بین الاقوامی فوجداری عدالت نے ایغور مسلمانوں کی نسل کشی اور مبینہ حراست کے تعلق سے چین پر مقدمہ چلانے سے انکار کیا
نئی دہلی، دسمبر 16: بین الاقوامی فوجداری عدالت نے ایغور مسلمانوں کی مبینہ نسل کشی اور دیگر جرائم میں چین کے ملوث ہونے کی تحقیقات کے لیے جلاوطن ایغور مسلمانوں کے مطالبات کو مسترد کردیا۔
پیر کے روز ایک رپورٹ میں ، پراسیکیوٹر فتوؤ بینسودا نے کہا کہ وہ اس معاملے پر کارروائی نہیں کرسکتے، کیوں کہ مبینہ جرائم چین کے علاقے میں ہوئے ہیں، جو عدالت کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتے ہیں۔
جلاوطن ایغور مسلمانوں نے 6 جولائی کو عدالت میں ایک مواصلت پیش کی تھی اور یہ الزام عائد کیا تھا کہ چینی اہلکار ایغوروں کی نسل کشی اور دیگر انسانیت مخالف جرائم کے ذمہ دار ہیں۔ ان جرائم میں قتل، جلاوطنی، قید یا آزادی سے سخت محرومی، اذیتیں، نسبندی، ظلم و ستم وغیرہ شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مواصلات نے کارروائی کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جرائم تاجکستان اور کمبوڈیا کے علاقوں میں بھی پیش آئے، جو عدالت کے فریق ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ جرائم آئی سی سی ریاستوں کی ممبر کمبوڈیا اور تاجکستان کے علاقوں میں بھی ہوئے ہیں کیوں کہ متاثرین میں سے کچھ کو وہاں گرفتار کیا گیا تھا (یا ’’اغوا‘‘ کیا گیا تھا) اور چین جلاوطن کیا گیا تھا اور ایغور برادری کی تباہی میں مدد کی گئی تھی۔‘‘
تاہم پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ مقدمہ عدالت کے دائرۂ اختیار میں انسانیت کے خلاف جرائم کا نہیں ہے۔
انھوں نے کہا ’’ایسے تمام طرز عمل جن میں کسی جگہ سے افراد کو زبردستی ہٹانا شامل ہے، ان میں لازمی طور پر زبردستی منتقلی یا ملک بدری کا جرم نہیں ہوتا ہے۔‘‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جلاوطن ایغوروں نے پراسیکیوٹر کے دفتر سے درخواست کی ہے کہ وہ نئے حقائق یا شواہد کی بنیاد پر اس معاملے پر دوبارہ غور کریں۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق ایغوروں کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ جب نئے شواہد سامنے آئیں گے تو عدالت اس کیس کو کھولے گی۔
مقدمے کے معروف وکیل روڈنی ڈکسن نے کہا ’’دائرہ کار قائم کرنے کے لیے پراسیکیوٹر کو کمبوڈیا اور تاجکستان سے مزید ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے اور ہم سال کے اوائل میں اس کی فراہمی کریں گے۔‘‘
منگل کے روز ایغور برادری کے ممبروں نے عدالت کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ ایغور شاعرہ اور کارکن فاطمہ عبد الغفور نے کہا ’’آئی سی سی (بین الاقوامی فوجداری عدالت) ایک اور صرف ایک وجہ سے تشکیل دی گئی تھی: انتہائی خوفناک بین الاقوامی جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ ایغوروں پر چینی حکومت کے مظالم بے شمار ہیں۔‘‘
معلوم ہو کہ اقوام متحدہ کے مطابق سنکیانگ صوبے میں کم از کم 10 لاکھ ایغوروں اور دیگر مسلم برادریوں کے افراد کو کیمپوں میں حراست میں رکھا گیا ہے، تاکہ انھیں زبردستی اسلامی روایات پر عمل کرنے سے روکا جائے اور وہاں کی اکثریت میں ضم کردیا جائے۔ تاہم چین کا دعوی ہے کہ وہ پیشہ ورانہ تربیت فراہم کررہا ہے اور مذہبی انتہا پسندی کو ختم کر رہا ہے۔