہیں۔امریکہ میں اس سے قبل بھی پولیس کے ہاتھوں سیہ فام ملزمان کی ہلاکت کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جن کے سلسلے میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور اسی نسلی عصبیت پر مبنی سلوک کے خلاف 2013 میں مذکورہ تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا لیکن اس مرتبہ احتجاج کی نوعیت اور سنگینی اس پہلو سے بھی فقید المثال ہے کہ امریکہ کی ہر ریاست کے ہر شہر،قصبے اور دیہی آبادیوں میں بھی یہ احتجاج جنگل کی آگ کی مانند پھیل گیا اور وہ تمام آبادیاں اور علاقے بھی احتجاج میں پورے طور سے شامل ہیں جہاں سفید فاموں کی اکثریت ہے۔اس کے علاوہ دیگر نسلی شناخت رکھنے والے عوام بھی امریکی سیہ فام شہریوں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کی تفصیلات نہایت دلدوز ہیں۔پچیس مئی رات آٹھ بج کر آٹھ منٹ پر پولیس کنٹرول روم کو ایک اسٹور کے مالک نے اطلاع دی کہ ایک شخص جعلی کرنسی استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔( جارج فلائیڈ نے اُس اسٹور سے بیس ڈالر کا مبیّنہ طور پرجعلی نوٹ دے کر سگریٹ خریدنے کی کوشش کی تھی)دو پولیس افسر محکمے کی کار میں جائے واردات پر پہنچے تو اسٹور کے ایک ملازم نے انہیں بتایا کہ وہ ’شخص ‘ قریب کھڑی ایک کار میں بیٹھاہے اور جارج فلائیڈ کی اشارے سے نشاندہی کر دی۔ پولیس والوں کا کہنا ہے کہ جب وہ کار کے قریب پہنچے تو انہیں محسوس ہوا کہ ملزم کسی نشے کے زیرِ اثر ہے۔بہرحال جارج کی ’’جسمانی مزاحمت‘ کے باوجود وہ اسے ہتھکڑیاں ڈالنے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس کی ظاہری طور پر ’ناساز‘ کیفیت کے مدّ ِ نظر انہوں نے ایمبولینس کے لئے بھی پیغام نشر کر دیا۔انہوں نے جارج کو پولیس کار میں ٹھونسنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے اور اسے وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھا دیا۔اس اثنا میں دو اور آفیسر تو تھاؤ اور ڈیریک شوون بھی وہاں پہنچ گئے۔چاروں نے مل کر جارج کو پولیس کار میں بٹھانے کی کوشش کی لیکن اچانک جارج کا جسم اکڑ گیا اور وہ منہ کے بل زمین پر گر گیا۔اس کے ہاتھ پیچھے کی جانب لے جا کر ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے جو امریکی قانون کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کا مقرّر شدہ طریقہ ہے۔اسے مزید بے بس کرنے کے لئے دو پولیس والوں نے اس کی دونوں ٹانگیں دبا لیں اور ڈیریک شوون نے اپنا دایاں گھٹنا اس کے سر اور کندھے کے درمیان گردن پر رکھ دیا ۔یہ منظر قریب کھڑے ایک تماشائی نے اپنے فون کے ذریعے فیس بک پر لائیواسٹریم live stream کیا۔شوون تقریباً آٹھ منٹ اپنا گھٹنا جارج کی گردن پر رکھے رہا ۔ابتدائی چند منٹوں میں جارج کو کہتے سنا گیا’’ پلیز‘‘ ۔۔۔’’میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں‘‘۔آس پاس کھڑے لوگوں نے کہا۔۔’’ اسے اب کار میں بٹھا لو۔۔۔ وہ مزاحمت نہیں کر رہا ہے ‘‘ وغیرہ، لیکن شوون کے کان پر جوں نہ رینگی۔پھر کسی شخص نے توجّہ دلائی کہ جارج ساکت ہو چکا تھا اور اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ایمبولینس کے آنے پر میڈیکل اسٹاف نے بھی یہ بات نوٹ کی اور ان کے کہنے پر ہی شوون نے جارج کی گردن سے گھٹنا ہٹایا مگر جیسا کہ بعد میں پتہ چلا جارج چار منٹ قبل دم توڑ چکا تھا۔اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے فوراً مردہ قرار دے دیا ۔ اس کی لاش کے ابتدائی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں موت کی وجہ بعض عوامل کی موجودگی سے دل کی حرکت بند ہو جانا بتائی گئی لیکن جارج کے اہل خاندان نے اپنے طور پر اس کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کرایا جس میں صاف ہو گیا کہ موت گردن پر دباؤ پڑنے پردم گھٹنے سے ہوئی تھی۔اس کے بعد آفیشل پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی موت کو قتل قرار دے دیا گیا۔

جارج کا قتل نسلی منافرت پر مبنی پولیس بربریت کا نتیجہ تھا اس کا بیّن ثبوت بھی یوں مل گیا کہ اس کا قاتل پولیس والا ڈیریک شوون جس کلب میں جز وقتی طور پر کام کرتا تھا وہاں اس کے خلاف نسلی امتیاز سے آلودہ معاندانہ سلوک کی کئی شکایتیں درج ہوئی تھیں۔جارج کی ہلاکت میں ملوّث چاروں پولیس والے معطّل ہو کر گرفتار کر لئے گئے تھے اور ڈیریک شوون کے لئے جج نے کثیر زرِ ضمانت (تقریباً ساڑھے بارہ لاکھ ڈالر) مقرّر کیا تھا لیکن وہ مطلوبہ ضمانت مہیّا کر کے کل جیل سے باہر آ گیا۔ایک اور پولیس آفیسر ٹا مس لین بھی ساڑھے سات لاکھ ڈالر کی ضمانت پر رہا کر دیا گیا جبکہ بقیہ دو ابھی حراست میں ہیں۔

دنیا میں نسلی امتیاز اور منافرت کی تاریخ انسانی تہذیب جتنی ہی پرانی ہے لیکن امریکہ میں یہ تاریخ نہایت ہولناک اور انسانیت سوز واقعات پر مشتمل ہے۔اسی سال یعنی مارچ 2020 میں نیو یارک ٹائمز کے نامور صحافی ایڈوارڈو پورٹر کی تصنیف کردہ کتاب شائع ہوئی جس کا عنوان ہے ’’ امریکی زہر۔۔۔ کس طرح نسلی عناد نے ہمارے (خود سے کئے گئے) وعدے کو تباہ کر دیا‘‘۔اس کتاب میں پورٹر نے بڑی ایمانداری اور صاف گوئی سے تجزیہ کیا ہے کہ نسل پرستی نے کس طرح امریکی معاشرے کے وجود کو درہم برہم کر کے نہ صرف قومی حصولیابیوں کی نفی کی بلکہ امریکی باشندوں کی اجتماعیت کو گہرے زخم پہنچا کر باہمی دوستی اور انسانی اقدار کو تحس نحس کیا۔ پورٹر کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیگر ترقّی یافتہ صنعتی ممالک کے مقابلے امریکہ کے بتدریج پچھڑنے کی بہت بڑی وجہ یہاں کا نسلی امتیاز ہے۔ اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے (نیو یارک ٹائیمز چھ اپریل 2020) مائیکل اگناتیف نے لکھا کہ سیہ فام اور ہسپانوی نژاد امریکیوں کے خلاف نسلی تعصّب امریکہ کو برباد کر کر رہا ہے اور اس تعصّب نے اُس امریکی سفید فام مزدور طبقے کے لئے عقیدے کی صورت اختیار کر لی ہے جسے ڈونالڈ ٹرمپ میں اپنا نجات دہندہ نظر آتا ہے۔

نسلی امتیاز یا تعصّب کی بنیاد یہ غیر سائنسی اور احمقانہ عقیدہ ہے کہ منفرد جسمانی شناخت رکھنے والا کوئی انسانی گروہ محض بعض جسمانی اوصاف (جلد کا رنگ،چہرے اور آنکھوں کی ساخت وغیرہ)کی بنا پر دوسرے انسانی گروہوںسے افضل یا اعلیٰ تر ہے۔اسی عصبیت نے امتیازِ رنگ (apartheid ) غلامی، نازی ازم،امریکہ کے ’’جِم کرو‘‘ قوانین،وہائٹ آسٹریلیا اور جاپانی امپیریل ازم جیسے انسان دشمن تصوّرات اور سیاسی نظریات کو جنم دے کر بے شمار معصوم انسانوں کی خونریزی کی اور عظیم تر انسانی اقدار کو تلف کیا۔ ۔حالانکہ امریکی آئین میں فرد کی آزادی اور انسانی مساوات کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اور نسلی عصبیت یا کسی بھی دوسری بنا پر کسی بھی قسم کے امتیاز کے خلاف درجنوں قوانین موجود ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی سفید فام برتری کے دعوے دار گروہوں اور تنظیموں (white supremacist ) کو کھلی چھوٹ مل گئی اور ٹرمپ کے ’’ پہلے امریکہ‘‘ نعرے کو سفید فام امریکیوں کے تفوّق سے تعبیر کیا گیا۔ سفید فاموں کے ہاتھوںبے شمار سیہ فام اور ہسپانوی نژاد لوگوں کے قتل اسی درپردہ سیاسی حمایت کا شاخسانہ تھے۔اور اگر دنیا کی بد قسمتی سے ٹرمپ ایک مرتبہ پھر عہدۂ صدارت کے لئے منتخب ہو جاتا ہے ( جس کے امکانات اب کم ہی نظر آتے ہیں) تو امریکہ بہت جلد اس تباہی سے ہمکنار ہو گا جس کا ذکر پورٹر نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔

مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ موصوف مختلف سماجی اور ادبی کازوں سے وابستہ ہیں۔ آپ موقر ادارے عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔