بجٹ :ترجیحات و توقعات

بھارت کی شرح ترقی صفر سے 7.7 فیصد تک سکڑ سکتی ہے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

شیئر بازار اس وقت آسمان کی بلندی پر ہے۔ آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن کا مشورہ ہے کہ حکومت کو اسی وقت کمپنیوں میں اپنے حصص فروخت کرنا چاہیے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے یہ وقت غریب کنبوں اور ایم ایم آئی کی مدد کرنے کا ہے۔ اس سے مفلوج معیشت دوبارہ بہتری کی طرف آئے گی۔ پروفیسر راجن نےکہا ہے کہ آئندہ یکم فروری کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں حکومت کو بنیادی ڈھانچہ (Infrastructure) پر خرچ کو بڑھانا چاہیے۔ سرکاری اخراجات میں نصف سے زیادہ حصہ ریاستوں کا ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں ان کا حصہ دیا جانا چاہیے جہاں خرچ بڑھے گا وہیں خسارہ بڑھنے کا بھی خوف ہے۔ اس لیے بقول راجن سرکاری کمپنیوں کو حصص فروخت کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کے سامنے پیسے کی مشکلات ہیں تو شیئر ضرور فروخت کرنا چاہیے جس کے لیے یہ وقت مناسب ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر میں ہوتا تو شیئر بازار بلندی پر ہونے کی وجہ سے خوب فائدہ حاصل کرتا۔ اپریل تا جون کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی 23.9 فیصد منفی تھی۔ دوسری سہ ماہی جولائی تا ستمبر میں یہ منفی گروتھ 75 فیصد پر رہی۔ لہذا حکومت کو حالات بدلنے کے لیے اقدام کرنے ہوں گے۔ ورلڈ بینک کے اندازہ کے مطابق معیشت کو 900 ارب ڈالر (66 لاکھ کروڑ روپے) کا نقصان ہو چکا ہو گا جو ہماری جی ڈی پی کا ایک تہائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2022 کی دوسری سہ ماہی سے پہلے بھارت کی معیشت کی بڑی تباہی کی پیشن گوئی کردی گئی تھی۔ جب معیشت کی بات ہے تو امریکہ، جاپان، جرمنی وغیرہ کے 2020 کی جی ڈی پی کے اعداد شمار ابھی سامنے نہیں آئے ہیں مگر گزشتہ جمعرات کو جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی شرح ترقی 21-2020 میں صفر سے 7.7 فیصد سکڑ سکتی ہے۔ ایشیا کی تیسری اور دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کی جی ڈی پی گروتھ 2019 میں 4.2 فیصد تھی۔ وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے کہا کہ فی الوقت معیشت کے جیسے حالات ہیں اس میں خریداروں کے ہاتھوں خرچہ بڑھا کر طلب میں نئی جان ڈالنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس لیے حکومت کو لوگوں کی یکشمت کھپت اور بچت دونوں کو بڑھانا ہوگا۔ بغیر سوچے سمجھے سخت لاک ڈاون کی وجہ سے لمبے عرصے تک ہر طرح کی سرگرمیاں تھم سی گئیں۔ ایسے حالات میں بھی بہت سے کاروباریوں نے اپنے ملازمین کو تنخواہ دینا جاری رکھا تھا۔ لہذا اسی سے کارباریوں کو دی گئی تنخواہ پر 50 سے 200 فیصد تک اضافی کٹوتی (Additional deduction) منافع دینے پر حکومت غور کر رہی ہے۔ اس لیے آئندہ بجٹ میں طلب، روزگار اور جی ایس ٹی میں بہتری کے لیے لوگوں کے ہاتھ میں نقد فراہم کرنے کا حکومت انتظام کرسکتی ہے۔ اس سمت میں وزارت مالیات کئی مالی وسائل اور کچھ نئی تجاویز کو بجٹ میں سمونے پر غور کر رہی ہے تاکہ جس سے عام لوگ خرچ بڑھائیں۔ خرچ میں زیادتی سے ہی طلب بڑھے گی۔ اس سے مینو فیکچرنگ اور شعبہ خدمت کے کاروبار میں اضافہ ہوگا جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ وزیر مالیات کئی بار کہہ چکی ہیں کہ صحیح وقت آنے پر راحتی پیکیج بھی دیں گی تاکہ لوگ زیادہ خرچ کر سکیں۔ وزارت مالیات کے مطابق کورونا ویکسین لگنے کی شروعات کے بعد یہ واضح ہے کہ کچھ ماہ میں کاروبار میں تیزی ہوگی۔ ذرائع کے مطابق مالی سال 22-2021 کے لیے آئندہ پیش کیے جانے والے بجٹ میں پی ایف کٹوتی کی 12 فیصد کی حد کو 10 فیصد لانے سے تنخواہ داروں کے ہاتھ میں زیادہ نقدی آئے گی اور حکومت کو بھی پراویڈنٹ فنڈ پر کم سود دینا ہوگا۔ اس بجٹ سے عوام کو کافی توقعات ہیں۔ موجودہ بجٹ غیر معمولی حالات میں پیش کیا جانے والا بجٹ ہے کیونکہ چالیس سالوں میں پہلا موقع ہے جب بجٹ کو سستی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 22-2021 کے مالی سال میں جی ڈی پی کی حقیقی حالت میں 8 فیصد تک کی تنزلی کا اندیشہ ہے۔ بجٹ عام طور سے گزشتہ مالی سال کے بجٹ کو مد نظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے۔ مگر امسال بجٹ یکلخت نئے اقدامی اور اصلاحی طرز کا ہوگا۔ جو بھی ہو راحتی پیکیج دے کر روزگار میں اضافہ وزیر مالیات کی بڑی ترجیحات میں شامل ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ کل کا حجم 36 ٹریلین روپے تک ہو سکتا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 20فیصد زیادہ ہوجائے گا۔ اگر خسارہ کی مقدار کو دیکھیں جو کل ادھار کی مقدار بھی ہے تو وہ 12 ٹریلین روپے یعنی جی ڈی پی کا چھ فیصد تک ہو سکتا ہے۔ فی الوقت مرکزی حکومت کو بنیادی ڈھانچہ اور بینکنگ جیسے دو شعبوں میں جس میں زیادہ سرمایہ مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ آر بی آئی کی حالیہ رپورٹ میں بینکوں کی حالت نازک بتائی گئی ہے کیونکہ بینکوں میں غیر کارآمد اثاثے (این پی اے) کا تناسب بہت بڑھ سکتا ہے۔ اگر بینکوں نے این پی اے کی وصولی میں مستعدی نہیں دکھائی تو ستمبر 2021 میں اس کا تناسب 13.5 فیصد ہو جائے گا۔ ایک رپورٹ میں آر بی آئی نے بتایا ہے کہ این پی اے میں بڑھوتری کےاعداد و شمار مارچ 2022 تک اسی طرح رہے تو 1999 کے بعد سے یہ سب سے خراب اور بدتر حالت ہوگی۔ اس کے علاوہ صحت عامہ، اسٹارٹ اپ ، شفاف توانائی، تعلیم، ہنر مندی، دیہی روزگار گارنٹی وغیرہ کے شعبہ جات کی بجٹ سے بہت توقعات ہیں۔ محض صحت عامہ کے مد میں کووڈ19-کے دوران بری طرح پھنسی شعبہ صحت میں عوامی اخراجات کو کم از کم دُگنا کر کے تقریباً 7-6ٹریلین روپے کیا جانا چاہیے کیونکہ صرف ویکسینیشن میں کم از کم 50کروڑ لوگوں کے لیے دو سے 9ٹریلین روپے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
یہ بجٹ چونکہ غیر معمولی بجٹ ہے اس لیے ملک کے عوام کو اس سے بہت ساری توقعات ہیں۔ ملک کے 72 فیصد افراد چاہتے ہیں کہ آئندہ بجٹ میں حکومت کی سب سے خاص تھیم طلب کو بڑھانے پر مرکوز ہو۔ اس کے تھیم کی شکل میں انفراسٹرکچر پر خرچ دوسرے مقام پر ہے۔ ڈائرکٹ ٹیکس سے متعلق دریافت کئے جانے پر 40 فیصد لوگوں کو بجٹ میں راحت کی توقع ہے۔ یہ اطلاعات صنعتی تنظیم فکی اور دھروب کے ایک سروے کے بعد جاری کیے گئے ہیں۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ کچھ شعبوں میں طلب میں بہتری ہوئی ہے لیکن اس بہتری کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے وہیں کئی کئی سیکٹرس میں طلب کی سرگرمی کو جاری رکھنے کا مطلب حکومتی راحت کی ضرورت ہے۔ سروے میں لوگوں نے صاف طور سے کہا ہے کہ بجٹ کی ترجیحات طلب میں مضبوطی لانے کے لیے ہونی چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ٹیکس پالیسی کے بہتر استعمال کی ضرورت ہے۔ اس سروے میں 40 فیصد افراد ٹیکس میں کٹوتی چاہتے ہیں تو 32 فیصد افراد ٹیکس میں یقینیت کا ماحول چاہتے ہیں۔ 75 فیصد لوگوں کی خواہش ہے کہ روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرنے والوں کو ٹیکس میں (Incentive) یا مراعات دینے کا اعلان ہونا چاہیے۔ برآمدات کو بھی ٹیکس میں مراعات فراہم کیا جانا چاہیے۔ فکی کے صدر اُدے شنکر کے مطابق اس سروے کی رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت کو ترقی کی طرف لے جانے کی ترجیح سب سے اول ہونی چاہیے۔ صنعتی اور کاروباری دنیا ایسی بھی خواہش رکھتی ہے کہ طلب میں بہتری کے لیے راحتی پیکیج کا اعلان ہوگی اور بجٹ میں روزگار کے مواقع اور لوگوں کے ہاتھ میں خرچ کے لیے پیسہ دیے جانے پر توجہ مرکوز ہوگی۔
***

آر بی آئی کی حالیہ رپورٹ میں بینکوں کی حالت نازک بتائی گئی ہے کیونکہ بینکوں میں غیر کارآمد اثاثے (این پی اے) کا تناسب بہت بڑھ سکتا ہے ۔ اگر بینکوں نے این پی اے کی وصولی میں مستعدی نہیں دکھائی تو ستمبر 2021 میں اس کا تناسب 13.5 فیصد ہو جائے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021