بغیر تیاری کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب تک 50 لوگوں کی موت، 60 افراد شدید زخمی

افروز عالم ساحل

اگرچہ کورونا وائرس سے احتیاط کے لیے کسی تیاری کے بغیر نافذ کیے گئے ملک گیر لاک ڈاؤن کی وجہ ہونے والی اموات کے بارے میں اب تک کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، لیکن ہم نے پچھلے 6 دنوں میں لاک ڈاؤن سے متعلق میڈیا میں رپورٹ کردہ اموات کی خبروں کو یکجا کیا ہے۔ اور نتائج چونکا دینے والے ہیں۔ ان اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سڑک حادثات، طبی ہنگامی صورت حال اور بھوک سے ملک کے کم از کم  50 شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اورکم از کم  60 افراد شدید طور پر  زخمی ہیں۔

ملحوظ رہے کہ یہ تمام وہ معاملات ہیں جو ذرائع ابلاغ کی نظر میں آئے میں ہیں اور خبروں میں آسکے ہیں۔ اموات کے یہ اعداد و شمار حکومت نے جاری نہیں کیے ۔ اس تناظر میں خدشہ ہے کہ یہ اعداد و شمار اصل اعداد و شمار کے مقابلے میں کم ہوں گے۔ یقیناً کئی معاملے ایسے ہوں گے جن کی اطلاع کسی بھی صحافی کو نہیں ہے یا پھر ابھی صحافیوں کی ان تک رسائی نہیں ہوسکی ہوگی۔

پچاس مزدوروں کا ایک گروہ گجرات کے احمد آباد سے قنوج کے ناگلہ پچو گاؤں کے لیے پیدل نکل پڑا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس مشکل گھڑی میں ان کے ساتھی ان کا ساتھ ضرور دیں گے۔ شیر سنگھ نامی ایک مزدور کی طبیعت کچھ خراب تھی۔ کئی کلومیٹر پیدل چلنے اور کھانے پینے کو کچھ نہ ملنے کی وجہ سے طبیعت مزید بگڑ گئی اور اس نے راستے ہی میں دم توڑ دیا۔ جب یہ گروہ اپنے ساتھی کی لاش لے کر گاؤں پہنچا تو گاؤں کے لوگوں کا رویہ پوری طرح بدل چکا تھا۔ سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل کرتے ہوئے انھوں نے یہ کہ کر ان تمام لوگوں کو گاؤں میں آنے سے روک دیا شیر سنگھ کی موت کورونا سے ہوئی ہے، چنانچہ کورونا جانچ کے بعد ہی تمام لوگوں کو گاؤں میں داخل ہونے دیا جائے گا۔

لاک ڈاؤن کے بعد جب 32 سالہ ونود تیواری نے محسوس کیا کہ دہلی میں اپنے کنبے کی پرورش کرنا مشکل ہے،  تو وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ اپنے گھر  سدھارتھ نگر کے لیے اپنے موپیڈ سے ہی نکل گئے۔ ساتھ میں ایک دوسری موپیڈ پران کا بھائی بھی تھا۔ ونود جب جی ٹی روڈ پر ضلع ہاتھرس کے سکندراراؤ کے قریب پہنچے، تبھی ان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی۔ موپیڈ روکتے ہی وہ زمین پر گر پڑے۔ بھائی نے ایمبولینس بلائی۔ لیکن جب گھنٹوں گزرنے کے بعد ایمبولینس نہ پہنچی تو ونود نے دم توڑ دیا۔ موت کی خبر سنتے ہی انتظامی افسر بھی وہاں پہنچ گئے۔ جب اس کے دو معصوم بچے، بشمول مرحوم کی اہلیہ نے میت کو گھر بھیجنے کی التجا کی تو انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ایس آئی شہباز خان نے اپنی جیب سے 15 ہزار روپے  ادا کرکے ایک پک اپ وین حاصل کی اور لاش کو رشتہ داروں کے ساتھ ان کے گاؤں بھیجا۔ واضح رہے کہ ونود دہلی کی نوین وہار کالونی میں اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ یہاں   وہ اپنے بسکٹ اور کرکرے جیسی چیزوں کے سیلز مین تھے اور اپنے کنبے  کی پرورش کررہے تھے۔ وہ پچھلے تین برسوں سے منہ کے کینسر میں مبتلا تھے اور ان کا علاج چل رہا تھا۔

29 مارچ کو بہار کے آرا ضلع کے جواہر ٹولہ میں رہنے والے راکیش کی بھوک کی وجہ سے موت ہوگئی۔ راکیش صرف 8 سال کا تھا۔ اس کے والد دہاڑی مزدور ہیں۔

اترپردیش کے رام پور میں مزدوروں سے بھرا  ہوا ایک ٹرک الٹ گیا۔ اس حادثے میں ایک مزدور کی موت ہوگئی، جبکہ 10 مزدور زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ اس ٹرک میں 55 مزدور سوار تھے اور وہ سب احمدآباد سے رام پور آرہے تھے۔

ہریانہ سے گھر آرہے رام پور کے ہی ایک مزدور چلتی بس سے گر گئے اور ان کی موت واقع ہوگئی۔ رام پور کے گاؤں لاڈو پور کے رہنے والے نتن اور ان کے بھائی پنکج ہریانہ میں جوتوں کی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ دونوں بھائی ہریانہ سے رام پور واپس جارہے تھے کیونکہ فیکٹری بند ہوگئی تھی۔

ہاتھرس گاؤں کے محمود پور ناگلہ ڈھک کے رہنے والے 20 سالہ گجیندر کمار نوئیڈا میں مزدوری کرتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے بعد پیدل ہی اپنے گھر کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں علی گڑھ کے قریب نامعلوم گاڑی نے انہیں کچل ڈالا جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی۔

کانپور کے قریب دہلی سے بہار کےچھپرا لوٹ رہے 24 سالہ مزدور بسنت گیری کی موت ہوگئی۔ اس کے بھائی اور دوست حادثے میں شدید زخمی ہوئے ہیں۔

چنڈولی کے علی نگر پولیس اسٹیشن کے گاؤں ریوسا کے قریب اتوار کی صبح پک اپ وین کے االٹ جانے سے ایک شخص کی موت واقع ہوگئی۔ اس حادثے میں چار افراد شدید زخمی ہیں۔

جھارکھنڈ کے دیوگھر کے قریب کولکاتہ سے اپنے گھر واپس آنے والے 30 مزدوروں سے بھری ایک پک اپ وین جمعہ کی رات کو الٹ گئی۔ اس حادثے میں ایک مزدور  کی موت ہوگئی، جبکہ ایک درجن کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں سے چار کی حالت تشویش ناک ہے۔

ہفتہ کے روز گجرات کے ضلع واپی میں راجستھان کی دو خاتون مزدوروں کی موت مالگاڑی کی زد میں آنے کی وجہ سے ہو گئی۔ وہ اپنے گھروں کو لوٹ رہی تھیں۔ یہ حادثہ صبح پانچ بجے کے قریب اس وقت پیش آیا جب خواتین واپی اور کرمبیلی اسٹیشنوں کے درمیان دمن گنگا ریلوے پل پر چل رہی تھیں۔ وہ اس گروپ کا حصہ تھیں جو راجستھان سے پیدل جا رہے تھے۔

راجستھان کے ہی کوشل گڑھ کے مگردا ٹوڈی پرکاش اپنے کنبے کے دیگر افراد اور گاؤں کے بہت سارے لوگوں کے ساتھ سورت سے پیدل نکلے ہوئے تھے۔ اس دوران پرکاش کو کسی نامعلوم موٹر سائیکل سوار نے ٹکر مار دی، جس سے ان کی موت ہوگئی۔

ہریانہ کے نوح سے گزرنے والی کنڈلی مانیسر پلول ایکسپریس وے پر پیدل جانے والے 8 افراد کو اتوار کی صبح ایک گاڑی نے کچل دیا۔ اس حادثے میں پانچ افراد کی موت ہوگئی، جبکہ چار شدید طور سے زخمی ہیں۔

اس سے قبل اسی ایکسپریس وے پر پچگاؤں چوک کے قریب ہفتے کے روز ایک کینٹنر نے دو آٹو کو ٹکر مارتے ہوئے 23 افراد کو کچل دیا تھا۔ حادثے میں خواتین اور بچوں سمیت پانچ افراد ہلاک ہوگئے، جبکہ 18 زخمی ہیں۔ بتادیں کہ پچگاؤں چوک کے قریب لاک ڈاؤن کی وجہ سے سیکڑوں لوگ اپنے گھروں کو جانے کے انتظام کے لیے منتظر تھے۔

جمعرات کے روز دیر رات اسی ایکسپریس وے پر بے قابو پک اپ کے پلٹنے کے باعث ایک  فرد کی موت ہوگئی، جب کہ 11 شدید طور پر زخمی ہیں۔اس پک اپ میں 12 مزدور بریلی جارہے تھے۔ یہ تمام مزدور دہلی میں کام کرتے ہیں، لاک ڈاؤن کے بعد ان کا کام بند کردیا گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ گھر جارہے تھے۔

فرید آباد ضلع میں اتوار کی دوپہر قومی شاہراہ پر اولڈ مٹو اسٹیشن کے قریب مزدوروں سے بھرا ہوا ٹیمپو الٹ جانے سے 5 افراد شدید زخمی ہوگئے۔  اطلاع کے مطابق، حادثے کا نشانہ بننے والے یہ تمام افراد دلی کے بدر پور بارڈر سے پلول جانے کے لیے ایک ٹیمپو میں بیٹھے تھے۔ یہ لوگ مدھیہ پردیش کے پننا شہر جارہے تھے۔ اس حادثے کے وقت ٹیمپو میں 22 افراد سوار تھے۔

لاک ڈاؤن کیے جانے کے بعد پیدل ہی ہریانہ کے سونی پت کی طرف جانے والے ایک مزدور کو گاؤں برؤتا کے قریب ایک موٹر سائیکل سوار نے ٹکر ماردی۔ اس حادثے میں ایک مزدور کی موت ہوگئی۔ اترپردیش کے سنبھل ضلع کا سنجیو روہتک میں دہاڑی مزدوری کرتے تھے۔

29 مارچ کو26 سالہ نتن کمار، ہریانہ کے سونی پت سے اترپردیش کے رام پور پیدل جا رہے تھے، انھیں مرادآباد کے قریب ایک بس نے ٹکر ماردی۔ نتن کی جائے حادثہ پر ہی موت ہوگئی۔

دہلی سے مورینہ پیدل جارہے رنویر نامی ایک مزدور کی موت بھوک اور پیاس سے ہوگئی۔ رنویر کا تعلق مدھیہ پردیش کے مورینا سے تھا اور وہ دہلی کے تغلق آباد میں ایک ریستوراں میں ڈلیوری بوائے کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ لاک ڈاؤن کے بعد وہ پیدل ہی مورینا جارہا تھا۔ جب وہ ہفتے کی صبح آگرہ پہنچا تو اچانک اس کے سینے میں درد ہوا اور اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ پولیس نے اسے فوری طور پر اسپتال پہنچایا لیکن ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔

27 مارچ کو حیدرآباد میں پیڈا گولکونڈہ کے قریب ایک سڑک حادثے میں  8 افراد کی موت ہوگئی۔ مرنے والوں میں دو بچے بھی شامل تھے۔ یہ لوگ کرناٹک واپس اپنے گھر جارہے تھے۔ کھلے ہوئے ٹرک میں سفر کر رہے تھے۔ ٹرک کو پیچھے سے آنے والی لاری نے ٹکر مار دی۔

28 مارچ کو مہاراشٹر سے گجرات اپنے گھروں کو واپس لوٹنے والے   کچھ مزدوروں کو تیز رفتاری  سے آنے والے ایک ٹیمپو نے کچل دیا۔ چار افراد نے دم توڑ دیا ، جبکہ تین شدید زخمی ہوئے۔ یہ سڑک حادثہ ممبئی احمد آباد شاہراہ پر پیرول گاؤں کے قریب پیش آیا۔

27 مارچ کو62 سالہ گنگارام کا گجرات کے شہر سورت میں انتقال ہوگیا۔ گنگارام ایک اسپتال سے اپنے گھر کی طرف جارہے تھے جو تقریباً 8 کلومیٹر دور تھا۔ انہیں گھر جانے کا کوئی ذریعہ نہیں ملا اور انہیں آخر میں پیدل ہی جانے کا فیصلہ کیا۔ پانڈیسارا میں اپنے گھر کے قریب سڑک پر بیہوش ہو کر گر گئے۔ انہیں دوبارہ اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دیا۔

26 مارچ کو کیرالا کے منجیشور میں  رہنے والے 60 سالہ عبدالحامد کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد کرناٹک کے منگلورو لے جایا جارہا تھا، لیکن کرناٹک پولیس نے انہیں سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے لیے پولیس سے بہت  درخواستیں کی گئیں، لیکن پولیس نے ان کی بات نہیں مانی۔ اس کے نتیجے میں حامد کی موت ہوگئی۔

29 مارچ کو بھی کچھ ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔ کیرالہ کے کاسراگوڑ سے کرناٹک کے منگلورو جا رہی ایک ایمبولینس کو پولس نے جانے سے روک دیا۔ اس ایمبولینس میں کیرالا کی ایک 70 سالہ بوڑھی عورت تھیں۔ ان کی طبیعت اچانک بگڑ جانے کی وجہ سے انہیں کرناٹک لایا گیا تھا۔ لیکن ایمبولینس کو راستہ نہ ملنے کی وجہ سے اس خاتون کی موت ہوگئی۔

25 مارچ کو کیرالہ میں کام کرنے والے 10 مزدور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے گھر تمل ناڈو واپس لوٹ رہے تھے۔ ان مزدوروں نے گھر جانے کے لیے تمل ناڈو کے تھینی سے جنگل کا راستہ منتخب کیا۔ اسی اثنا میں جنگل میں آگ لگ گئی۔ اس آگ میں جھلس جانے کی وجہ سے موقع پر  ہی 2 افراد ہلاک ہوگئے۔ بعد میں دو مزید افراد کی موت ہوگئی۔

25 مارچ کو 32 سالہ لال سوامی مغربی بنگال کے ہاوڑہ ضلع کے سنکریل قصبے میں واقع بنی پور میں اپنے گھر سے دودھ لینے کے لیے نکلے۔ لیکن پولیس ان پر جم کر لاٹھیاں برسا دیں اور انہیں شدید زخمی کردیا۔ اس پٹائی کی وجہ سے کچھ دیر بعد ان کی موت ہوگئی۔

وہیں آسام میں لاک ڈاؤن کو نافذ کرانے کے دوران اے آئی ایس ایف کے جوان بکترالدین کے موت کی بھی خبر ہے۔ جوان کی اہلیہ نے الزام لگایا ہے کہ انہیں ہجوم کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہے۔ وہیں پولیس کا کہنا ہے کہ موت ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے ہوئی ہے۔ بتا دیں کہ ہجوم نے لاک ڈاؤن آرڈر پر عمل کرنے کی تاکید کیے جانے کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کردیا تھا۔