بجنور: یوپی پولیس نے لیا یوٹرن، پولیس کے خلاف درج نہیں ہوئی کوئی ایف آئی آر

بجنور، دسمبر 30: پولیس نے ایک غیر واضح یو ٹرن لیتے ہوئے اب 20 دسمبر کو شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہرے کے پر تشدد ہوجانے کے بعد گولی لگنے سے مرنے والے سلیمان کے اہلِ خانہ کی طرف پولیس کے چھ جوانوں پر ایف آئی آر سے انکار کیا ہے۔

واضح رہے کہ سلیمان کے اہل خانہ نے چھ پولیس اہلکاروں کے خلاف شکایت درج کروائی تھی جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ شہریت ترمیم قانون مخالف مظاہرے کے دوران پولیس کی گولی سے سلیمان کو مارا گیا تھا۔

شکایت کے مطابق سلیمان کے اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ وہ 20 دسمبر کو نماز جمعہ سے گھر واپس آرہا تھا جب اس پر ایس ایچ او راجیش سولنکی، بجنور انچارج آشیش تومر کے علاوہ کچھ کانسٹیبلوں نے اسے پکڑ لیا۔

اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ پولیس اہلکار سلیمان کو گھسیٹ کر ایک گلی میں لے گئے جہاں ایک کانسٹیبل، جس کی شناخت موہت کے نام سے ہے، نے دوسرے پولیس افسران کے کہنے پر سلیمان کو گولی مار دی۔

اتوار کے روز بجنور میں پولیس نے بتایا تھا کہ سلیمان کے اہل خانہ کی شکایت کو 20 دسمبر کو ان کی موت کے بعد درج کی جانے والی اصل ایف آئی آر میں شامل کیا گیا تھا جس میں ان کی موت کا ذمہ دار نامعلوم افراد کو ٹھہرایا گیا تھا۔

اس کے بعد پولیس سپرنٹنڈنٹ (دیہی) وشوجیت سریواستو نے کہا تھا: "پولیس نے سلیمان کو قتل کرنے کے الزام میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر اور پانچ دیگر پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے اور تحقیقات جاری ہے۔”

تاہم ایس پی وشوجیت سریواستو اب اپنے بیان سے مکر گئے ہیں۔

وشوجیت نے کہا ’’قانونی اور تکنیکی مسئلے کی وجہ سے اس سلسلے میں علاحدہ ایف آئی آر درج نہیں کی جاسکتی۔ ابتدائی ایف آئی آر احتجاج کے دوران گولی سے زخمی ہونے والے ایک کانسٹیبل موہت کمار کی شکایت پر مبنی درج کی گئی تھی، جس میں سلیمان کے کردار کا ذکر تھا۔ لہذا علاحدہ ایف آئی آر کی ضرورت نہیں ہے۔ ایس آئی ٹی اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔‘‘

ایس پی کے بیان پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مقتول کے ماموں افضل احمد عثمانی نے کہا: "ہم نے ہفتے کے روز شکایت درج کروائی تھی۔ سلیمان کو چھ پولیس اہلکاروں نے ہلاک کیا تھا۔ پولیس حکام نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ہمیں ایک کاپی دی جائے گی۔ جب ہم نے ایف آئی آر کی کاپی کے لیے پولیس سے رجوع کیا تو وہ ہمیں نہیں دیا گیا۔”

دریں اثنا ارشاد حسین جس کے بیٹے انس کو اسی شام گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا، نے بھی انھیں پولیس اہلکاروں پر اپنے سات ماہ کے بچے کے لیے دودھ لینے نکلے ہوئے 23 سالہ انس کو مارنے کا الزام لگایا ہے۔

واضح رہے کہ اس تشدد کے ایک دن بعد جس میں 23 افراد ہلاک ہوئے تھے، اتر پردیش کے ڈائریکٹر جنرل پولیس نے دعوی کیا تھا کہ پولیس نے ایک بھی گولی نہیں چلائی۔ تاہم سلیمان کی موت کے بعد  بجنور میں پولیس نے قبول کیا تھا کہ وہ پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوا تھا۔