بی جے پی کے صدر نے پارٹی کے رہنماؤں سے کہا کہ کورونا وائرس کے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیں

نئی دہلی، اپریل 4— نظام الدین مرکز کے معاملے میں، جس نے بی جے پی کے کچھ رہنماؤں اور اس کے حامیوں کو ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو فرقہ وارانہ بنانے کا بہانہ دے دیا، حکمران جماعت کے صدر جے پی نڈا نے مبینہ طور پر پارٹی رہنماؤں سے کہا ہے کہ اس متعدی بیماری کے پھیلاؤ کے مسئلے کو "فرقہ وارانہ رنگ” دینے سے گریز کریں اور اس میں کوئی "تفریق یا اختلاف” پیدا نہ کریں۔

واضح رہے کہ جب سے تبلیغی جماعت کے صدر دفتر نظام الدین علاقے کی عظیم الشان مسجد میں پھنسے ہوئے 2،000 سے زیادہ افراد کو 30 اور 31 مارچ کو وہاں سے نکالا گیا ہے، تب سے مبینہ طور پر مسجد کے اجتماع سے منسلک 400 افراد نے کورونا وائرس کا مثبت تجربہ کیا ہے۔

دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق بی جے پی کے سربراہ نڈا نے جمعرات کی شام دہلی میں قومی عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے ان سے اور پارٹی کے تمام رہنماؤں سے کہا کہ وہ کسی بھی اشتعال انگیز یا تفرقہ انگیز تبصرہ سے باز رہیں۔ انھوں نے ان سے وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتوں کی کوششوں کی حمایت کرنے کو بھی کہا چاہے وہاں کوئی بھی پارٹی حکومت میں ہو۔

انڈین ایکسپریس نے اجلاس میں شریک ہونے والے ایک نا معلوم رہنما کے حوالے سے بتا یا کہ ’’ایک ہدایت پہلے ہی موجود تھی کہ ہم پر قوم کی رہنمائی کرنے کی ایک بڑی ذمہ داری عائدہے۔ وائرس اور اس بیماری نے پوری دنیا میں ہر ایک عقیدے کے ماننے والوں کو خطرے سے دوچار کردیا ہے، کسی کو بھی ایسا کوئی بیان نہیں دینا چاہیے جو اشتعال انگیز ہو۔‘‘

پچھلے چار دنوں میں مرکزی وزیر مختار عباس نقوی، بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ اور دہلی بی جے پی کے سربراہ منوج تیواری اور دائیں بازو کی ٹرول فوج سمیت بی جے پی کے متعدد رہنماؤں نے ملک میں وائرس کے پھیلاؤ کے لیے تبلیغی جماعت پر جارحانہ حملہ کیا ہے۔

بی جے پی کے کچھ رہنماؤں کے تبصرے یہ ہیں:

بی جے پی کی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے کہا تھا ’’دہلی کا اندھیرا پھٹ رہا ہے! پچھلے 3 مہینوں میں شاہین باغ سے جامعہ، جعفرآباد سے لے کر سیلم پور تک سی اے اے مخالف مظاہروں کے نام پر سب سے پہلے اسلامی بغاوت کو دیکھا گیا۔ اور اب مرکز پر بنیاد پرست تبلیغی جماعت کا غیر قانونی اجتماع۔ اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے!‘‘

مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما مختار عباس نقوی نے کہا تھا ’’طالبانی جرم از تبلیغی جماعت۔ یہ غفلت نہیں ہے۔ یہ ایک سنگین مجرمانہ فعل ہے۔ جب پورا ملک کورونا کے خلاف متحد ہوکر لڑرہا ہے تو اس طرح کا گناہ ناقابل معافی ہے۔‘‘

دہلی بی جے پی کے سربراہ منوج تیواری نے کہا ’’کورونا وائرس نوع انسانی کا دشمن ہے۔ اس کے باوجود اجتماع اجازت کے بغیر کیا گیا۔ لوگ وائرس سے متاثر ہوئے۔ اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہئیے۔ مجھے اس میں ایک بڑی سازش نظر آرہی ہے۔ یہ معمول کا واقعہ نہیں ہے۔ اس کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے۔ جس نے بھی اس میں شرکت کی اس کا سراغ لگایا جانا چاہیے اور یہ معلوم کرنا چاہیے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور ان کا مقصد کیا تھا۔ مجھے شبہ ہے کہ یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔‘‘

گوا کے وزیر اعلی اور بی جے پی رہنما پرمود ساونت نے کہا تھا ’’تنظیم (تبلیغی جماعت) نے ہندوستان کو نقصان پہنچایا ہے۔‘‘

میڈیا کے ایک حصے خصوصاً ٹی وی چینلز نے بھی اس مسئلے پر فرقہ وارانہ رنگ ڈال کر مباحثہ کیا۔

واضح رہے کہ کئی ہزار افراد، جو ملک اور بیرون ملک سے مسجد میں 13-15 مارچ کی جماعت میں شرکت کے لیے آئے تھے، 22 مارچ سے لاک ڈاون نافذ ہونے کے بعد باہر نہیں جاسکے۔ 23 مارچ سے مرکز کے منتظمین متعلقہ سرکاری حکام سے خطوط کے ذریعے پھنسے ہوئے افراد کی مدد کی تلاش میں تھے۔ جو انھیں وقت پر دستیاب نہیں کی گئی۔