بھارت نجی کاری کے راستے پر۔۔۔!

ایک ایک کرکے قومی اثاثے فروخت کیے جارہے ہیں

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

مودی حکومت نے ملک کے منافع بخش اداروں کو خانگی کمپنیوں کو بیچنے کی پوری تیاری کرلی ہے۔ ایر انڈیا، انڈین ریلوے، آئیل کمپنیاں، مواصلاتی ادارہ بی ایس این یل، بندر گاہیں یہاں تک کے اسپورٹس بھی سیل پر لگا دیے گئے ہیں۔ دراصل مرکزی حکومت کو ڈھائی لاکھ کروڑ روپیوں کی ضرورت ہے۔ جب اسے یہ رقم کہیں سے بھی نہیں مل پائی تو اسے ’’نیتی آیوگ‘‘ نے کہا کہ آٹھ وزارتوں کے اثاثوں کو بیچ کر یہ رقم حاصل کی جاسکتی ہے چنانچہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ ان کو بیچ کر درکار رقم حاصل کرے گی۔ کن اداروں کو بیچا جائے گا، کیا کیا بیچا جائے گا، کس کو بیچنے سے کتنی رقم ملے گی؟ اس کی ساری تفصیلات نیتی آیوگ کے پاس موجود ہیں۔
مرکزی حکومت محکمہ ریل سے۹۰ ہزار کروڑ روپے حاصل کرنے کا نشانہ رکھتی ہے۔ اس نشانے کو حاصل کرنے کے لیے حکومت ۵۰ اسٹیشن اور دیڑھ سو ریلوے ٹریکس بیچے گی۔ ۲۰۲۰ میں وزارت ریلوے نے اعلان کیا تھا کہ وہ صرف ۱۰۹ راستوں (آمدورفت) کو اور ۱۵۱ ریل گاڑیوں کو خانگی شعبے کے حوالے کرے گی جو بطور سرمایہ کاری ہوگا، اس سرمایہ کاری سے اسے تقریباً ۳۰ ہزار کروڑ روپے حاصل ہوں گے۔ اس وقت اسے بیچنے کی بات نہیں کی گئی تھی۔ جو ملازمین اس وقت برسرروزگار ہیں ان میں صرف ڈرائیوروں اور محافظوں کو ہی ملازمت پر برقرار رکھا جائے گا۔ دیگر تمام ملازمین خانگی کمپنی کے ہوں گے۔ انہیں یہ بھی آزادی ہوگی کہ وہ کسی بھی کمپنی سے ریل اور انجنوں کی خریداری کر سکتے ہیں۔ لیکن حکومت نے اس سال یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ریل راستوں اور اسٹیشنوں کو بھی فروخت کردے گی، جبکہ وزیر ریلوے نے ایوان میں یہ بات کہی تھی کہ وہ ریلوے کو کسی خانگی کمپنی کے حوالے نہیں کر رہے ہیں، اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے یہ محض افواہ ہے۔ لیکن نیتی آیوگ کی بات مانی جائے تو یہ برائے فروخت ہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قول اور فعل کا تضاد اس حکومت کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ محکمہ مواصلات کو بیچ کر حکومت ۴۰ ہزار کروڑ روپے کمانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مواصلات میں وہ نظامِ مواصلات یعنی ٹرانسمیشن سسٹم کو ہی فروخت کر رہی ہے۔ ایک طرف وہ اس محکمہ کو فروخت کر رہی ہے تو دوسری طرف اس کے ملازمین کے ذہنوں میں بہت ساری الجھنیں اور خدشات پائے جاتے ہیں۔ کے سیبسٹیان، سکریٹری سنچار نگم ایگزیکٹوز ایسوسی ایشن (ایس این ای اے) نے ای ٹی ٹیلی کام کو بتایا کہ ’’نیتی آیوگ کو بی ایس این ایل خانگیانے کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے جبکہ حکومت نے اس کے سودے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اگر ۴ جی خدمات کو شروع کیا جاتا ہے تو یہ محکمہ منافع بخش ثابت ہوگا اور اس کے اندر آگے بڑھنے کی بہت زیادہ صلاحیت پیدا ہو جائے گی پھر اس کے ساتھ ہی ۵ جی خدمات کی بھی جلد شروعات کی جاسکتی ہیں۔
حکومت محکمہ حمل و نقل کو بھی فروخت کرنا چاہتی ہے۔ وہ اسے ۳۰ ہزار کروڑ روپے میں بیچنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس نشانے کو حاصل کرنے کے لیے وہ ۷۰ ہزار کیلو میٹر ریلوے ٹریکس بیچے گی۔ وزیر ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز نتن گڈکری پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بالخصوص بسوں کو خانگیانے کے حق میں ہیں، انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو قبول کریں کہ وہ اس نظام کو موثر انداز میں نہیں چلا سکتے جیسا کہ تقریباً تمام ہی ریاستی حکومتوں کی مالی حالت بہت خراب ہے، نہ ان کے پاس پیسہ ہے اور نہ ہی بینکس انہیں قرض دینے پر راضی ہیں۔ ریاستی حکومتوں کے محکمہ ٹرانسپورٹ کی ساکھ اس قدر خراب ہے کہ ان کے پاس ڈیزل خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہے‘‘۔
محکمہ برقی کے اثاثوں کو بیچ کر حکومت ۲۷ ہزار کروڑ روپے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس محکمہ میں بیچا کیا جائے گا؟ نیتی آیوگ سے معلوم ہوا کہ اس محکمہ کے ٹرانسمیشن لائنوں کو فروخت کیا جائے گا۔ فروری میں ملک بھر میں محکمہ بجلی کے ملازمین نے کام کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت کا شعبے بجلی کو خانگی اداروں کے حوالے کرنا انتہائی غلط ہے اور ہم اس کے خانگیانے کے خلاف ہیں۔ آل انڈیا پاور انجینئرز فیڈریشن (اے آئی پی ای ایف) نے اس احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ اس نے کہا کہ محکمہ بجلی کے تقریباً ۱۵ لاکھ ملازمین نے اس احتجاج میں حصہ لیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھتے ہوئے فیڈریشن نے بجلی (ترمیمی) بل 2020 پر سخت اعتراضات کیے تھے۔ حکومت کا کہنا یہ ہے کہ ملک کے بیشتر ڈسکام نقصان اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ان ڈسکامس کو ریاستی حکومتیں چلاتی ہیں۔ مرکزی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہ ’’ایک سے زیادہ ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کے ہونے سے صارفین کو انتخاب کرنے میں آسانی ہو گی وہ اپنی پسند کی کمپنی کا انتخاب کر سکتے ہیں انہیں متبادل فراہم ہوگا، اس طرح ایک ہی کمپنی کی اجارہ داری کو ختم کیا جا سکتا ہے‘‘۔
وزارت یوتھ اور کھیل کے بھی کچھ اثاثوں کو فروخت کیا جائے گا۔ یہ سن کر ہی بڑا تعجب ہوا کہ آخر اس وزارت سے کیا بیچا جائے گا؟ جب کہ اس پر کسی بھی حکومت کی کوئی توجہ نہیں رہی۔ اس یتیم و یسیر ادارے پر نہ تو سابقہ حکومتوں نے کوئی توجہ دی اور نہ ہی موجودہ حکومت نے، لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس کے اثاثوں کو بھی بیچا جا رہا ہے۔ جب کرکٹ جسے ملک میں کھیلوں کا بادشاہ مانا جاتا ہے وہ اس وزارت کے تحت نہیں آتا تو پھر حکومت کیا بیچنے جا رہی ہے؟ دیگر کھیلوں کی کیا صورت حال ہے یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ نہ ہمیں اولمپک میں تمغے ملتے ہیں اور نہ کسی دوسرے بین الاقوامی کھیل میں کوئی کپ ملتا ہے۔ اتنی کثیر اور خاص کر نوجوانوں پر مشتمل آبادی والے ملک میں وزارت اسپورٹس کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے اگر حکومت اس وزارت پر تھوڑی بھی توجہ کرتی تو اس ملک کے نوجوانوں میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ ملک کو کھیل کے میدان میں سیکڑوں تمغے دلا سکتے ہیں۔ اتنے لاغر محکمہ کے اثاثے بیچ کر حکومت ۲۰ ہزار کروڑ روپے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس نشانے کو حاصل کرنے کے لیے وہ کھیل کے میدان بیچے گی۔ آنے والے وقتوں میں تقریباً سارے ہی میدان خانگی کمپنیوں کے ہوں گے۔
وزارت ہوا بازی نے تو پہلے ہی سے بہت ساری چیزیں خانگی اداروں کے حوالے کر رکھی ہیں اب اس کا ارادہ سو فیصد خانگیانے کا ہے۔ ایر انڈیا کے کچھ اثاثوں کی فروختگی کا چرچا بہت پہلے ہی سے چل رہا ہے لیکن اسے کوئی خریدنا نہیں چاہتا کوئی گاہک نہیں مل رہا ہے۔ اب حکومت کا ارادہ اس وقت یہ ہے کہ اس کو مکمل طور پر فروخت کر دیا جائے یعنی سو فیصد فروختگی۔ ہردیپ سنگھ پوری نے کہا کہ ’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ایر انڈیا کے سو فیصد اثاثوں کو فروخت کیا جائے گا۔ ہمارے پاس اس کو فروخت کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے۔ اگر یہ فروخت نہیں ہوتا ہے تو اسے بند کر دیا جائے گا۔ فیصلہ صرف فروخت یا بند ہونے کے درمیان ہے۔ ایر انڈیا پر اس وقت ۶۰ ہزار کروڑ روپے کا قرض ہے۔ ہمیں ہماری تختی صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی مزید ۱۳ ہوائی اڈوں کو بھی خانگی کمپنیوں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔
اس کے بعد باری آتی ہے وزارت پٹرولیم اور گیاس کی۔ حکومت اس کے اثاثوں کو بیچ کر ۱۷ ہزار کروڑ روپے حاصل کرے گی۔ یہ رقم وہ ملک میں بچھی ہوئی سیکڑوں کیلو میڑ طویل گیاس اور تیل کی پائپ لائنوں کو بیچ کر حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان پائپ لائنوں سے خام تیل اور گیاس کی ترسیل ہوتی ہے اگر حکومت یہ پائپ لائنیں ہی فروخت کردے گی تو مستقبل میں اس کی ضرورت پڑنے پر اس کا کرایہ ادا کرنا پڑے گا یعنی حکومت کو خود کی بنائی ہوئی چیزوں کا کرایہ ادا کرنا پڑے گا۔
اسی طرح حکومت وزارت جہاز رانی اور پانی کے اثاثوں کو فروخت کرکے ۴ ہزار کروڑ روپے کمانا چاہتی ہے۔ یہ رقم وہ بندرگاہوں پر تعمیر کردہ برتھوں کو فروخت کرکے حاصل کرے گی وہ جملہ ۳۰ برتھ بیچے گی۔
اثاثوں کی فروختگی کا اتنا عظیم الشان پروگرام رکھنے کے باوجود حکومت ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہتی ہے کہ ہم کوئی چیز بھی فروخت نہیں کر رہے ہیں، ہم کوئی چیز بھی خانگی اداروں کو نہیں دے رہے ہیں۔ جبکہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن نے کہا کہ ’’آتم نربھر بھارت کے تحت ہم عوامی شعبے کے کاروباری اداروں کو ایک حکمت عملی کے تحت بیچ رہے ہیں۔ مجھے ایوان کو یہ بات بتانے میں خوش ہو رہی ہے کہ حکومت نے نیتی آیوگ کی پالیسی کو منظوری دے دی ہے‘‘ وہ دن دور نہیں جب ملک کی ہر چیز خانگی اداروں کو فروخت کر دی جائے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ملک کے عوام کو بھی کسی کمپنی کو فروخت کر دے گی۔ کوئی بعید نہیں کہ کسی دن آپ کے گھر پر کوئی کمپنی کا فرد آکر یہ کہے گا کہ تین دن کے لیے حکومت نے آپ کو ہمیں بیچ دیا ہے تم کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔ نریندر مودی، جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تب عوامی اداروں میں خانگی سرمایہ کاری کرانے پر چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے اور مرکزی حکومت کو طعنہ دیتے تھے کہ یہ نکمی سرکار عوامی شعبوں کو بیچ رہی ہے۔ اب جب کہ یہ خود وزیر اعظم ہیں تو انہوں نے خود عوامی شعبوں کی فروختگی کا بازار لگا دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا نشہ اس قدر سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ جو چاہیں کریں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔
تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحبِ نظراں! نشہ قوت ہے خطرناک
***

ملک میں وزارت اسپورٹس کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے اگر حکومت اس وزارت پر تھوڑی بھی توجہ کرتی تو اس ملک کے نوجوانوں میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ ملک کو کھیل کے میدان میں سیکڑوں تمغے دلا سکتے ہیں۔ اتنے لاغر محکمہ کے اثاثے بیچ کر حکومت ۲۰ ہزار کروڑ روپے حاصل کرنا چاہتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021