بلندشہر: مسلمانوں نے انتظامیہ کو ادا کیا 6 لاکھ روپے کا ہرجانہ
بلندشہر: بلند شہر کے کچھ مسلمانوں نے انتظامیہ کو سی اے اے، این آر سی مخالف مظاہروں کے دوران ہونے والے عوامی املاک کے نقصان کے لیے ہرجانہ کے طور پر تقریباً سوا چھ لاکھ روپے ادا کیے ہیں۔ مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرے کے دوران پھوٹ پڑنے والے تشدد میں سرکاری املاک کے نقصان کے عوض میں ضلع انتظامیہ کو 6 لاکھ 27 ہزار روپیے کا ڈیمانڈ ڈرافٹ سونپا ہے۔
خیال رہے کہ عوامی احتجاج کے دوران ہونے والے تشدد کے فوراً بعد وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے متنازع بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ تشدد میں ملوث افراد سے ’’بدلہ لیا جائے گا۔‘‘ انھوں نے کہا تھا کہ سرکاری و پرائیویٹ پراپرٹی کے نقصانات کی تلافی تشدد میں ملوث افراد کی املاک سے کی جائے گی اور حکومت کے اس اعلان کے بعد ریاست بھر میں ضلع انتظامیہ نے مختلف افراد کے نام سے نوٹس جاری کرنے بھی شروع کر دیے ہیں۔ ابھی تک تقریباً 530 سے زیادہ افراد کے خلاف نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں۔
نوٹس جاری ہونے کے بعد مقامی مسلم کونسلرز نے نوٹس نہ بھجوانے کی التجا کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ خود اس نقصان کا ازالہ کریں گے۔ جمعہ کے روز نماز کے بعد شہر کوتوالی پہنچنے والے کونسلر اکرم غازی نے اس نقصان کے ازالہ کے طور پر ڈی ایم رویندر کمار اور ایس ایس پی سنتوش کمار سنگھ کو 6 لاکھ 27 ہزار 507 روپے کا ڈیمانڈ ڈرافٹ سونپ دیا۔ اس موقع پر انہوں نے ضلع اور پولیس انتظامیہ کے افسران اور پولیس جوانوں کو گلاب کے پھول دے کر نظم ونسق کی جلد بحالی کے لیے مبارک باد دی۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 20 دسمبر کو جمعہ کی نماز کے بعد شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے نے اچانک تشدد کی شکل اختیار کرلی تھی اور شرپسند عناصر نے مظاہرے کے دوران توڑ پھوڑ کےساتھ آگزنی بھی کی تھی۔ بلند شہر ضلع انتظامیہ نے سرکاری املاک کے نقصانات کا تخمینہ 6 لاکھ 27 ہزار 500 روپئے لگایا تھا۔ تشدد میں پولیس کی ایک جیپ بھی جل گئی تھی۔ ضلع اور پولیس انتظامیہ نے مسلم دانشوروں کے اس قدم کو سراہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع میں امن وامان برقرار رہنا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے تو یوگی حکومت کی اس کارروائی کو فسطائیت کی یاد دلا دینے والا اقدام قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بغیر کسی مقدمہ کے کسی بھی فساد کے قصورواروں سے کوئی ہرجانہ وصول نہیں کیا جا سکتا۔
معروف صحافی گارگی راوت نے اس پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے ’’اس میں سے کسی پر بھی مقدمہ نہیں چلا، اس کے باوجود ریاستی حکومت نے جرمانہ عائد کیا اور مسلم طبقہ کو اسے ادا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ کیا یہ قانوناً صحیح ہے؟ کیا وہ بلندشہر کے سیانہ میں ہونے والے تشدد کا ہرجانہ بھی لوگوں سے وصول کریں گے، جہاں بجرنگ دل کی طرف سے پولیس کی گاڑیوں کو پھونک دیا گیا تھا؟‘‘