تہوارسیزن کے بعدمعیشت میں کسی قدر بہتری

منفی جی ڈی پی کے سارے اندازے غلط۔سخت حالات کے باوجود‏زرعی شعبہ کا بہتر مظاہرہ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

جاریہ مالی سال کے دوسرے سہ ماہ (جولائی تا ستمبر) کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کی گروتھ میں 7.5 فیصد کی تنزلی ہوئی ہے۔ جبکہ یہ تنزلی اب تک کے تمام تجزیہ کاروں کے اندازوں سے کافی کم ہے۔ سبھی ریٹنگ ایجنسیوں نے 8.12 فیصد تک کی تنزلی کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ سب سے کم 8.6 فیصد کی تنزلی کا امکان ایس بی آئی نے جاری کیا تھا۔ پہلی سہ ماہی میں تقریباً 24 فیصد کی بدترین گراوٹ آئی تھی جی ڈی پی میں 7.5 فیصد کی تنزلی کے اعداد و شمار حال ہی میں نیشنل اسٹیٹسٹیکل آفس (این ایس او) نے جاری کیے ہیں۔ ستمبر کی سہ ماہی میں مستقل قیمت (Constant price) 2011-12 میں جی ڈی پی کا اندازہ 33.14 لاکھ کروڑ روپے کا تھا۔ اس سے ایک سال قبل اسی مدت میں یہ 35.84 لاکھ کروڑ روپے کا تھا اس سے ایک سال قبل اسی مدت میں یہ 35.84 لاکھ کروڑ روپے کا تھا جبکہ گزشتہ سال کی دوسری سہ ماہی میں جی ڈی پی میں4.4 فیصد کی ترقی ہوئی تھی۔ اگر 12-2011 کی بنیاد پر بنیادی قیمت (Basic Price) دیکھیں توجی ڈی اے gross value added) ) کی ترقی میں 7 فیصد کی تنزلی آئی ہے جو امسال ستمبر کی سہ ماہی میں 30.49 لاکھ کروڑ روپے کا اندازہ لگایا گیا ہے جبکہ ایک سال قبل 32.78 لاکھ کروڑ روپے تھا۔ حکومت کی این ایس او سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 2020.21 کے دوسری سہ ماہی کی موجودہ قیمت پر جی ڈی پی 4722 لاکھ کروڑ روپے بنتا ہے۔ ایک سال قبل اسی مدت میں 49.21 لاکھ کروڑ روپے تھا۔ اس میں 4 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی جبکہ ایک سال قبل اس میں 5.9 فیصد کی ترقی درج کی گئی تھی۔ جی وی اے اس وقت 44.46 لاکھ کروڑ روپے کے مقابلے 42.80 لاکھ کروڑ روپے تھا۔ یعنی 4.2 فیصد کی گراوٹ رہی ہے۔ سال 21-2020 کے مقابلے پہلے 6 ماہ (اپریل تا ستمبر) کے لیے مستقل قیمت 12-2011 پر جی ڈی پی کا اندازہ 6.04 لاکھ کروڑ روپے لگایا ہے جبکہ گزشتہ سال اسی مدت میں 71.20 لاکھ کروڑ روپے کا تھا۔ اس میں 15.7 فیصد کی تنزلی پہلے 6 ماہ میں سامنے آئی ہے جبکہ ایک سال قبل اس میں 4.8 فیصد کی بہتری تھی۔ 21-2020 کی ابھی کی قیمت پر جی ڈی پی کی کل متوقع قیمت 85.3 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ اس میں 13.3 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ ایک سال قبل اس میں 7 فیصد کی بہتری تھی۔ دوسری سہ ماہی کا اندازہ 21-2020 کی خریف موسم کے دوران زرعی پیداوار کے پیشگی اندازے کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔ اس میں گوشت، انڈے، دودھ و دیگر اشیا شامل ہیں۔ جی ڈی پی کے اعداد و شمار کے کچھ گھنٹے قبل 8 کور صنعتوں کے اکتوبر کے اعداد و شمار جاری کیے گئے جس کے مطابق 8 کور انڈسٹریز کا اعداد و شمار 124.2 پر اکتوبر میں رہا۔ یہ اکتوبر 2019 کے مقابلے میں 2.5 فیصد کم ہے۔ اپریل سے اکتوبر 2020 کی بات کریں تو اس میں 13 فیصد کی تنزلی درج کی گئی ہے۔ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد مئی میں آمد و رفت میں کچھ سرگرمیاں شروع ہوئیں جبکہ دوسری سہ ماہی میں پوری معیشت کا دوبارہ آغاز ہو گیا۔ ایسے حالات میں جی ڈی پی میں گراوٹ کا ہونا فطری ہے۔ غیر ملکی ریٹنگ ایجنسیوں کے مطابق جی ڈی پی میں 8 تا 12 فیصد کی گراوٹ متوقع تھی۔ آر بی آئی آئی کا اندازہ تھا کہ بھارتی جی ڈی پی میں 8.6 فیصد کی تنزلی رہے گی جبکہ موڈیز کا 10.6 فیصد کا تھا۔ کیر ریٹنگس نے 9.9 فیصد، کریسیل نے 12 فیصد، اکرا نے 9.5 فیصد اور ایس بی آئی ریسرچ نے 10.70 فیصد کی گراوٹ کا اندازہ لگایا تھا۔ جن شعبوں میں اچھے مظاہرے کی امید تھی ان میں زراعت، بینکنگ، فائنانس اور شعبہ خدمت ہیں جبکہ مینو فیکچرنگ میں تنزلی آ سکتی ہے مگر گزشتہ جمعرات کو ہی سنٹر فارمانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) نے کہا کہ دوسری سہ ماہی میں بعض درج فہرست کمپنیوں کا منافع 1.50 لاکھ کروڑ روپے ہو گیا ہے جو اب تک کی کسی سہ ماہی میں سب سے زیادہ تنزلی ہے۔ اس سے قبل 2014 کی چوتھی سہ ماہی میں 1.18 لاکھ کروڑ روپے کا منافع ہوا تھا۔ دوسری سہ ماہی میں اس لیے بھی بہتری کی توقع تھی کیونکہ ایک تو لاک ڈاؤن کے کھلنے کی وجہ سے آمد و رفت شروع ہوئی۔ اس کے علاوہ دوسری سہ ماہی میں آمدنی بھی اچھی رہی ہے۔ دیگر شعبے بھی کھلے ہیں۔ بجلی، ڈیزل، جی ایس ٹی جیسے تمام کھپت اور آمدنی کے محاذ ہیں۔ اس میں بھی نمایاں بہتری نظر آئی۔واضح رہے کہ جی ڈی پی کمیٹی ملک میں پیدا ہونے والے سبھی اشیا اور خدمت کی مجموعی قیمت کو کہتے ہیں۔ جی ڈی پی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا سب سے بڑا پیمانہ ہے۔ زیادہ جی ڈی پی کے معنی ہیں ملک معاشی طور پر خوشحال ہو رہا ہے۔ عوامی زندگی میں بہتری اور خوشحالی نظر آنے لگی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کن شعبوں میں ترقی ہو رہی ہے اور کون سا شعبہ پچھڑ رہا ہے۔ جی ڈی پی کی طرح ایک اور پیمانہ ہے اسے گراس ویلیو ایڈیڈ (جی وی اے) کہتے ہیں کسی معیشت میں ہونے والی مجموعی آوٹ پٹ اور آمدنی کا اشارہ دیتا ہے۔ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایک خاص مدت میں ان پٹ اور خام مال کی قیمت لگا لینے کے بعد کتنے روپیوں کے سامان کی پیدوار ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ خاص شعبے میں کتنی پیداوار ہوئی۔ قومی اکاونٹنگ کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مائکرو لیول پر بھی جی ڈی پی میں سبسیڈی اور ٹیکس نکالنے کے بعد جو اعداد و شمار سامنے آتے ہیں اس سے معاشی سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا ہے جبکہ جی ڈی پی میں طلب اور کنزیومر سائیڈ کی تصویر نظر آتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ دونوں اعداد و شمار یکساں ہوں کیونکہ دونوں میں نیٹ ٹیکس ٹریٹمنٹ کا فرق ہوتا ہے۔ جی وی اے سے شعبوں کے پیداوار کے اعداد و شمار کی مختلف تصویر ملتی ہے اس میں منصوبہ سازوں کو یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ کیا کسی شعبہ میں راحت کی ضرورت ہے؟ لیکن جی ڈی پی کے اعداد و شمار اس وقت اہم ہوتے ہیں جب ہمیں اپنے ملک کا مقابلہ دوسرے ملکوں کی معیشت سے کرنا ہوتا ہے۔
دراصل امسال زرعی شعبہ نے سخت حالات کے باوجود بہتر مظاہرہ کیا ہے دیہی علاقوں میں بڑھ رہی طلب کا اثر ٹریکٹر کے فروخت سے ظاہر ہوتا ہے۔ الارہ کیپٹل کی ماہر معیشت گریما کپور نے کہا کہ جی ڈی پی کے نتیجے ہمیں حوصلہ دیتے ہیں کیونکہ معیشت میں ریکوری ظاہر ہو رہی ہے۔ آئی سی آئی سی آئی سیکیوریٹیز کی اکانومسٹ انگھا دیودھر کہتی ہیں کہ دوسری سہ ماہی کی جی ڈی پی ہمارے اندازے سے بہتر ہے۔ زیادہ شعبوں میں بہتری اندازہ کے مطابق ہے۔ مینو فیکچرنگ اور تجارت میں ترقی چونکا دینے والی ہے۔ مگر نجی کھپت میں 11.5 فیصد کی تنزلی کافی پریشان کن ہے۔ شرح سود میں کمی اور رہائشی منصوبوں کے لیے سرمایہ مہیا کرانے سے رئیل اسٹیٹ کو بھی سہارا ملا ہے۔ چیف اکانومک ایڈوائزر کرشنا مورتی سبرامنین نے کہا کہ دوسری سہ ماہی میں منفی 7.5 فیصد کی جی ڈی پی سخت حالات کے باوجود حوصلہ افزا ہے اس لیے اب منصوبہ سازوں کو اشیا کی آمدورفت میں تیزی کے ساتھ تعمیر اور بنیادی ڈھانچہ کے شعبوں کو متحرک کرنا ہوگا۔ لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ گزشتہ دنوں میں تجارت میں جو عارضی اضافہ ہوا ہے وہ دیوالی کی تہواری ہفتہ میں تعطیل سے ہوئی ہے۔ اس لیے ایس بی آئی کی بزنس ایکٹیوٹی انڈیکس میں 9 مارچ کے بعد سے سب سے اونچی شرح پر بہتری ہوئی ہے۔
***

دوسری سہ ماہی میں منفی 7.5 فیصد کی جی ڈی پی حوصلہ افزا ہے اس لیے اب منصوبہ سازوں کو اشیا کی آمد و رفت میں تیزی کے ساتھ تعمیر اور بنیادی ڈھانچہ کے شعبوں کو متحرک کرنا ہوگا۔ لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ گزشتہ دنوں میں تجارت میں جو عارضی اضافہ ہوا ہے وہ دیوالی کی تہواری ہفتہ میں تعطیل سے ہوئی ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020