این سی پی سی آر چیئرمین کو جمعیۃ علماء ہندکا سخت نوٹس
محمود مدنی نے کہا :دینی مدارس کو بدنام کرنے کے لئے گمراہ کن بیانات دینا بند کریں ورنہ سخت قانونی کارروائی کا انتباہ ،سات دن کے اندر تحریری طور پر اپنا بیان واپس لینے کا مشورہ
نئی دہلی،21مارچ :۔
گزشتہ کچھ برسوں سے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کے چیئرمین پریانک قانونگو ملک میں پھیلے مدارس اور دینی اداروں کے خلاف سر گرم ہیں ،بے بنیاد اور گمراہ کن بیانات دے کر سرخیوں میں رہتے ہیں ۔اسی سلسلے میں انہوں نے گزشتہ دنوں جمعیۃ اوپن اسکول کے خلاف بھی گمراہ کن بیان دیا ہے جس پر جمعیۃ علمائے ہند نے سخت قدم اٹھایا ہے ۔ اس سلسلے میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی طرف سے معروف وکیل ورندا گرور نے این سی پی سی آر چیئرمین کو خط لکھ کر سات دن کے اندر تحریری طورپر اپنا بیان واپس لینے کا مشورہ دیا ہے، ورنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کا انتباہ دیا ہے۔
واضح ہو کہ 13 مارچ کو قانونگو نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکول (این آئی او ایس) کو خط لکھ کر جمعیۃ علماء ہند کے تعلیمی ادارہ ’جمعیۃ اوپن اسکول‘ کی مہم کو ’منظم جرم‘ سے تعبیر کیا تھا، نیز اس پر بیرون ملک سے فنڈ حاصل کرنے، بالخصوص پاکستان سے تعلق ہونے کا بے بنیاد الزام عائد کیا تھا۔ این سی پی سی آر چیئرمین نے ایک ٹی وی چینل پر بھی اس الزام کا اعادہ کیا۔ مولانا محمود مدنی کا کہنا ہے کہ مذکوہ چیئرمین دینی مدارس کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف بیہودہ الزامات عائد کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں جو کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں۔
جمعیۃ علمائے ہند کی جانب سے جاری ایک پریس بیان میں کہا گیا ہے کہ پریانک قانونگو کو بھیجے گئے نوٹس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند جیسی تاریخی اور وطن پرور جماعت کو بدنام کرنے اور اس پر جھوٹے الزامات عائد کرنے کی کوشش کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ نیز اتنے بڑے عہدے پر بیٹھے شخص کے لیے یہ زیب بھی نہیں دیتا۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے اس نوٹس کے ذریعہ لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی تردید کی ہے۔ مختلف میڈیا چینلز کے ذریعے پھیلائے گئے ان الزامات نے جمعیۃ اوپن اسکول کی ساکھ کو متاثر کیا ہے، جبکہ یہ ادارہ پسماندہ کمیونٹیز خاص طور پر مسلم اقلیت کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لیے وقف ہے۔
ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ قانونگو جمعیۃ اوپن اسکول کو ’اوپن مدرسہ‘ کا جو نام دے رہے ہیں، وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ نیز دینی مدارس کے بارے میں ان کے تضحیک آمیز تبصرے، ان اداروں کی آئینی شناخت اور حقوق کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان کو سمجھنا چاہیے کہ ملک کی قانونی اسکیم میں ’دینی مدارس‘ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ لازمی تعلیم کا حق ایکٹ، 2009 کے 1(5) میں خاص طور پر کہا گیا ہے کہ یہ ایکٹ مدارس، ویدک پاٹھ شالوں اور بنیادی طور پر مذہبی تعلیم دینے والے دیگر اداروں پر لاگو نہیں ہوگا۔ اس طرح مدارس کے جواز کو ملک کے آئین کی دفعہ 29 اور 30 میں بھی قانونی طور پر تسلیم کیا گیا ہے، نیز ریاستی سطح کے مختلف قوانین ہیں جو مذہبی تعلیم کے ان اداروں کو تسلیم کرتے ہیں۔
مزید برآں قانونی طور پر مقرر کردہ چیئرمین ہونے کے ناطے ’بچوں کے خلاف منظم جرائم‘ جیسے جملے کا انتخاب بہت ہی افسوسناک اور جمعیۃ علماء ہند کو بدنام کرنے والا عمل ہے۔ مذہبی تعلیم دینا اقلیتوں کا بنیادی حق ہے، دیگر مذاہب کی طرف سے بھی مذہبی تعلیم دی جاتی ہے اور ادارے قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن انھوں نے صرف دینی مدارس کو نشانہ بنا کر عصبیت کا ثبوت دیا ہے۔
جہاں تک مالی معاملات کا تعلق ہے، تو چیئرمین نے فنڈز اکٹھا کرنے کو پاکستان سے وابستہ کیا ہے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جمعیۃ علماء ہند کسی بھی غیر ملکی تعاون کے لیے فارن کنٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ، 2010 پر سختی سے عمل پیرا ہے، اور اس مقصد کے لیے اس کے پاس وزارت داخلہ کے ذریعہ تجدید شدہ ایف سی آر اے سرٹیفکیٹ ہے۔ یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ کسی رقم کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایف سی آر اے قانون کا معاملہ این سی پی سی آر کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے، اس کے باوجود انھوں نے پاکستان کا نام لے کر اپنی حدوں کو پار کیا ہے، ان کی باتوں کی جڑیں جھوٹ، قیاس اور ناقابل یقین دعووں پر مبنی ہیں۔