ڈاکٹر سید محی الدین علوی، حیدرآباد
اسلام کے بارے میں بڑی بڑی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ کوئی سمجھتا ہے کہ یہ ایک پرائیویٹ معاملہ ہے جس کا تعلق صرف فرد کی زندگی سے ہے اور انسان کو نجات کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ مراسم عبودیت کے ذریعہ اپنے خدا کو راضی کرلے اور زندگی کے اجتماعی معاملات میں جس طریق زندگی کو چاہے اختیار کرلے وہ کامیاب ہی رہے گا۔ زندگی کے عمل میں اس تضاد سے انسان نہ دین کا رہا اور نہ دنیا کا۔ بہت سے لوگ ایسے پائے گئے جو صرف نام کے مسلمان رہے اور بعض صرف اس لیے مسلمان کہلائے کہ وہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے۔ بعض سیاست میں بھی دہریے بن گئے اور کمیونسٹ کہلائے۔ بعض فلمی دنیا میں گئے تو انہوں نے اپنا نام تک بدل دیا اور بعض کا نام تو مسلمان کا سا رہا لیکن وہ بتوں کی پوجا پاٹ میں مشرکوں سے پیچھے نہیں رہے اور بعض کو غیر مذہب کی عورتوں سے شادی کرنے میں بھی انہیں کوئی باک نہیں رہا۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ انہوں نے اسلام کے بارے میں صحیح معلومات حاصل نہیں کیں۔ اسلام کو دوسرے مذہب کی طرح زندگی کا ایک ضمیمہ سمجھا۔ ان سب باتوں کے بعد یہ جاننا ضروری ہو جاتا ہے کہ اسلام کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟
جاننا چاہئے کہ اسلام کسی مذہب کا نام نہیں ہے بلکہ ایک دین ہے جس کا ایک طریق حیات ہے اور زندگی کا ہر شعبہ اس میں شامل ہے۔ اسلام تا دمِ زیست ہے اور انسانِ اول حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تمام انبیا و مرسلین کا یہ دین واحد رہا ہے جس کی تعلیم ایک خدا کی پرستش اور اس کی عبادت ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے اس کا آغاز محمد ﷺ سے ہوا اور آپ اس کے بانی ہیں۔ اس مناسبت سے بعض مشاہرین نے مسلمانوں کا نام محمڈن رکھ دیا۔
حضور اکرمﷺ ختم المرسلین اور خاتم الانبیا ہیں اور قیامت تک اب کوئی نبی یا پیغمبر آنے والے نہیں ہیں۔ آپؐ کے بعد جو اپنے نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کے ذریعہ دین کو کامل کر دیا اور اپنی نعمتوں کا اتمام کر دیا اور آپؐ کو ساری دنیا کے لیے قیامت تک کے لیے رہبر کامل بنایا۔
قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے جو نبی کریمﷺ پر ساری دنیا کے لیے ہدایت و رحمت بناکر نازل کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے (آل عمران:۱۹) اس سے معلوم ہوا کہ دین اسلام ہی سچا ہے اور دینِ حق ہے اس کے علاوہ جتنے بھی ادیان ہیں وہ سب ادیانِ باطلہ ہیں اور گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اللہ کا بھیجا ہوا اور پسندیدہ دین صرف اسلام ہے جو انسان کو سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ اس پر چل کر آج تک کوئی ناکام نہیں ہوا بلکہ کامیاب اور بامراد ہوا۔ زندگی کا کوئی معاملہ ہو یا کوئی کام ہو اس میں اللہ کی طرف سے ہدایت موجود ہے۔ اسی طریقِ زندگی کو اختیار کرنے پر اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور یہی فلاح و آخرت کا واحد ذریعہ ہے۔
اللہ کے دین میں دین و دنیا کی تقسیم نہیں ہے۔ عیسائیوں کی طرح نہیں ہے کہ قیصر کا حصہ قیصر کو دو اور خدا کا حصہ خدا کو دو۔ اسلام میں سیاست شجر ممنوعہ نہیں ہے۔ اسلام معیشت میں سودی نظام کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ دیتا ہے۔ آج بھی اسلامی بینک کاری دنیا کے کئی حصوں میں نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔ سماجی نظام میں عورت کو مرد کے ساتھ برابر حقوق دیے گئے ہیں اسے گھر کی ملکہ بنا کر عزت و سرفرازی کا تاج پہنایا گیا ہے اور وراثت میں اس کے حقوق مقرر کیے گئے ہیں۔ شادی کے وقت مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے عورت کا مہر ادا کرے۔ عورت اگر چاہے تو گھر بیٹھے کاروبار کرسکتی ہے یا سافٹ ویئر کی نئی تکنیک کو اختیار کر کے کسبِ معاش کر سکتی ہے۔ آج کی فاشست حکومت مسلم پرسنل لا کی جگہ یکساں سول کوڈ لانے کے درپے ہے اور طلاق کا غیر اسلامی بار نافذ کر چکی ہے جو ظالمانہ ہی نہیں بلکہ جان لیوا بھی ہے۔ یہ کہاں کا تُک ہے کہ اگر مرد طلاق نہ بھی دے تو جھوٹے پولیس کیس کی بنیاد پر اسے جیل کی سزا اور جرمانہ عائد کر دیا جائے اور عورت کو تین سال تک بے سہارا اور بے آسرا چھوڑ دیا جائے اور مرد جب جیل سے باہر آئے تو معلوم ہوا کہ دونوں میں حکومت نے تفریق کرادی ہے۔
اسلام اجتماعیت کی دعوت دیتا ہے۔آج کسان احتجاج کو دو مہینے ہو گئے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ تین نئے زرعی قوانین واپس لیے جائیں۔ وہ اپنے مطالبے میں وہ ڈٹ گئے ہیں اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ لیکن ایک دن اسے منہ کی کھانی پڑے گی۔ اسلام مظلوموں کا سب سے زیادہ حامی ہے۔ وہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی تعلیم دیتا ہے یہاں تک کہ ظلم کا خاتمہ ہوجائے اور اللہ کی زمین سے فساد کو ملیا میٹ کر دیا جائے اور امن و امان کی فضا قائم کی جائے۔
اسلام میں اس بات کی قطعی اجازت نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے کوئی قانون اپنے لیے بنالے۔ اسلام کا عائلی قانون مقرر ہے اور کوئی اس سے یک سرِ مُو انحراف نہیں کرسکتا۔ پردہ اگر ہے تو رجعت پسندی کے لیے نہیں بلکہ عورت کی عزت اور اس کے ناموس کی حفاظت کے لیے ہے۔ فرانس میں ایک شاپنگ مال میں ایک بے پردہ پاکستانی عورت ایک کاونٹر پر مقرر تھی۔ جب اس کے سامنے ایک پردہ دار خاتون آئی تو اس نے اسے جھڑک دیا اور کہا کہ تم پاکستانی عورتیں رجعت پسند ہو اور اسلام کو بدنام کر رہی ہو۔ اتنا سننا تھا کہ اس پردہ دار خاتون نے اپنا چہرہ نکال کر بتایا کہ میں پاکستانی نہیں بلکہ فرانسیسی ہوں اور اسلام کے سایہ میں آکر اطمینان کا سانس لے رہی ہوں۔ یہ اسلام ہی کی برکت ہے کہ اس نے ہمیں حجاب عطا فرمایا جس سے ہماری عزت و آبرو محفوظ ہے۔ یہ سن کر اس پاکستانی عورت کے سر پر سے گھڑوں پانی بہہ گیا اور وہ بڑی شرمسار ہوئی۔ دوسری مثال پردے کے خلاف ایک یوروپی خاتون کی ہے جس کے سامنے سے ایک پردہ نشین خاتون گزری تو اس نے لعنت ملامت کی جبکہ اس کا شوہر اس کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ اس پردہ نشین خاتون نے بے پردہ عورت کی لعن طعن پر کوئی برا نہیں مانا اور آہستہ سے اس کے کان میں کہا کہ میں پردے میں رہنے کی وجہ سے اس فتنہ سے محفوظ ہوں کہ تمہارا شوہر اگر مجھے دیکھتا تو مجھ پر جان چھڑکتا اور تم سے دوری اختیار کرتا۔
اسلام دین حق ہی نہیں بلکہ دین رحمت بھی ہے۔ جو اس کے سایے میں آیا وہ چین و سکون پایا۔ اس دین حق کے ماننے والوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ برادران وطن کے سامنے اسلام کا پیغامِ رحمت کھلے عام پیش کریں۔ آخر میں عالم اسلام کے عظیم مفکر اور قائد انقلاب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے الفاظ میں دین حق کا پیغام پیش خدمت ہے جو سنہرے الفاظ میں لکھے جانے کے لائق ہے۔ ’’جس دین پر بھی آپ ایمان لائیں، آپ کو اپنی پوری شخصیت اس کے حوالے کر دینی ہوگی۔ اپنی کسی چیز کو بھی آپ اس کی پیروی سے مستثنیٰ نہیں کر سکتے۔ ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ آپ کے دل اور دماغ کا دین ہو۔ آپ کی آنکھ اور کان کا دین ہو آپ کے ہاتھ اور پاؤں کا دین ہو آپ کے پیٹ اور دھڑ کا دین ہو۔ آپ کے قلم اور زبان کا دین ہو۔ آپ کے اوقات اور آپ کی محنتوں کا دین ہو۔ آپ کی سعی اور عمل کا دین ہو۔ آپ کی محبت اور نفرت کا دین ہو۔ آپ کی دوستی اور دشمنی کا دین ہو۔ غرض آپ کی شخصیت کا کوئی جز اور کوئی پہلو بھی اس دین سے خارج نہ ہو۔ جس چیز کو بھی جتنا اور جس حیثیت سے آپ اس دین کے احاطے سے باہر اور اس کی پیروی سے مستثنیٰ رکھیں گے سمجھ لیجیے کہ اسی قدر آپ کے دعوائے ایمان میں جھوٹ شامل ہے اور پھر درستی پسند انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کو جھوٹ سے پاک رکھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔
***
اسلام مظلوموں کا سب سے زیادہ حامی ہے۔ وہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی تعلیم دیتا ہے یہاں تک کہ ظلم کا خاتمہ ہوجائے اور اللہ کی زمین سے فساد کو ملیا میٹ کر دیا جائے اور امن و امان کی فضا قائم کی جائے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021