لئیق اللہ خاں منصوری، ایم اے (بنگلورو)
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّائِمِیْنَ وَالصٰٓئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا الاحزاب (۳۵)
بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں ، مومن ہیں ، مطیع فرمان ہیں ، راست باز ہیں، صابر ہیں ، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں صدقہ دینے والے ہیں ، روزہ رکھنے والے ہیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں ، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔
سورة الاحزاب کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کے لیے مسلمان مردوں اور عورتوں کی دس صفات بیان کی ہیں:
٭ قرآن مجید میں عموماً مسلمانوں کو جو بھی ہدایات دی گئیں ہیں وہ مَردوں کے صیغے میں دی گئیں ہیں جن میں خواتین سے بھی خطاب شامل ہوتا ہے۔ لیکن بعض مخصوص موقعوں پر خواتین کو خصوصیت کے ساتھ الگ سے بھی بیان کر دیا گیا ہے۔ ان ہی میں سے ایک آیت یہ بھی ہے۔ اسی طرح سورہ توبہ میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایک دوسرے کا رفیق قرار دیا گیا ہے (آیات:۷۱ تا ۷۲) جبکہ سورہ حجرات میں جہاں مسلمان مردوں کو ایک دوسرے کے مذاق اڑانے سے منع کیا گیا ہے، وہیں خواتین کو بھی الگ سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دوسری عورتوں کا مذاق نہ اڑائیں۔ (آیت: ۱۱)
٭ سورہ احزاب کی اس آیت سے پہلے کی آیات میں نبی ﷺ کی بیویوں کو خاص ہدایات دی گئیں ہیں اور ان کی دگنی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے۔ ان آیات کے مطالعہ سے عام خواتین میں ایک احساس پیدا ہونے کے امکانات تھے کہ سارا اجر نبی ﷺ کے اہل خانہ کو حاصل ہے جس سے ہم محروم ہیں۔اس ممکنہ غلط فہمی کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ زائل کر دیا کہ تمام مرد و خواتین سے اسی قسم کے اوصاف مطلوب ہیں اور ان کے لیے بھی بے پایاں اجر ہے۔
٭ اس آیت میں کامیابی کے لیے دس صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ (۱) اسلام (۲) ایمان (۳) قنوت (۴) صدق (۵) صبر (۶) خشوع (۷) صدقہ کرنا (۸) روزہ (۹) شرم گاہوں کی حفاظت اور (۱۰) اللہ کا کثرت سے ذکر۔ (ان صفات میں ایک ترتیب بھی ہے اور ہر صفت اپنی جگہ منفرد و مکمل بھی ہے)
(۱) اسلام کے معنی اللہ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا۔ایک اعتبار سے یہ ایک فرد کے لیے آغاز ہے۔ دوسرے اعتبار سے پوری زندگی اس پر قائم رہنے کا چیلنج بھی ہے۔
(۲) ایمان: جو دل سے تسلیم کرتے ہوں اور ان چیزوں پر یقین کرتے ہوں جن پر ایمان کی تلقین کی گئی ہے۔ صرف ظاہری طور پر مسلمان نہیں ہیں بلکہ دل کی آمادگی کے ساتھ۔
(۳) قنوت: اطاعت اور فرماں برداری کو کہا جاتا ہے۔ ایمان کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ بندہ مومن عمل کے ذریعہ اپنے ایمان کی گواہی دیتا ہے یا دیتی ہے۔
(۴) صدق: اپنے قول اور عمل میں سچائی پر قائم ہوتے ہیں۔ نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ جھوٹ پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی جھوٹ کے گواہ بنتے ہیں۔
(۵) صبر: اللہ و رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے اور اللہ کے دین کو قائم کرنے میں جو بھی مشکلات بھی آئیں، پوری ثابت قدمی کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔
(۶) خشوع: عاجزی اور انکساری کو کہا جاتا ہے۔ اللہ کے بندے/بندیاں غرور و تکبر سے پاک ہوتے ہیں۔ ان کے دل اور جسم دونوں اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔
(۷) صدقہ: یہ فراخ دل اور انسانیت نواز ہوتے ہیں۔زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کے ذریعے بندوں کے کام آتے ہیں۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی ادا کرتے ہیں۔
(۸) روزہ: روزہ رکھنا اخلاص وللّٰہیت، تقویٰ اور ضبط نفس کی مشق کا ذریعہ ہے۔ اللہ کی جانب سے مغفرت اور اجر عظیم ان کے لیے ہے جو خود کو خدا کے تابع کر دیتے ہیں۔
(۹) حفظ فروج: شرم گاہوں کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ وہ زنا نہیں کرتے، فحش اور عریانیت سے محفوظ رہتے ہیں۔ پاک دامنی ان کی پہچان ہوتی ہے۔
(۱۰) ذکرِ کثیر: اللہ کا ذکر ان تمام اوصاف پر حاوی ہے۔ سورہ عنکبوت میں ہے کہ: اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے (۴۵) خدا کی یاد سے غافل کوئی عبادت مقبول نہیں ہے۔
٭ یہ اسلام کی بنیادی قدریں ہیں۔ ان قدروں کے حامل افراد (خواہ وہ مرد ہوں کہ عورتیں) دونوں کے لیے اللہ نے بخشش اور بہت بڑا اجر (جنت کی شکل میں) تیار کر رکھا ہے۔
٭ پانچ صفات (ایمان، صدق، خشوع، روزہ، ذکر الٰہی) کا تعلق باطن سے ہے، جبکہ پانچ (اسلام، قنوت، صبر،صدقہ، حفظ فروج) کا تعلق ظاہر سے ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان دس صفات سے متصف فرمائے اور اپنی جانب سے مغفرت اور اجرِ عظیم کا ہمیں حق دار بنائے۔ آمین
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021