اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے شادی کرتی ہے اور اپنا مذہب تبدیل کرتی ہے، تو اس میں مداخلت نہیں کی جاسکتی: کلکتہ ہائی کورٹ
کلکتہ، دسمبر 22: لائیو لاء ڈاٹ اِن کی خبر کے مطابق کلکتہ ہائی کورٹ نے پیر کے روز یہ فیصلہ سنایا کہ اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے ایک رشتے میں داخل ہو جاتی ہے اور اپنا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو بین المذاہب شادیوں میں کوئی مداخلت نہیں کی جاسکتی۔
جسٹس سنجیب بنرجی اور اریجیت بنرجی کے بنچ نے یہ مشاہدہ ایک 19 سالہ ہندو خاتون کے والد کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران کیا، جس نے ایک مسلمان مرد سے شادی کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔
موروتیہ پولیس اسٹیشن میں 7 دسمبر کو درج کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق اس عورت نے، جس کی شناخت پلّبی سرکار کے نام سے ہوئی ہے، اسماء الشیخ نامی شخص سے شادی کی تھی۔ رپورٹ میں 16 ستمبر کو نادیہ کے تیہتہ میں جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے پلّبی بیان کی ایک کاپی بھی موجود تھی، جس میں اس نے کہا ہے کہ اس نے شیخ سے اپنی پسند سے شادی کی اور خوشی سے اس کے ساتھ رہ رہی ہے۔
لیکن لڑکی کے والد نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ اس کی بیٹی کو اس کی خواہش کے خلاف جھوٹا بیان دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ وہ اس دن مجسٹریٹ عدالت میں گئے جب پلّبی نے اپنے بیانات قلمبند کروائے، لیکن انھیں اپنی بیٹی سے ملنے یا اس سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
لڑکی کے والد نے ہائی کورٹ میں عرض کیا کہ اسے خدشہ ہے کہ شاید اس کی بیٹی کو گواہی دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق انھوں نے استدعا کی کہ جج کے سامنے پیش ہونے سے پہلے ان کی بیٹی کو ان سے ملنے دیا جائے۔
ان کے الزامات کے جواب میں کلکتہ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ پلّبی سرکار کو اس کے والد کی موجودگی میں تیہتہ میں تعینات سینئر ترین ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے سامنے پیش کیا جائے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ عورت پر جھوٹے بیانات دینے کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ اس اجلاس کے بعد جج نے ہائی کورٹ میں ’’واضح اور صاف رپورٹ‘‘ پیش کی، جس نے اس بات کی تصدیق کی کہ پلّبی سرکار کی شادی متفقہ ہے۔
لیکن لڑکی باپ پھر بھی ہیں مانا اور مزید اعتراضات کیے۔ اس کے نتیجے میں ہائی کورٹ نے اس خاتون اور عدالت کے اضافی سرکاری وکیل کے درمیان 23 دسمبر کو ملاقات کی ہدایت کی۔
اسی کے ساتھ ہی بنچ نے اپنے حکم میں کہا کہ ’’اگر کوئی بالغ اپنی پسند کے مطابق شادی کرلیتا ہے اور تبدیل ہوکر کے اپنے آبائی گھر واپس نہ جانے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس معاملے میں کوئی مداخلت نہیں ہوسکتی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ ہندوتوا تنظیموں کی سازشی اصطلاح ’’لو جہاد‘‘ کی بڑھتی ہوئی افواہوں کے درمیان اہمیت کا حامل ہے۔