دعوت نیوز ڈیسک
ملک کے معروف دانشوران اور اہل قلم کا خراج عقیدت
پروفیسر صاحبؒ کی رحلت، تحریک اسلامی اور امت مسلمہ ہند کا اس مشکل مرحلے میں بہت بڑا نقصان ہے۔ وہ ایک عظیم فکری رہنما، بلند پایہ دانشور، مستند فکری ترجمان اور بے مثل مربی تھے۔ ایس آئی او کے زمانے میں وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جن سے ہم فکری و علمی معاملات میں سب سے زیادہ رجوع کرتے تھے۔ گہرے علمی موضوعات پر بھی بغیر کسی نوٹ کے تقریر کرتے اور ایسی مربوط تقریر کرتے گویا مقالہ پڑھ رہے ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے عربی زبان اور اسلام کے مصادر کی نہایت سنجیدگی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ گفتگو میں وہ تفاسیر کے ایسے حوالے دیتے بلکہ اقتباسات نقل کر دیتے گویا ان کی نگاہوں کے سامنے کتابیں کھلی رکھی ہوں۔ مولانا مودودیؒ اور مولانا صدر الدین اصلاحیؒ کی متعدد تمام کتابوں کے مضامین بھی ہمیشہ انہیں مستحضر رہتے۔۔ انگریزی ادب کا جیسا وسیع کلکشن ان کے گھر پر تھا، وہ میں نے کسی اور مسلمان مفکر کے یہاں نہیں دیکھا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے ان کی شخصیت میں بڑی کشش اور جاذبیت تھی۔ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی صلاحیتوں کا تحریک کے لئے باصلاحیت افراد کی ایک پوری نسل تیار کرنے کی خاطر استعمال کیا۔ تحریک میں ڈاکٹر صاحب کا اصل رول اصولوں کی پاسداری اور حفاظت کا تھا۔ کئی دفعہ وہ اکیلے اپنے موقف پر چٹان کی طرح مضبوطی سے ٹھہر جاتے اور پوری مجلس ان کے مقابلے میں ایک زبان ہونے کے باوجود اس چٹان کے مقابلے میں آگے نہیں بڑھ پاتی۔ پالیسی و پروگرام کی تدوین، دستوری ترمیمات اور بعض دیگر اہم اور حساس مسائل پر شوریٰ میں جو کمیٹیاں بنتی رہیں، اس میں بھی ہم دونوں اکثر ساتھ رہے۔ خوب بحثیں ہوتیں، نوک جھونک ہوتی، کبھی بحثیں تلخ بھی ہوجاتیں۔ وہ ہمیشہ ایسے مربی، رہنما اور دوست بنے رہے جن سے ملاقات خوشی و مسرت کا بھی باعث ہوتی اور بہت سے علمی و عملی فائدوں کے حصول کا ذریعہ بھی۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک نمایاں ترین خصوصیت اجتماعیت سے ان کی وفاداری اور اجتماعی زندگی کا سلیقہ اور آداب کی رعایت تھی۔ غیر متعلق مجالس میں ناروا طریقے سے اختلافی موقف کے اظہار کو وہ سخت ناپسند کرتے تھے اور اس کی حوصلہ شکنی کرتے تھے۔ فیصلہ ہو جانے کے بعد اس کے نفاذمیںشریک رہتے۔ وہ کئی ایسی کمیٹیوں کے بھی رکن رہے جو اُن فیصلوں کے نفاذ یا ان کی تفصیلات کے تعین کے لئے بنائی گئیں جن سے ان کو شدید اختلاف رہا۔ فیصلہ ہو جانے کے بعد وہ اس کا احترام کرتے اور اس کے بعد ان کی کوشش یہ ہوتی کہ اس فیصلے کو اس کے نقصان دہ پہلووں سے کیسے بچایا جائے۔ اس کے لئے ایسے فیصلوں کے نفاذ کے کام میں بھی وہ بھر پور دلچسپی کے ساتھ شریک ہوتے۔ حد درجہ بلکہ درویشانہ سطح کی سادگی، تقویٰ بلکہ ایسی احتیاط کہ دیکھنے والوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آئے۔ خود اعتمادی، بے فکری اور استغنا، یہ کچھ اور ایسی صفات تھیں جو ڈاکٹر صاحب کو دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ غریب و مجبور لوگوں کے لئے فکر مندی، اس حد تک کہ لاک ڈاؤن کے دوران مزدروں کی حالت زار پر لوگوں نے ان کو کسی پیڑ کے نیچے یا مسجد اشاعت اسلام کی سیڑھیوں پر اکیلے بیٹھے زار و قطار آنسو بہاتے دیکھا۔ امت کے احوال پر ایسی تشویش کہ ان کے گھر والے، رات رات بھر ان کے جاگنے سے پریشان ہوگئے۔ کیا خبر تھی کہ اعلیٰ دماغ، حساس قلب اور شیریں و حاضر جواب شخصیت کا مالک یہ انمول انسان، اتنی جلد ہماری محفل سونی کر جائے گا۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے۔ آمین۔
(سید سعادت اللہ حسینی )
روحانیت کی لطافت اور عبودیت کی
کشش کا حسین امتزاج
ڈاکٹر محمد رفعت صاحب کا دینی مطالعہ وسیع تھا اور وہ تحریکی لٹریچر کی گہرائیوں سے واقف کار، فلسفہ ہائے وقت کی پیچیدگیوں کے شناسا اور باطل نظام ہائے حیات کی کمزوریوں کے رمز شناس تھے۔ کچھ لوگوں کی گفتگو خشک اور پیچ دار ہوا کرتی ہے مگر ڈاکٹر صاحب ان لوگوں میں سے نہیں تھے۔ ان کی باتیں دلچسپ ہوا کرتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ صرف منطق کی بیساکھیوں کے سہارے سے فکری میدان میں نہیں چلتے تھے بلکہ قرآن و سنت، تاریخ، شعر و ادب اور جدید سائنس اور فلسفہ کے پر لگا کر اڑا کرتے تھے۔تحریک کے افق پر ان کی پرواز بہت بلند تھی۔ دلائل کی کمزوریوں کو بہت جلد اور آسانی سے دیکھ لیتے تھے اور ان کا تعاقب کرتے تھے۔ تحریکی لٹریچر اور اس کے بیک گراؤنڈ کا وسیع زاویہ سے مطالعہ اور تحریک کے عظیم رجال کار کی صحبت سے بھی شورائیت کی گفتگو کی دھار تیز ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ صرف ایک خشک مفکر ہوتے تو ایسا نہ کرتے۔ بلکہ میں نے ان کی زندگی میں روحانیت کی لطافت اور عبودیت کی کشش بھی پائی۔ شوریٰ کا اجلاس جب کبھی دہلی سے باہر ہوتا تو معزز اراکین شوریٰ کا عام مزاج یہ پایا جاتا تھا کہ جمع بين الصلاتين کر کے نمازوں سے فارغ ہو جایا کرتے تھے مگر ڈاکٹر رفعت صاحب ان دو تین لوگوں میں سے تھے جو اس بات کے قائل تھے جو پُر فضا ماحول میں پُر سکون قیام کے دوران اللہ تعالی کی یاد کے وقفوں کو طویل ہونے نہ دیا جائے اس لئے وہ ہر نماز کو اپنے وقت پر ادا کرتے تھے۔ اجلاس میں ان کی رونق ان کے کپڑوں کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ فکری گفتگو سے وہ اپنا مقام پیدا کرتے تھے۔ ان گفتگوؤں کے بعد وہ جذبہ فتح اور شکست سے بھی بالکل بی نیاز تھے۔ ان کی رائے کے مطابق فیصلہ ہو جاتا تو اجلاس کے باہر اس پر مزید حاشیے چڑھا کر خوشی کے شادیانے نہیں بجاتے تھے اور ان کی رائے کے خلاف فیصلہ ہونے پر اجلاس کے باہر غیر رسمی نشستوں میں صف ماتم بچھا کر رنجش و شکایات کا رونا بھی نہیں روتے تھے۔ اب صرف ان کی باتیں یاد رہیں گی اور ان سے سیکھے گئے اسباق ہماری فکر و عمل کا حصہ بن جائیں گے۔
( ایس امین الحسن)
نئی نسل کے محبوب قائد اور مدبر شخصیت
ڈاکٹر محمد رفعت کی وفات تحریک اسلامی ہند کا ہی نہیں بلکہ عالمی اسلامی تحریک اور پوری امتِ مسلمہ کا بہت بڑا خسارہ ہے۔ وہ موجود دور کے عظیم فکری رہ نما، بلند پایہ دانش ور، آئیڈیالاگ اور تھنک ٹینک تھے۔ اسلام پسند نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد نے ان سے فکری تربیت پائی ہے اور ان کے اندر اسلام کے لیے جینے اور اسلام کے لیے مرنے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ وہ نئی نسل کے محبوب قائد اور رہ نما تھے۔ تحریک ان کی گھٹّی میں پڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے مولانا سید ابو الاعلی مودودی، مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی، مولانا صدر الدین اصلاحی اور دیگر اکابرِ تحریک کی تحریروں کا مطالعہ اتنے انہماک سے کیا تھا کہ ان کے تمام مضامین انہیں ہر وقت مستحضر رہتے تھے اور وہ بوقتِ ضرورت فوراً اس کا حوالہ دے دیتے تھے۔ جماعت میں ان کی حیثیت فکری رہ نما کی تھی۔ وہ تحریکی قدروں، روایات اور اصولوں کے محافظ تھے۔ تحریک اسلامی کو ان پر قائم و دائم رکھنے کے لیے برابر کوشاں رہتے تھے۔ جدید افکار و نظریات پر ان کی گہری نظر تھی اس کے ساتھ انہوں نے اسلامی علوم کا بھی سنجیدگی اور انہماک کے ساتھ مطالعہ کیا تھا۔ ادب کا بھی بہت پاکیزہ اور نفیس ذوق رکھتے تھے۔ انہیں اردو ادب کے اساطین شعراء کے ہزاروں اشعار یاد تھے جن کا وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں بر محل استعمال کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا اندازِ تقریر بڑا نرالا تھا، اس میں گھن گرج کے بجائے ٹھہراؤ اور سبک رفتاری پائی جاتی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک نمایاں خوبی ان کا تواضع تھا۔ اتنی عظیم علمی شخصیت کا حامل ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی زبان سے کبھی اپنے علم و فضل کا بے جا اظہار نہیں کیاٗ۔ انہیں اپنی عبقریت اور ذہانت و ذکاوت کا غرّہ نہیں تھا۔ وہ تعلّی اور خود ستائی سے کوسوں دور تھے۔ دوسروں کی حتیٰ کہ اپنے سے چھوٹوں بلکہ اپنے شاگردوں کی باتوں کو بھی بہت غور سے سنتے اور ان کی خوب حوصلہ افزائی کرتے۔ ڈاکٹر صاحب میں غلو کی حد تک سادگی پائی جاتی تھی، یہ تصنّع نہ تھا، بلکہ ان کا مزاج ہی سادگی پسند بن گیا تھا، وہ واقعتاً صوفی منش اور درویش صفت انسان تھے۔ انہیں اپنے کپڑوں کی بھی پروا نہیں رہتی تھی جو بسا اوقات استری سے عاری رہتے تھے، انہیں میں نے کبھی جوتے پہنے ہوئے نہیں دیکھا، حتیٰ کہ دسمبر اور جنوری کی سخت سردی میں بھی وہ پرانی سی چپل پہنے رہتے تھے۔ مارچ میں ان کے ساتھ ایک سمینار میں شرکت کرنے کے لیے فلائٹ کے ذریعے اورنگ آبادسفر کرنے کا موقع ملا تھا یہ سفر بھی انہوں نے چپل ہی میں کیا تھا۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ کوئی اجنبی انہیں دیکھ لیتا تو پروفیسر ماننا تو دور کی بات ہے، پڑھا لکھا بھی تسلیم کرنے میں اسے تامّل ہوتا۔ آخری دنوں میں ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے ایک ایسے پہلو سے آشنائی ہوئی جس سے میں پہلے بالکل بے خبر تھا اور وہ تھی بندگانِ خدا تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی تڑپ۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ کے ہر بندے تک اسلام کی بنیادی تعلیمات پہنچانا ہمارا کام ہے، وہ چاہے اسے قبول کرے یا رد کردے۔ جو لوگ اسلام کے شدید دشمن ہیں اور اس کے خلاف ان کے منصوبے بالکل عیاں ہیں ان سے ملاقات کرنے کی بھی وہ تلقین کرتے تھے۔
(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی )
فرشتہ صفت انسان
انسان بھی فرشتہ صفت ہوتا ہے یہ سنا اور پڑھا تو تھا لیکن وہ کیسا ہوتا ہے یہ رفعت صاحب میں دیکھا۔ دنیا کے سمندر میں رفعت صاحب کی شخصیت اس جہاز کی مانند تھی جو پانی پر تیرتا ضرور ہے لیکن پانی اس کے اندر داخل نہیں ہوتا۔ اللہ والوں کو جو بے شمار نعمتیں حاصل ہوجاتی ہیں ان سے سرفراز رفعت صاحب توکل علی اللہ کے سبب کبھی مایوس نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ پرعزم رہتے ہیں۔ میں نے کبھی ان کو حزن و ملال کا شکار نہیں دیکھا۔ ایسے لوگوں کا بندوں سے تعلق چونکہ خالق کے حوالے سے ہوتا ہے اس لیے وہ دوسروں سے توقع نہیں باندھتے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کسی سے شکایت بھی نہیں ہوتی۔ اس طرح وہ غیبت و بہتان کی برائی سے ازخود بچ جاتے ہیں۔ رفعت صاحب جوشیلے خطیب نہیں تھے اور نہ وہ لچھے دار الفاظ کی مدد لیتے تھے۔ ان کی پر مغز معلومات اور انداز بیان کی سادگی سامعین کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتی تھی۔ رفعت صاحب نے نہ کبھی مرعوب کرنے کی کوشش کی اور نہ کسی سے مرعوب ہوئے۔ انہوں نے مغرب کا بھرپور مگر معروضی مطالعہ کیا لیکن اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ ہم جیسے لوگ جب مشکل مسائل کو لے کر ان سے رجوع کرتے تو وہ اس کا نہایت سہل اور آسان حل بتا دیتے تھے۔ جماعت کے ابتدائی ایام میں مجھ سے نظم و ضبط کی بڑی خلاف ورزی سرزد ہوئی کیونکہ میں اس حکم کو غلط سمجھتا تھا۔ اس پر مجھے مرکز سے وجہ بتاؤ نوٹس مل گئی۔ میں نے پریشان ہو کر رفعت صاحب سے رجوع کیا تو وہ مسکرا کر بولے معذرت کرلو چنانچہ میں نے وہی کیا اور سارا معاملہ نمٹ گیا۔ حلقہ نے اس کی توثیق کرکے مرکز بھیجا اور مرکز نے قبول کرلیا۔ اس وقت میں اگر بحث وحجت کی راہ اختیار کرتا تو آج نہ جانے کہاں ہوتا۔ لیکن ان کے مخلصانہ مشورے نے آسانی پیدا کر دی۔ کم سخن دانشور عام طور پر مقبول نہیں ہوتے مگر رفعت صاحب سے جو ملتا وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔
(ڈاکٹر سلیم خان )
تحریک اسلامی کی فکر کا مستند ترجمان
مولانا صدر الدین اصلاحی مرحوم کے بعد ہندوستان میں فکر تحریک اسلامی کا مستند ترجمان ڈاکٹر رفعت مرحوم پر اللہ کی بے شمار رحمتیں ہوں۔
(ڈاکٹر حسن رضا)
سادگی کے پیکر
پروفیسر ڈاکٹر محمد رفعت کا شمار بلا مبالغہ ملت اسلامیہ ہند کے اہل فکر ونظر میں تھا۔ مرحوم انتہائی ذہین وفطین، حاضر جواب، مدلل طرز استدلال اور دستور جماعت پر گہری نظر کے حامل تھے۔ ادب کا بہت نفیس ذوق رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت میں گہرائی وگیرائی، وسعت وہمہ گیری تھی۔ ان کا اصل وصف ان کی سادگی تھی۔ انتہائی سادہ مزاج اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔
( مولانا حامد محمد خان )
بلند پایہ مفکر اور بیدار مغز قائد
ڈاکٹر محمد رفعت صاحب فکر اسلامی کے افق کا ایک اور روشن ستارہ تھے۔ ان کا شمار تحریک اسلامی کے بلند پایہ مفکرین مصنفین اور بیدار مغز قائدین میں ہوتا ہے۔ وہ عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ کتاب وسنت میں گہری بصیرت رکھتے تھے۔ فکر اسلامی میں نمایاں مقام اور مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔ تبحر علمی، بلند فکری، وسعت نظری، تواضع، حلم، سنجیدگی، کریمانہ اخلاق، قلندرانہ مزاج، متوازن سوچ، اصابت رائے، قوت فیصلہ ان کی نمایاں خوبیاں اور خصوصیات تھیں۔ڈاکٹر صاحب کی وفاتِ حسرت آیات سے تحریک اسلامی اور عالم اسلام کو بہت بڑا علمی خسارہ ہوا۔
( مولانا وحید الدین خان عمری مدنی)
خاکساری و انکساری کا اعلیٰ نمونہ
پہلی بار دہلی گیا تو ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ان کو دیکھا، کہیں سے بھی پروفیسر والے ہاؤ بھاؤ نہیں، بغیر استری کی ہوئی پینٹ اور بغیر میچنگ کی شرٹ، اور وہ بھی بغیر اِن کی ہوئی۔ حیرت ہوئی کہ ایسے پروفیسر بھی کہیں ہوتے ہیں۔ اب وہ وہاں چلے گئے جہاں کی تیاری میں ساری زندگی لگا دی۔ اگر آپ ہم سے پوچھیں کہ جماعت اسلامی کیا کر سکتی ہے تو میرا مختصر جواب یہ ہوگا کہ یہ پروفیسر رفعت صاحب جیسے انسان تیار کر سکتی ہے۔
(عمیر انس)
نرم دم گفتگو
ڈاکٹر محمد رفعت صاحب کی شخصیت تحریک اسلامی ہند کے فکری رہنما، ہزاروں وابستگان جماعت کے دلوں میں چاہت اور جستجو کی چنگاری بھڑکانے والے اور ملکی حالات پر نظر رکھتے ہوئے اقامت دین کے لئے راستہ نکالنے والی تھی۔ وہ رفقاء سے بڑی محبت کرتے۔ ملاقات میں بعض رفقاء کے نام لے کر خیریت دریافت کرتے، مسکرنا، نرم گفتگو کرنا ڈاکٹر صاحب کی خصوصیت تھی۔
(محمد یوسف کنی )
اصولی موقف کی حامل مثالی شخصیت
ڈاکٹر محمد رفعت صاحب اسم با مسمیٰ تھے۔ ان کی حیثیت تحریک اسلامی ہند کے لیے دماغ کے اس حصے کی سی تھی جو شناخت اور یادداشت کی حفاظت کرتا ہے اور جسم میں اعتدال و توازن برقرار رکھتا ہے۔ انہیں گاڑی کے بریک سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے جس پر نادان روکنے، ٹوکنے اور رفتار کم کردینے کا الزام ضرور لگاتے ہیں مگر جس کا فیل ہوجانا بدترین حادثات کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ ان کی سادگی و انکساری، ان کے برمحل اشعار، چست فقرے، ذہانت بھرا مزاح، اصولی موقف، مضبوط استدلال اور نشستوں میں الجھی ہوئی باتوں کو چٹکیوں میں سلجھا دینے کا فن بہت یاد آئے گا۔
(خان یاسر)
شخصی خاکہ
نام : ڈاکٹر محمد رِفعت (۲۶ جولائی ۱۹۵۶۔ ۸ جنوری ۲۰۲۱)
والد گرامی : بندو خان
آبائی وطن : کھرجہ، ڈسٹرکٹ بلند شہر، یو پی
تعلیم : انٹر، منٹو سرکل علی گڑھ
بی ایس سی (H): علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
ایم ایس سی فزکس: ۱۹۷۶ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
پی ایچ ڈی : ۱۹۸۵، آئی آئی ٹی کانپور،
علمی و ادبی سرگرمیاں
۱۔ مدیر ماہ نامہ زندگی نو (۲۰۰۹ تا ۲۰۱۹)
۲۔ پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ، ۱۹۸۵
دینی وتحریکی سرگرمیاں
۱۔ رکن جماعت ۱۹۷۷
۲۔ ایمرجنسی کے دوران جیل گئے
۳۔ رکن مجلس نمائندگان ۱۹۸۱
۴۔ رکن مرکزی مجلس شوریٰ، ۱۹۹۹ تا وفات
۵۔ امیر حلقہ دہلی و ہریانہ ، ۱۹۹۵ تا ۲۰۱۱
۶۔ سکریٹری شعبہ تربیت، ۲۰۱۱ تا ۲۰۱۵
۷۔ سکریٹری شعبہ تصنیفی اکیڈیمی، ۲۰۱۵ تا ۲۰۱۹
مطبوعہ کتب
۱۔ جماعت اسلامی کی پانچ بنیادی خصوصیات (۲۰۱۰)
۲۔ عصر حاضر کے پرفریب نعرے (۲۰۱۵)
۳۔ امت مسلمہ۔ مشن اور خود شناسی (۲۰۱۵)
۴۔ اسلامی تحریک۔ سفر اور سمت سفر (۲۰۱۵)
۵۔ فرد، معاشرہ اور ریاست ۔ اقامت دین کے تناظر میں (۲۰۱۵)
۶۔ امت مسلمہ کا نظام اجتماعی (۲۰۱۸)
۷۔ علم و تحقیق کا اسلامی تناظر (۲۰۱۸)
۸۔ دعوت اور جہاد ۔ عصر حاضر کے تناظر میں (۲۰۱۸)
۹۔ مسلمان اور ہندوستانی ریاست (۲۰۱۹)
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021