مسلم محمود شمسی ،مسقط (عمان)
ہم جب سن شعور کو پہنچے تو جابجا بورڈس اور دیواروں پر یہ اشتہار دیکھا ’’بچے دو ہی اچھے‘‘۔ ’’چھوٹا پریوار سکھی پریوار‘‘۔ ذرا اور سمجھ آئی تو ہم نے دیکھا کہ ان اشتہاروں نے ذہن سازی کا زبردست کام انجام دیا۔ واقعی پریوار چھوٹے ہوتے چلے گئے اور بڑے پریوار قصۂ پارینہ بن گئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ’’بچے دو ہی اچھے والے‘‘ مہذب اور کثیر الاولاد لوگ غیر مہذب تصور کیے جانے لگے۔ جب میں خود صاحب اولاد ہوا تو دو بچوں کے بعد تیسرے بچے کی پیدائش کے بعد کسی کو تین بچے بتانے میں مجھے تردد ہونے لگا۔
جدھر دیکھو ایک ببلو اور ایک ببلی یا ایک گڈو اور گڑیا کا چلن تھا۔ بظاہر یہ خاندان واقعی بڑے پرسکون اور مطمئن نظر آتے تھے۔ زیادہ بچوں والے خاندان کچھ غیر دانش مند وناعاقبت اندیش سے محسوس ہونے لگے۔ شاید یہ بڑے بڑے اشتہاروں اور ان پر بنے بچہ اور بچی کے مسکراتے چہروں کے نقوش کا ذہن پر اثر تھا کہ زیادہ بچے والے افراد غیر اہم اور نا شائستہ سمجھے جانے لگے۔
میرے چوتھے بچے کی آمد پر میرا احساسِ جرم کچھ بڑھ سا گیا اور اب لوگوں کو بچوں کی تعداد بتاتے ہوئے آؤٹ ڈیٹیڈ ہونے کا تأثر پیدا ہوگیا۔ یہ اور بات ہے کہ میں بچے دو ہی اچھے کی پالیسی سے اتفاق نہیں رکھتا تھا۔
ادھیڑ عمر تک پہنچے پہنچتے مجھے اللہ نے ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ کے نتائج دیکھنے کا موقع بھی عطا فرما دیا۔ بچپن کی سیڑھیاں پھلانگ کر ببلی بیاہ کر خیر سے اپنے گھر کی ہوگئی اور ببلو اکیلے ہی اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا ساری ذمہ داریاں سنبھالتا نظر آیا۔ اب ذرا اس ببلو سے پوچھئے کہ اس کا کوئی بھائی کیوں نہیں جس سے اس کی دوستی ہوتی، جس کے ساتھ وہ اپنا غم غلط کر سکتا یا جس کی مدد سے وہ بھی دست وگریباں ہونے والے سے نپٹ سکتا۔ ببلی بھی ساری زندگی تنہائی کا شکار رہی، جس کی کوئی راز دار نہیں کہ اسے اپنا دکھ درد سنا کر اپنا غم ہلکا کرتی۔ بڑے ہوتے ہوئے اسے تنہائی کااحساس ایک ناگن کی طرح ڈسنے لگتا۔
امی ابو کی آنکھوں کا تارا اکلوتا بیٹا خدا نہ کرے اگر مالی بحران کا شکار ہو گیا یا نوکری نہ ملی یا زیاد تعلیم حاصل نہ کرسکا یا خدا نہ کرے کوئی معذوری یا بیماری ہو گئی یا زندگی کی بازی ہار گیا یا نافرمان ہی نکل گیا تو والدین کی ساری محنت تو رائیگاں ہوئی اور انہیں کوئی دوسرا آسرا میسر نہیں۔ اکلوتی بیٹی اپنی سسرال میں اپنے میاں اور بچے دیکھے یا اپنے والدین کو؟ ایک سے دوسری یا تیسری ہوتی تو کچھ بات ہوتی۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ اور ’’چھوٹا پریوار سکھی پریوار‘‘ والے مال دار لوگ محل نما گھر اور وسیع کاروبار کے مالک ہونے کے باوجود افرادی قوت کے بحران کا شکار ہو گئے۔ بڑے بڑے محل نما گھر گنے چنے افراد کی موجودگی میں اداس و تاریک نظر آئے۔
اب میری سمجھ میں آیا کہ عرب لوگ اپنے بڑے خاندانوں اور کثیر الاولادی پر کیوں فخر کرتے ہیں۔ کسی خاندان کی قدر اس کی افرادی قوت سے کیوں لگاتے ہیں۔ پچھلے زمانے میں کثیر العیال کنبہ والوں کے بچے یا تو کاروبار میں لگ جاتے، مختلف ذمہ داریاں سنبھالتے اور نئی اونچائیوں اور کامیابیوں کو چھوتے یا تعلیمی میدان کے مختلف شعبوں میں مہارت دکھاتے۔ ان سے نسل چلتی، عید بقرعید اور دوسری تقریبات میں مہمانوں کی تعداد کے معاملے میں خود کفیل ہوتے۔ عموماً گھر کے لوگوں سے ہی محفل جم جاتی، دوسروں کی منت سماجت نہ کرنی پڑتی، ہر مصیبت اور پریشانی کا مل جل کر مقابلہ کر لیتے۔
تجربات سے ثابت ہوا کہ اولاد اللہ کی بڑی نعمت ہے ۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتاہے:
’’اللہ زمین و آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے جو کچھ چاہتاہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے لڑکیاں ملا کر دیتا ہے، جسے چاہتا بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘(الشوریٰ: ۴۹-۵۰)
لہٰذا اولاد کی نعمت بھی دوسری نعمتوں کی طرح بسر و چشم قبول کرنی چاہیے۔ کوئی روک نہ لگائی جائے اور آنے والی روح کے لیے راستے بند نہ کیے جائیں۔ ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ اور ’’چھوٹا پریوار سکھی پریوار‘‘ والے حضرات عموماً یہ کہتے ہیں کہ اللہ ان کو کم از کم دو ہی کو پالنے کی طاقت دے۔ نعوذ باللہ،، اللہ نے دو سے زیادہ کی ذمہ داری لینے سے انکار تو نہیں کیا ہے؟ کیا اس کی وسعتوں کی بھی کوئی حد ہے۔ اللہ سبحان وتعالیٰ نے ہر ذی روح کو رزق فراہم کرنے کا ذمہ لیاہے۔ اس میں کسی تعداد کی کوئی شرط نہیں ہے۔ اللہ نے تو اس خوف کو دلوں سے نکالنے کے لیے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ در اصل ان کا قتل ایک بڑی خطاہے۔‘‘ (الاسراء: ۳۱)
اب سائنس نے بھی قتل کے وسیع مفہوم کو اجاگر کر دیا ہے اور عقل بھی یہ کہتی ہے کہ کسی روح کے اس دنیا میں آنے میں حائل ہونا بھی قتل کی ہی قسم ہے۔
میرا یقین ہے کہ دنیا میں آمد سے روک دی جانے والی روحیں والدین کا گریبان قیامت کے دن پکڑ کر پوچھیں گی کہ تم نے ہم کو دنیا میں کیوں نہیں آنے دیا؟ ہمارا کیا قصور تھا؟ زندگی کی نعمت ہم سے کیوں چھینی گئی؟ ہمارے آنے سے تمہارے رزق میں کیا کمی آجاتی؟ بالکل ایسے ہی جس طرح زندہ دفن کردی جانے والی بچی قیامت کے دن پوچھے گی کہ میرا کیا قصور تھا؟ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
’’اور جب زندہ در گور لڑکی کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا تھا۔‘‘(التکویر: ۸-۹)
عجیب بات ہے کہ وہی روح یعنی بچہ قصداً یا سہواً دنیا میں آجائے تو اس کی ایک چھینک بھی والدین کے دل پر جاکر لگتی ہے حتیٰ کہ حمل میں ضائع ہوجانے والے بچے یا پیدا ہوتے ہی مر جانے والے بچے کو یاد کرکے مائیں تا حیات غم کرتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آنے والی روح آکر رہتی ہے لیکن جو روح ہمارے اختیاری عمل کی وجہ سے نہ آئے اس کے لیے ہم کس قدر ذمہ دار ہیں اس کا اندازہ شاید ہم آج نہیں لگا سکتے۔
بوڑھے والدین کے لیے اولاد ان کی طاقت ہوتی ہے۔ اس طاقت کی اگر ایک سے زیادہ اکائیاں ہوں تو خود اکائیوں پر زیادہ بوجھ بھی نہیں پڑتا اور والدین کے لیے بھی ذمہ داریاں بانٹنا آسان ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ایک بیٹا اور ایک بیٹی سے محدود طاقت ہی محسوس کی جاسکتی ہے۔ خود بیٹا و بیٹی بھی تنہائی کا شکار رہتے ہیں۔ اپنی بستی یا محلہ کا سروے کیجیے تو ہم اس انتیجہ پر پہنچیں گے کہ ایک دو بچے والے خاندان پریشان حال ہیں اور زیادہ بچے والے خاندان خوش حال ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن میری امت کی تعداد دوسری نبیوں کی امتوں سے زیادہ ہو۔ لہٰذا امت کو فروغ دینے کا یہی موزوں ذریعہ ہے۔
اب ذرا غور کیجیے کہ آج ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور چین دنیا میں بہت اہمیت کے حامل ممالک مانے جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہاں صارفین کی بڑی تعداد ہے اور Man Power بہت ہے۔ دنیا کا کوئی تجارتی ملک ان بڑی منڈیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اسی وجہ سے بڑے بڑے طاقتور ممالک بھی ان ممالک سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے۔ اگر افرادی قوت کو ہی لیجیے تو دنیا کے ہر کونے میں ورکرز اپنی ماہرانہ خدمت انجام دے کر اپنے ممالک کو زرمبادلہ کی ایک کثیر مقدار فراہم کر رہے ہیں۔ آج یہی افرادی قوت اور صارفین کی تعداد ان ممالک کے استحکام کا سبب ہے۔ اسی کی وجہ سے سیاسی اور سماجی روابط برقرار ہیں اور دنیا کے نقشہ پر اہم ممالک میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
جن ممالک نے اللہ کے نظام میں دخل دیا ان میں چین سب سے آگے تھا، جہاں صرف ایک بچے کی اجازت تھی۔ ایک سے زیادہ بچے والوں کے لیے سخت قوانین تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بچہ ایک ہوا لیکن سب لڑکے، کیوں کہ والدین نے الٹراساؤنڈ کی مدد سے بچوں کی جنس کو معلوم کرلیا اور لڑکیوں کو قبل از پیدائش ضائع کرا دیا اور صرف لڑکے ہی لڑکے معرض وجود میں آئے۔ انجام یہ ہوا کہ سماج میں لڑکوں کی افراط اور لڑکیوں کا فقدان ہو گیا جس کی وجہ سے شادی کے مسائل پیدا ہو گئے، لہٰذا دوسرے ممالک سے لڑکیوں کو بیاہ کر لانا پڑا۔ خود ہندوستان میں بچے دو ہی اچھے کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے خاندانوں نے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پر خاندان کو مشتمل کرنا پسند کیا۔ لہٰذا Female Feticide کے کیسز انتہا کو پہنچ گئے۔ تقریباً سبھی یوروپین ممالک کی اپنی آبادی خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے۔ اندیشہ ہے کہ کچھ عرصے کے بعد دوسرے تارکین وطن کے مقابلے میں وہ خود اقلیت میں چلے جائیں گے۔ دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک جیسے کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ قحط الرجال کی وجہ سے تارکین وطن کو مختلف مراعات دے کر مدعو کر رہے ہیں تاکہ افرادی قوت بڑھے، اقتصادی بہتری آئے اور ٹیکس ادا کرنے والوں کے ذریعہ ملک کے زرمبادلہ میں اضافہ ہو۔ ان ممالک میں بچوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ بچوں کے اضافہ پر سرکاری الاؤنسیس بھی دیے جارہے ہیں۔ ان شواہد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افرادی قوت کس قدر نعمت ہے جن کو میسر ہو۔
وقت کی گردش نے یہ حقیقت بھی ہم پر عیاں کردی کہ دنیا کی بیشتر نامور شخصیات کی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو اپنے والدین کی تیسری یا چوتھی یا پانچویں اولاد ہیں۔ اس طرح ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نہ جانے کتنے مصنف، مفکر، سائنس دان، سیاست داں اور رہنما ہستیاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہ منواسکیں ہوں گی کیوں کہ ان کے والدین نے دنیا میں ان کو آنے ہی نہیں دیا۔اکثر یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ تیسرا یا چوتھا یا پانچواں بچہ سب سے زیادہ لائق اور سعادت مند ثابت ہوا۔ اس نے والدین کو کبھی اکیلا نہ چھوڑا اور ہمیشہ ان کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت کا حق ادا کیا جب کہ پہلا یعنی بڑا بچہ والدین کے زیادہ لاڈ و پیار اور ناز برداری کے سبب نالائق و غیرذمہ دار بن گیا۔آخر میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے اور اپنے بچوں کے ساتھ انصاف کیجیے۔ بھائی کو بہن بھائیوں اور بہن کو بھائی بہنوں سے محروم نہ کیجیے۔ خود بھی اولاد کی نعمت سے مالامال رہیے ان کی خوشیوں اور بہاروں سے اپنی زندگی کو مسرت آمیز کیجیے اور انہیں زندگی کے لطف سے محروم نہ کیجیے۔ دوسروں تک بھی یہ پیغام پہنچائیے۔ فطرت کا یہی تقاضا ہے۔ عقل بھی یہی کہتی ہے۔ تجربات بھی یہی گواہی دیتے ہیں۔ ہمارا یقین کامل ہے کہ اللہ سب سے بڑا کارساز ہے ، سب سے بڑا پلانر ہے، اس کی حکمت میں دخل انداز ہونا قطعاً نا مناسب ہے۔
***
وقت کی گردش نے یہ حقیقت بھی ہم پر عیاں کردی کہ دنیا کی بیشتر نامور شخصیات کی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو اپنے والدین کی تیسری یا چوتھی یا پانچویں اولاد ہیں۔ اس طرح ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نہ جانے کتنے مصنف، مفکر، سائنس دان، سیاست داں اور رہنما ہستیاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہ منواسکیں ہوں گی کیوں کہ ان کے والدین نے دنیا میں ان کو آنے ہی نہیں دیا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021