اگر تنقید مر گئی تو معاشرہ بھی مر جائے گا: شرجیل امام
نئی دہلی، اگست 24: دہلی فسادات کی سازش سے متعلق کیس میں گرفتار شرجیل امام نے عدالت کو بتایا کہ ان کی تقریروں میں صرف شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ غداری کے مترادف نہیں ہے۔
امام کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل تنویر احمد میر نے دہلی فسادات کے مقدمہ میں یو اے پی اے دفعات کے تحت درج ایف آئی آر کے سلسلے میں اپنے مؤکل کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران اپنی اختتامی دلیل میں یہ بیان دیا۔
میر نے عدالت کو بتایا کہ معاشرے میں تنقیدی عناصر ضروری ہیں۔ اگر تنقید مر جائے گی تو معاشرہ بھی مر جائے گا۔
میر نے کیدار ناتھ سنگھ بمقابلہ ریاست بہار کیس کا حوالہ دیا جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عوامی اقدامات پر تنقید یا حکومتی کارروائی پر تبصرہ اور تنقید اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کے تحت آتا ہے۔
وکیل نے یہ بھی کہا کہ امام ایک طالب علم تھا اور کسی کالعدم تنظیم کا رکن نہیں تھا۔
عدالت نے میر سے پوچھا ’’اس (شرجیل امام) کی [تقریر میں موجودہ حکومت، (ریاستی پالیسی) کے ہدایت کے اصولوں اور گاندھی جی اور دیگر سیاسی جماعتوں پر سخت تنقید کا حوالہ ہے۔ کیا اس سے فرق پڑتا ہے؟‘‘
اس کے جواب میں میر نے جواب دیا کہ امام کی تقریر کو اس تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ آیا وہ ایک ایسے ہجوم سے خطاب کر رہے تھے جو تلواریں لہرا رہی تھی یا ان طلبا سے جو آئین سے متعلق معاملات پر بحث کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا ’’ہر کسی کو حق ہے کہ وہ آئین سازی کو تنقید یا حمایت کے تابع کرے۔ ہم حکم کے غلام نہیں بن سکتے۔‘‘
عدالت نے ان دلائل کو قبول کیا لیکن پوچھا کہ کیا وہاں فرق پڑا ہے جہاں تقریر کی گئی تھی۔
میر نے جواب دیا ’’جب تک بغاوت کا قانون موجود ہے، اسے لاگو کرنا ہوگا۔ لیکن یہ مناسب طریقے سے لاگو کیا جانا چاہیے۔ اگر ایک بند دروازے پیچھے دی گئی اسپیچ کو پبلک ڈومین میں عام کیا جائے گا، جس میں تشدد کا مطالبہ کیا جائے یا تشدد پر اکسایا جائے، تو وہ یقینی طور پر اکسانے کا باعث بنے گی۔‘‘
میر نے ضمانت کی درخواست پر فیصلہ دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو مقدمے کے اختتام میں تاخیر پر بھی غور کرنا چاہیے۔
میر نے پوچھا ’’اکثر اس میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور اگر ملزم کو ضمانت سے انکار کر دیا جاتا ہے لیکن بالآخر بری کر دیا جاتا ہے تو حراست میں گزاری گئی اس کی زندگی کے اتنے سال کون واپس کرے گا؟‘‘
اس کیس کی اگلی سماعت ستمبر کے پہلے ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔