این پی آر کی ترمیم شدہ موجودہ شکل کے خلاف آندھرا پردیش اسمبلی نے قرارداد پاس کی
آندھرا پردیش، جون 18: آندھرا پردیش اسمبلی نے بدھ کے روز موجودہ شکل میں قومی آبادی کے اندراج (این پی آر) کی مشق کے خلاف ایک قرار داد منظور کی ہے، جس میں مرکز سے 2010 میں استعمال ہونے والے این پی آر فارمیٹ کو واپس لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
نائب وزیر اعلی (اقلیتی بہبود) امجد باشا نے یہ قرارداد پیش کی جسے اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں منظور کیا گیا۔
امجد باشا نے کہا ’’این پی آر اپنی موجودہ شکل میں آندھرا پردیش کے لوگوں کے ذہنوں میں خوف، خدشات اور عدم تحفظ کا باعث ہے۔ این پی آر 2020 میں والدین کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش اور مادری زبان وغیرہ سے متعلق خاص طور پر نئے کالموں کا اضافہ عوام میں الجھنیں اور عدم اعتماد پیدا کر رہا ہے۔ ان حالات میں حکومت آندھرا پردیش نے مرکزی حکومت سے این پی آر کی مشق کو 2010 کی شکل میں کرنے کی درخواست کی ہے۔‘‘
بدھ کو منظور کی جانے والی اسمبلی کی اس قرارداد کے مطابق آندھرا پردیش میں این پی آر کے عمل کو اس وقت تک ملتوی کرنا ہے، جب تک کہ مرکز پرانی شکل میں اسے واپس لانے پر راضی نہیں ہوتا ہے۔
اگرچہ ریاستی حکومت نے اس سے قبل اپریل اور ستمبر 2020 کے درمیان این پی آر مشق کرنے کی تیاری کرلی تھی، لیکن مارچ کے شروع میں وزیر اعلی جگن نے اعلان کیا تھا کہ وائی ایس آر سی پی حکومت نے مرکزی حکومت سے ’’2010 کے فارم کو واپس لانے کی درخواست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ انھوں نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ اسمبلی اجلاس میں اس ضمن میں ایک قرارداد پیش کی جائے گی۔
4 مارچ کو آندھرا پردیش کی کابینہ نے اس سلسلے میں ایک قرارداد منظور کی تھی۔
اس سے قبل ریاست میں عوامی مخالفت کے بعد وزیر اعلی جگن موہن ریڈی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ این آر سی پر کسی کی شہریت ثابت کرنے کے لیے آندھرا پردیش میں عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔
بدھ کے روز نائب وزیر اعلی نے کہا کہ ریاستی حکومت ’’این آر سی کے خلاف اپنے اصولی موقف کا اعادہ کرتی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ وائی ایس آر سی پی نے پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی قانون منظور کرنے کے لیے ووٹ دیا تھا۔ نائب وزیر اعلیٰ باشا نے بعد میں اعتراف کیا تھا کہ بل کی حمایت کرنا ایک غلطی تھی۔