اے رحمان
آج سے محض چھ ماہ قبل بھی اگر کوئی یہ پیشگوئی کرتا کہ بہت جلد ایک ایسی عالمی وبا پھوٹ پڑنے والی ہے جس کے باعث پوری دنیا پر گویا قفل لگ جائے گا، تمام عوامی ذرائع نقل و حمل بشمول ریل گاڑیاں اور فضائی پروازیں معطّل ہو جائیں گی،تمام کاروباری اور تعلیمی اداروں سے لے کر کارخانوں،ملوں اور منڈیوںکی سرگرمیاں روک دی جائیں گی ،اور تو اور دنیا بھر کے معبدوں یعنی مندر،مسجد،گورودوارے اور گرجا گھر تک بند ہو جائیں گے اور پوری دنیا کے عوام اپنے گھروں میں محبوس ہو نے پر مجبور ہوں گے یا قانون کے تحت محبوس کر دیئے جائیں گے تو سننے والے اسے دیوانے کی بڑ سمجھ کر ٹال دیتے۔لیکن ایسا ہو گیا۔اور بالکل اچانک۔کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری یا وبا بالکل قیامت کی مانند ہی دنیا پر نازل ہوئی جس کے لئے کوئی بھی تیّار نہیں تھا اور نہ جس کے پھوٹ پڑنے کا کوئی خدشہ تک کہیں محسوس کیا گیا تھا۔عالمی ادارۂ صحت نے گیارہ مارچ 2020 کی شب دسمبر 2019 میں چین سے شروع ہونے والی بیماری COVID19 کو عالمی وبا قرار دیا تو کئی ممالک کے ماہرین میں تو اسی بات پر بحث چھڑ گئی کہ اس متعدّی بیماری کو ’وبا‘ چہ جائیکہ ’’ عالمی وبا‘‘ کہنا درست ہے یا نہیں۔یہی وجہ تھی کہ اٹلی،اسپین،برظانیہ اور سب سے زیادہ امریکہ نے معاملات کی سنگینی کو نہ سمجھتے یا نظر انداز کرتے ہوئے فوری طور پر عالمی ادارۂ صحت کی تجویز کی ہوئی احتیاطی تدابیر سے غفلت برتی اور اس کے نتائج وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔کسی بھی بیماری کو عالمی وبا قرار دینے کا اختیار عالمی صحت تنظیم (WHO )، جسے عالمی ادارۂ صحت بھی کہا جاتا ہے، کے پاس ہے جو اقوامِ متحدّہ کا ایک ذیلی لیکن خود مختار ادارہ ہے۔دنیا کے تمام ممالک اس ادارے کے ساتھ تعاون اور کوئی عالمی وبا پھوٹ پڑنے کی صورت میں اس کی ہدایات پر عمل کرنے کے لئے اخلاقی اور بین الاقوامی معاہدات کے تحت قانونی طور پر بھی پابند ہوتے ہیں،اور ان ہدایات پر عمل نہ کرنے والے ممالک کو عالمی پابندیوں اور کئی دیگر اقسام کے سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔کورونا وائرس سے قبل جدید دنیا کی بد ترین عالمی وبا تھی اسپینش فلو جو جنگِ عظیم اوّل کے دوران سامنے آئی تھی ۔1918 سے 1920 کے دوران اس بیماری سے پانچ کروڑ افراد متاثر ہوئے جن میں سے پچاس لاکھ ہلاک ہو گئے،حالانکہ یہ بیماری عام انفلوینزا کی ایک شدید تر صورت تھی۔ کورونا کے متاثرین اور مہلوکین کے اعداد و شمار ابھی اس سطح تک تو نہیں آئے لیکن عالمی ادارۂ صحت اور بعض دیگر ماہرین کی رائے ہے کہ یہ وبا ابھی اپنی معراج کو نہیں پہنچی اور بد ترین صورتِ حال ابھی آنے کو ہے۔جیسا کہ کہا جا رہا ہے اگر اس سال کے آخر تک وائرس کی کوئی کامیاب ویکسین بن کر عوامی استعمال کے لئے لے آئی گئی تو ترقّی یافتہ ممالک میں بھی زندگی اور معیشت کو معمول پر آنے میںکم از کم پانچ مزید سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تقریباً تمام ترقّی یافتہ ممالک میں بنیادی اشیائے ضروریہ کی فراہمی ان درآمدات پر منحصر ہے جن کی صنعت سستی مزدوری والے ترقّی پذیر یا افریقہ،ایشیا اور ساؤتھ امریکہ کے بعض پسماندہ ممالک میں کی جاتی ہے۔لیکن اگر وہ درآمدات بھی متاثر ہوئیں،جس کا قوی امکان ہے ،تو حالات اور زندگی کب معمول پر آئے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ہندوستان جیسے ترقّی پذیر ملک میں،یہاں کی آبادی اور اس سے متعلّق بعض سنگین مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ابھی یہ اندازہ قائم کرنا تقریباً نا ممکن ہے کہ کاروبارِ زندگی کتنے عرصے میں واپس پٹری پر آئے گا۔
لیکن کورونا بیماری کے مکمّل تدارک کے بعد جو دو سنگین وبائیں دنیا پر نازل ہونے کو تیّار بیٹھی ہیں وہ ہیں بھکمری یعنی بھوک سے اموات اور موسمی بحران۔افریقہ کے چند ممالک میں جن میں کینیا اور نائیجیریا جیسے ممالک شامل ہیں بھکمری کا آغاز ہو بھی چکا ہے اور صورتِ حال دن بہ دن بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اقوامِ متحدّہ کے عالمی غذائی پروگرام کے ڈائریکٹر نے اعلان کر دیا ہے کہ رواں سال کے آخر میں دنیا کے تیس کروڑ افراد بھکمری کے خطرناک امکان سے رو برو ہوں گے۔بھوک کے مسٔلے پر پچھلے ایک مضمون میں کچھ روشنی ڈال چکا ہوں،اس میں اب اتنا اضافہ کروں گا کہ ہندوستان میں بھی غذائی قلّت زیادہ دور نہیں ہے۔لاک ڈاؤن کے باعث زرعی سرگرمی بھی متاثر ہوئی لہذٰا فصل کٹنے میں دیر لگی۔کئی جگہ تیّار فصل اور کئی جگہ کٹنے کے بعد کھیتوں میں پڑی ہوئی فصل کو بے موسم کی بارش نے شدید نقصان پہنچایا۔دیگر جگہوں پر یہ بھی ہوا کہ فصل کٹنے کے بعد منڈی میں پہنچا دی گئی جہاں وہ کھلے آسمان کے نیچے رہی اور اسی بے موسم کی بارش سے تباہ ہو گئی۔بالکل یہی معاملہ سبزیوں کی فصل کا بھی رہا۔آم تو آندھیوں نے زیادہ تر ضائع ہی کر دیا۔ان سب نقصانات کے منفی نتائج اگلے تین ماہ میں سامنے آ جائیں گے۔
دوسری وبا یعنی موسمی بحران کا خدشہ اور خطرہ بھی کم سنگین نہیں ہے۔موسمی بحران (climate change ) سے مراد ہے دنیا کے موسموں اور مختلف خطّوں کی آب و ہوا میں غیر فطری تبدیلیاں،خصوصاً فضائی ماحول کی حدّت میں اضافہ جس کے لئے انسان خود ذمّہ دار ہے۔بہت سادہ الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسان کے ذریعے قدرتی ایندھن(پٹرول،ڈیزل،کوئلہ اور قدرتی گیس وغیرہ) کے بے محابا استعمال سے پیدا شدہ گیسیں اور زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائڈ فضا میں جمع ہو کر سورج کی روشنی میں موجود ضرر رساں شعاعوں کو جذب کر لیتی ہیں (اسے greenhouse effect کہتے ہیں ) جس سے زمینی فضا کا درجۂ حرارت جتنا ہونا چاہیئے اس سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ ہو چکا ہے۔زمینی سطح سے اوپر،چھ سے دس میل کی اونچائی سے لے کر تیس میل اونچائی تک ایک قدرتی گیس ’اوزون‘ کی پرت ہے جو زمین کو سورج کی اور بھی زیادہ ضرر رساں ماورائے بنفشٗی شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے۔لیکن انسان کے ذریعے پیدا کی گئی غیر فطری فضائی حدّت نے اس حفاظتی پرت میں جگہ جگہ سوراخ کر دیئے جس کے سبب فضائی درجۂ حرارت میں مزید اضافہ ہوا۔اُدھر کاروباری منافع کے لئے پیڑوں کی بے تحاشا کٹائی نے جنگل کے جنگل صاف کر دیئے،انسانی غفلت اور کہیں کہیں مجرمانہ ارادوں سے جنگلوں میں آگ لگنے کے واقعات ہوئے اور نتیجتاً مٹّی کے غیر فطری بہاؤ سے زرخیز زمین میں کمی آئی،ریگستان بڑھتے چلے گئے ،سیلابوں میں اضافہ ہوا جس سے زرخیز مٹّی اور بھی بہ گئی اور ریتیلی مٹّی رہ گئی جس سے پیدا شدہ گیس نے فضا میں پہنچ کر درجۂ حرارت مزید بر مزید کر دیا۔یہ خود انسان کے ذریعے چلایا گیا ایک شیطانی چرخہ ہے۔1956 میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں چند سائنسدانوں کی مرتّب کی ہوئی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں دنیا کو فضا میں جمع ہو رہی ضرر رساں گیسوں کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ بہت جلد زمینی درجۂ حرارت کئی گنا بڑھ کر موسموں میں دنیا کے لئے مہلک تبدیلیاں پیدا کر دے گا۔لیکن پچیس تیس سال تک حکومتوں میں اس مسٔلے پر ’’بات چیت‘‘ ہوتی رہی اور آخرش جب 1988 میں امریکہ زبردست خشک سالی سے دو چار ہوا،آمیزن کے جنگلات اور امریکہ کے یلو اسٹون قومی پارک میں شدید آگ لگی اور فضائی درجۂ حرارت کے عفریت نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تب کہیں جا کر جلدی جلدی اس خطرے سے نپٹنے کے لئے ایک بین الحکومتی پینل وجود میں لایا گیا۔لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ قدرتی ایندھن کے استعمال میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا چلا گیا اور اب معاملات جس خطرناک نہج تک پہنچ گئے ہیں اس کے ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پچھلے تیس سال کی بے مہار انسانی تگ و دو کا ثمرہ ہے۔اب حالت یہ ہے کہ کرّۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھ جانے سے قطب شمالی کے گلیشئیر پگھل رہے ہیں،سمندری جانوروں کی نسلیں کی نسلیں ہلاک ہو رہی ہیں،برّی و بحری طوفان اور زلزلے آ رہے ہیں،جنگلوں میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے پیدا شدہ گیسیں فضائی درجۂ حرارت میں مستقل اضافہ کر رہی ہیں۔بے شمار آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے کا اندیشہ ہے جن سے ہونے والی انسانی ہلاکتوں کا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن ان کے دھماکے اور آتش فشانی سے موسم اور ماحول پر جو تباہ کن اثرات مرتّب ہوں گے ان کے بارے میں تو سوچ کر ہی روح فنا ہو جاتی ہے۔موسمی تبدیلیوں کا غذائی صورتِ حال سے گہرا تعلّق ہے۔موسموں کی یہ غیر فطری تبدیلی ،کبھی غیر متوقع خشک سالی کبھی بے موسم بارش ،فصلوں کے لئے نہایت نقصان دہ ثابت ہو گی اور عالمی غذائی قلّت کی صورتِ حال شدید تر ہو جائے گی۔یہ سب ایک ایسے موسمی بحران کا پیش خیمہ ہے جس سے پیدا شدہ نئی اور عجیب قسم کی بیماریاں انسان پر حملہ آ ور ہوں گی اور لاعلاج ہونے کے سبب عالمی وباؤں میں تبدیل ہو جائیں گی۔یہ نوشتۂ دیوار ہے، اِلّا یہ کہ انسان پرخلوص اور متحدّہ کوشش سے اس شیطانی چرخے کو روکنے میں کامیاب ہو جائے۔
مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ موصوف مختلف سماجی اور ادبی کازوں سے وابستہ ہیں۔ آپ موقر ادارے عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔