تاریخی سنہری باغ مسجد کی انہدامی کارروائی سے ثقافتی تانے بانے کو ناقابل تلافی نقصان کا خطرہ
جماعت اسلامی ہند نے مجوزہ این ڈی ایم سی کی انہدامی کارروائی کی تیاری پر تشویش کا اظہار،عوامی نوٹس کو منمانی کارروائی قرار دیا
نئی دہلی،28دسمبر :۔
راجدھانی دہلی کے انتہائی اہم علاقے میں واقع تاریخی مسجد سنہری باغ مسجد کے ممکنہ انہدامی کارروائی کی خبر نے دہلی ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے مسلمانوں میں تشویش پیدا کر دیا ہے ۔اس سلسلے میں جہا ں ایک طرف مسلمانوں میں اضطراب پایا جا رہا ہے وہیں ملی اور مذہبی تنظیموں نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔جمعیۃ علمائے ہند نے پہلے ہی اس مسجد کے تحفظ کے لئے ایک طرف وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو خط لکھ کر کارروائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے تو وہیں دوسری طرف مسجد کے تحفظ کے لئے قانونی لڑائی کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ملک کی باوقار ملی تنظیم جماعت اسلامی ہند نے بھی تاریخی مسجد کے انہدامی کارروائی کی تیاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر ملک محتشم خان نے ایک بیان میں ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ نئی دہلی میونسپل کونسل (این ڈی ایم سی) ٹریفک کے مسائل کی وجہ سے سنہری مسجد کو منہدم کرنے پر غور کر رہی ہے۔
مجوزہ انہدام کی مخالفت کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر نے میڈیا کو ایک بیان میں کہا، "ہم چیف آرکیٹیکٹ، این ڈی ایم سی کے من مانی عوامی نوٹس پر انتہائی فکر مند اور پریشان ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ این ڈی ایم سی سنہری مسجد (گریڈ III ہیریٹیج بلڈنگ) کو ہٹانے پر غور کر رہی ہے ۔ اس نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سنہری باغ کے چکر کے آس پاس بہتر ٹریفک مینجمنٹ فراہم کرنے کے لئے دہلی ٹریفک پولیس کی طرف سے باضابطہ درخواست موصول ہونے کے بعدکارروائی کی تیاری کی جا رہی ہے ۔ این ڈی ایم سی یونیفائیڈ بلڈنگ بائی لاز- 2016 کے تحت سنہری مسجد کو منہدم کی کارروائی کر رہی ہے۔ ملک محتشم خان نے کہا کہ ہم ایسی شاندار ہیریٹیج بلڈنگ کے انہدام پر سخت اعتراض اور مخالفت کرتے ہیں۔ سنہری مسجد کی حفاظت این ڈی ایم سی کی ذمہ داری ہے، جو مرکزی حکومت اور دہلی حکومت دونوں کے کنٹرول میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دہلی کے ممتاز آرکٹیکچر کے ایک گروپ کے ذریعہ این ڈی ایم سی کو لکھے گئے خط کی توثیق کرتے ہیں جس میں ماہرین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ "سنہری باغ مسجد محض اینٹوں اور مارٹر کا ڈھانچہ نہیں ہے۔ یہ ہماری تاریخی میراث اور تعمیراتی عظمت کا ثبوت ہے۔ اس کے انہدام کے نتیجے میں ثقافتی تانے بانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ ہم ان ماہرین کی رائے سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ "عالمی سطح پر ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں جدید شہری منصوبہ بندی کامیابی کے ساتھ تاریخی تحفظ کے ساتھ مربوط کی گئی ہے ۔ متعدد ممالک میں تاریخی وراثت کو محفوظ کرتے ہوئے ترقی ہوئی ہے اور ٹریفک کو بھی ہموار کیا گیا ہے ۔
نائب صدر نے نشاندہی کی، "مسجد سے پیدا ہونے والے ٹریفک کے مسائل پر عوام کی رائے حاصل کرنے کے بجائے، NDMC کو ماہر کی رائے لینا چاہئے اور متبادل حل کی فزیبلٹی کو چیک کرنا چاہئے جیسے مسجد کے ارد گرد ایک گول چکر بنانا، زیر زمین سرنگ یا ایک اوور ہیڈ فلائی اوور کی تعمیر وغیرہ جیسے دیگر متبادل کا بھی انتظام کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دارالحکومت میں ہر روز کسی نہ کسی مذہبی، ثقافتی، تعلیمی، سیاسی اور کاروباری تقریبات کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ ہم ان تمام سرگرمیوں کو ختم کر دیں؟ دنیا کا کوئی بھی ملک ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لئے اپنی تاریخی اور ثقافتی ورثے کو ختم نہیں کر دیتا۔ جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ سنہری مسجد دہلی وقف بورڈ کی ملکیت ہے اور اس کی زمین پر این ڈی ایم سی کا دعویٰ جو کہ عدالت میں زیر التوا ہے، غلط ہے۔ جماعت حکومت ہند کو یاد دلانا چاہتی ہے کہ مجاہد آزادی اور رکن پارلیمنٹ مولانا حسرت موہانی (جنہوں نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا) پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کے دوران سنہری مسجد میں ہی قیام کرتے تھے۔ میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ این ڈی ایم سی کے عوامی نوٹس کے بعد عوام سے رائے طلب کی گئی ہے، لوگوں کی اکثریت نے مسجد کو منہدم کرنے کی مخالفت کی ہے۔ تاریخ کو منتخب طریقے سے مٹانا انتقامی اور مایوس کن ہے اور اگر ہماری حکومت انصاف اور منصفانہ کھیل پر یقین رکھتی ہے تو اسے اس سے گریز کرنا چاہیے۔