بین مذہبی مطالعہ ایک داعی کی اہم ضرورت

سورہ فاتحہ اور انجیلی دعا کا تقابلی جائزہ اور قرآن کی آفاقیت

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

مولانا عبد الماجد دریابادی ؒکے افکار معاصر دنیا کے لیے مشعل راہ
مولانا عبدالماجد دریابادی ( 1892-1977)  بھارت کی سرزمین پر نمودار ہونے والا ایک ایسا روشن اور تابناک نام ہے جس نے علم و ادب، تحقیق و تدوین اور دانش و حکمت کے جواہر پارے لٹائے۔ انہوں نے قرآنیات، سیرت اور فلسفہ جیسے موضوعات پر تقریباً ستر کتابیں تصنیف کیں۔ مولانا دریابادی نے جس وقت آنکھیں کھولیں اس وقت بھارت میں انگریزوں کا تسلط تھا جس کی وجہ سے عقل پرستی کا غلبہ تھا۔ فکرو نظر میں تنگی پیدا ہورہی تھی۔ سماجی سطح پر انسانی رشتوں کا تقدس مجروح ہو رہا تھا۔ علم و فضل میں رسوخ رکھنے والے ان سماجی، سیاسی اور دینی حالات کو دیکھ کر فکر مند تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ وطن کی عظمت اور اس کا تکثیری کردار بھی قائم رہے اور وطن انگریزوں کے استبداد سے آزاد بھی ہوجائے۔ یہ دنیا جانتی ہے کہ بھارت جیسے تعدد پسند ملک میں انگریزوں نے اپنی ناجائز حکومت قائم کر کے ملک و قوم اور یہاں کے معاشی ومعاشرتی احوال کو جس قدر متاثر کیا تھا وہ بہت ہی سنگین معاملہ تھا۔ علم و عمل سے مسلح اور شعور و آگہی سے لیس اصحاب نے اپنی  وسعت و گہرائی سے نہ صرف سماجی رشتوں کو بچایا بلکہ ہم آہنگی اور رواداری و علمی اعتدال و توازن کی اعلیٰ مثال قائم کرکے ملک کے تانے بانے کو مستحکم کیا۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنے علمی سرمائے اور نظریاتی توازن سے قوم کے اندر اتحاد و اتفاق کا ہی جذبہ جاگزیں نہیں کیا بلکہ انہوں نے قومی رشتوں کی بقا کے لیے اپنے علمی سرمائے خصوصاً تفسیری ادب میں دیگر مذاہب کی باتوں کو بھی بیان کیا ہے۔ بنا بریں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مولانا دریابادی اس بات کے قائل ہیں کہ اپنی تاریخ و تہذیب اور دین و دھرم کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام کی دینی، تاریخی اور سماجی روایتوں کا مطالعہ بھی کیا جانا چاہیے۔
آج ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے سے جو بیزاری اور دوری بڑھ رہی ہے اس کی وجہ جہاں جذبہ خیر سگالی کا معدوم ہونا ہے، وہیں ہم اپنے خول میں رہنے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں پائے جانے والے عقائد و نظریات اور مذاہب و ادیان کی بابت ہماری معلومات نہیں ہیں، اور اگر ہیں بھی تو ابھی تشنہ ہیں۔ آج بھی خود ہمارے اندر یہ فکر پائی جاتی ہے کہ کہ دیگر مذاہب کی تعلیمات یا ان کے رسم و رواج سے واقفیت پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ معاشرتی ہم آہنگی اور علمی رواداری کے لیے ضروری ہے کہ ہماری سوچ کا دائرہ نہایت وسیع اور متوازن ہو۔
شاید ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ مطالعہ ادیان اور تقابل ادیان پر سب سے پہلے کام مسلمانوں نے کیا ہے۔ افسوس تو یہ بھی ہے کہ مطالعہ ادیان کی روایت ہمارے معاشرے میں دن بدن مدھم پڑتی جارہی ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ امت مسلمہ داعی کی حیثیت رکھتی ہے لہٰذا ایک داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس قوم اور جس مذہب و مشرب کے افراد کو دعوت دے رہا ہے اسے اس قوم و معاشرے کی مذہبی، دینی، اخلاقی اور روحانی روایات و اقدار کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ داعی مدعو کو پوری طرح سے سمجھا سکے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے ان تمام سماجی و دینی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دیگر مذاہب و ادیان کی تاریخ و ثقافت اور ان کے نشیب و فراز کو خوب بیان کیا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مولانا نے دیگر مذاہب کا مطالعہ تعصب و تنگ نظری کا چشمہ اتار کر کیا ہے تاکہ تحقیقی رویوں اور فروغ علم کی روایت کسی بھی طرح سے متاثر نہ ہو۔ اسی طرح غیر جانب دار تحقیق کا اثر سماج پر مثبت مرتب ہوتا ہے۔ کسی کے جذبات و احساسات کو ٹھیس نہیں پہنچتی ہے البتہ حقائق و دلائل کی روشنی میں کوئی بات عام رجحان سے ہٹ کر پیش کی جاتی ہے تو اس کو ظاہر و باہر کرنا ضروری ہے، پھر اگر اسے کوئی اپنے لیے تنقیص وبے جا تنقید سمجھے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ مولانا دریابادی کا یہ امتیاز ہے کہ انہوں نے معاشرے کے اندر سنجیدہ علمی مباحث کے ذریعے بقائے باہم اور تحمل و برداشت کی شاندار روایت قائم کی ہے۔ اسی حوالے سے مولانا عبداللہ عباس ندوی نے لکھا ہے کہ :
"مفسر دریابادی نے خود پڑھ کر تحریف شدہ صحائف کا کھوکھلا پن دکھا دیا ہے اور یہ رنگ سورہ فاتحہ سے لے کر اخیر تک قائم ہے، سورہ فاتحہ کی تفسیر دیکھیے تو تفسیر ماجدی کے علاوہ کوئی تفسیر ایسی نہیں ملے گی جس میں اس کا موازنہ انجیلی دعا (Lord’s prayer) سے کیا ہو اور قرآن کی افضلیت کا سکہ بٹھایا ہو”
اس تناظر میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مولانا دریابادی نے توازن و تقابل ادیان کی جو منہاج قائم کی ہے وہ تکثیری معاشرے کے لیے مشعل راہ ہے۔ سماجی یکجہتی کی آئینہ دار ہے۔ ایک دوسرا نکتہ مولانا دریابادی کے مطالعہ ادیان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ مغربی فکر سے قطعی متاثر نہیں ہوئے۔ انہوں نے توریت، انجیل زبور اور وید و پران کی آیات و روایات کو نقل کیا ہے لیکن ان کا انداز بڑا عادلانہ اور محققانہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک غیر جانب دار محقق و مصنف کو حقائق کا تابع ہونا چاہیے اپنی فکر، نظریہ اور مسلک و مشرب کی اقتداء دوران تحقیق ہرگز نہیں کرنی چاہیے اگر چہ کوئی بات خود اس کے نظریہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بات عیاں ہے کہ مولانا عبدالماجد دریابادی کا علمی رتبہ اور تحقیقی مزاج جہاں باحثین و اسکالرس کے لیے قابل اتباع ہے تو وہیں ان کا تحریری ورثہ متوازن فکر وعمل کا شاہ کار بھی ہے۔ اسی کے ساتھ اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مثبت فکر اور سنجیدہ سوچ پر حامل کوئی بھی کردار ہر دور اور ہر معاشرے کے لیے قابل اتباع ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ انجیل میں بھی دعا مذکور ہے جسے انجیلی دعا کہا جاتا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس انجیلی دعا کو ذیل میں پیش کیا جائے ۔
1- اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔
2- تیری بادشاہت آئے تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔
3- ہماری روز کی روٹی ہمیں آج دے اور
4- جس طرح ہم نے اپنے قرض داروں کو معاف کیا ہے تو ہمارے قرض کو کفایت کر۔
5 – اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔ (تفسیر ماجدی، جلد اول، صفحہ 44)
اس دعا پر پوری مسیحی دنیا کو بڑا ناز ہے اگر ہم اس کا موازنہ قرآن مجید کی سورہ فاتحہ سے کرتے ہیں تو دونوں میں فرق واضح ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے مولانا دریابادی نے جو گفتگو کی ہے اس کا ماحصل یہ ہے: "یہ خوش عقیدگی نہیں اظہار حقیقت ہے کہ جس حیرت انگیز ایجاز و جامعیت کے ساتھ سورہ فاتحہ کی سات مختصر آیتوں میں توحید الٰہی اور صفات کمالیہ کا بیان آگیا ہے اس کی نظیر سے مذاہب عالم کے دفتر خالی ہیں اور اس سے بڑھ کر تو کیا اس کے برابر مثال پیش کرنے سے دنیا کے تمام مذاہب عاجز ہیں۔ مسیحی دنیا کو بڑا ناز اپنی انجیلی دعا پر ہے لیکن اول تو اس کا ضعفِ سند بھی خود مسیحی فاضلوں کے نزدیک مسلَّم ہے، یعنی اس کی تحقیق نہیں کہ الفاظ خود حضرت مسیح کے ہیں بھی یا نہیں” (تفسیر ماجدی، جلد اول، صفحہ 44)
ایک عام قاری جس نے سورہ فاتحہ کا مطالعہ کیا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ انجیلی دعا میں یقینی طور پر وہ آفاقیت اور عالمی تصور نہیں ابھرتا ہے جو تصور، قرآن نے سورہ فاتحہ کے اندر پیش کیا ہے۔ قرآن کی سورہ فاتحہ کا ایک پیغام یہ ہے کہ جس خدا کی ہم عبادت کرتے ہیں جسے ہم اپنا معبود و الہ متصور کرتے ہیں وہ سب کا نگراں ہے۔ سب کا خیال رکھتا ہے۔ وہ رب کسی خاص کمیونٹی، قوم و ملک کا نہیں ہے بلکہ کائنات میں جتنی بھی جاندار چیزیں پائی جاتی ہیں ان سب کا رب ہے۔ اس کی ربوبیت زمان و مکان اور قوم و وطن کی قید سے منزہ و مبرا ہے۔ گویا تعصب اور تنگ نظری سے بچنے کی تعلیم بھی ہمیں اس سورہ سے ملتی ہے۔ اس کے برعکس جب ہم دیگر مذاہب و ادیان اور ان کی  تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے اندر توسع اور آفاقیت کی وہ مثال نہیں ملتی جو اسلام پیش کرتا ہے۔ آج دنیا میں زیادہ تر وضع کردہ نظریات و افکار سے محدودیت اور تنگ نظری کی بو آتی ہے۔ دنیا میں اسی تصور اور نظریہ کی ضرورت ہے جس کے اندر اجتماعیت ہو سب کو ساتھ لے کر چلنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ مولانا دریابادی نے سورہ فاتحہ اور انجیلی دعا کا موازنہ کرکے اسلام کے آفاقی، عالم گیر، دائمی و رواداری کے پیغام کو بتانے کی کامیاب سعی کی ہے۔ مولانا دریابادی بین السطور میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ اسلام کی جملہ تعلیمات نوع انسانی کی مکمل و مدلل رہنمائی کرتی ہیں اور وہ اخوت و محبت اور انصاف و عدل کی پر زور حامی بھی ہیں۔ اس کے باجود تنگ نظر لوگ اسلام کی گھیرا بندی کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں، انہیں اسلام جیسے پاکیزہ دین پر کوئی اعتراض یا شک و شبہ عائد کرنے سے قبل اسلام کی تعلیمات کو تعصب و تنگ نظری کی عینک اتار کر پڑھنا چاہیے۔
مولانا دریابادی نے اپنے اداریوں، شذروں، کالموں اور کتب کے اندر معاشرتی ہم آہنگی کے اصول و ضوابط پیش کیے ہیں تو وہیں ان کی تحریریں معیاری ادب اور اعلی کردار کی حامل صحافت پر مشتمل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مولانا کا صحافتی کردار جو انہوں نے سچ، صدق اور صدق جدید میں پیش کیا ہے وہ حقیقی صحافت کی یاد تازہ کرتا ہے۔ آج جو صحافت کا رویہ ہے وہ بڑا ہی جانب دار اور خوشامدی ہے۔ اس کے اندر قومی اور معاشرتی ضروریات و تقاضوں کا تصور پوری طرح معدوم نظر آتا ہے۔ قومی ہمدردی اور سماجی مسائل کی بازگشت بالکل سنائی نہیں دے رہی ہے۔ یقیناً صحافت کا موجودہ کردار سماج و معاشرے کے لیے غیر مفید ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن جب ہم مولانا دریابادی کی صحافت اور اس کے نمونوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں وہ تمام چیزیں نظر آتی ہیں جن کے ذریعے سماج میں ہم آہنگی کی فضا ہموار ہو سکے ۔
مولانا دریابادی آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن انہوں نے علمی وراثت کا ایسا انمول اور بیش بہا ذخیرہ چھوڑا ہے جو صرف علمی حلقوں کی تشنگی کو ہی دور نہیں کرتا ہے بلکہ سماج کے اندر خود اعتمادی، فکری و نظریاتی توازن اور اعتدال و میانہ روی پیدا کرتا ہے۔ آخر میں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ مولانا دریابادی نے صحافت کو جو زینت بخشی ہے وہ تو ان کی شان ہے ہی، تفسیر کے اندر مطالعہ مذاہب کی جو خوشگوار روایت قائم کی ہے اس کی عہد حاضر میں بڑی وقعت ہے، کیونکہ یہ دور مناظروں اور مجادلوں کا نہیں ہے بلکہ مذاکرات اور مکالمات کا ہے۔ اس لیے مذاہب و ادیان سے واقفیت پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مطالعہ مذاہب کی آج علمی سطح پر جو اہمیت و افادیت ہے اس سے کہیں زیادہ اس کی اہمیت معاشرتی سطح پر ہے کیوں کہ اس سے معاشرے میں رائج غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے، ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع میسر آتا ہے اور ان تمام باتوں سے تکثیری معاشرے کے تقاضے تکمیل کو پہنچتے ہیں۔
***

 

***

 مولانا دریابادی نے اپنے اداریوں، شذروں، کالموں اور کتب کے اندر معاشرتی ہم آہنگی کے اصول و ضوابط پیش کیے ہیں تو وہیں ان کی تحریریں معیاری ادب اور اعلی کردار کی حامل صحافت پر مشتمل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مولانا کا صحافتی کردار جو انہوں نے سچ، صدق اور صدق جدید میں پیش کیا ہے وہ حقیقی صحافت کی یاد تازہ کرتا ہے۔ آج جو صحافت کا رویہ ہے وہ بڑا ہی جانب دار اور خوشامدی ہے۔ اس کے اندر قومی اور معاشرتی ضروریات و تقاضوں کا تصور پوری طرح معدوم نظر آتا ہے۔ قومی ہمدردی اور سماجی مسائل کی بازگشت بالکل سنائی نہیں دے رہی ہے۔ یقیناً صحافت کا موجودہ کردار سماج و معاشرے کے لیے غیر مفید ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن جب ہم مولانا دریابادی کی صحافت اور اس کے نمونوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں وہ تمام چیزیں نظر آتی ہیں جن کے ذریعے سماج میں ہم آہنگی کی فضا ہموار ہو سکے ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 دسمبر تا 16 دسمبر 2023