آن لائن قرضوںکا فریب

سودی جال خود کشیوں کا سبب بن رہا ہے۔بلا سودی بینک کاری وقت کی ضرورت

زعیم الدین احمد حیدرآباد

 

زعیم الدین احمد حیدرآباد
سائبر آباد تلنگانہ کی پولیس نے ایک چینی شہری کے ذریعہ چلائے جانے والے ’فوری آن لائن قرض‘ اسکینڈل کا پردہ فاش کیا ہے۔ اس شخص کی شناخت زیکسیا ژانگ کی حیثیت سے ہوئی ہے۔ اس نے 11 مختلف ناموں سے فوری قرض لینے کے ایپس بنا رکھے تھے۔ ان ایپس کے ذریعہ لوگوں کو فوری طور پر درکار قرض مل جاتا تھا جو مختصر مدت کے لیے ہوتا اس قرض کے عوض ان سے بھاری مقدار میں سود وصول کیا جاتا جو مقرر کردہ شرح سود سے کئی گنا زیادہ ہوتا۔ اگر کوئی شخص ان قرضوں کو وقت پر ادا نہیں کر پاتا تو قرض دہندہ گان کو کال سنٹرز کے ذریعہ اپنے دوست احباب و اہل خانہ کے سامنے نہ صرف بد سلوکیوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ انہیں جعلی قانونی نوٹسوں سے بھی ہراساں کیا جاتا۔ قرض دہندگان کو ان قرض دینے والے ایپس کے ملازمین کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے سبب تین لوگوں کی خود کشی کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک 29 سالہ آئی ٹی ملازم، ایک 23 سالہ کسان اور ایک 28 سالہ خاتون شامل ہیں۔ ان اموات کے بعد پولیس حکام چوکس ہوگئے اور پولیس کی ایک ٹیم اس کی مکمل تحقیقات میں مصروف ہے۔ پولیس کو ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ گوگل پلے اسٹور پر کم از کم 60 ایسے اپیس ہیں جو لوگوں کو فوری قرض فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایپس جو چند مخصوص ناموں سے چلتے ہیں جنہیں آر بی آئی نے کسی نان بینکنگ فائنانشیل کمپنی (این بی ایف سی) کے طور پر رجسٹرڈ نہیں کیا ہے جو یقینی طور پر غیر قانونی ہیں۔ ان غیر قانونی ایپس کو گوگل ایپ اسٹور کس حیثیت میں اپنے پاس رکھتا ہے یہ معلوم نہیں ہے لیکن اس طرح کے اپیس رکھنا آئی ٹی شرائط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ تمام تر ایپس کی رازداری کی پالیسیاں ہوتی ہیں جو صارف کے ڈیٹا کو جمع کرتی ہیں۔ اس رازداری کی خلاف ورزی کی صورت میں گوگل کو چاہیے کہ وہ ان ایپس کو فوری طور پر اپنے اسٹور سے ہٹادے۔
پولیس اہلکار جو اس دھوکہ دہی کی تفتیش کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ انفارمیشن ٹکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز) رولز 2011 کے تحت اپنی ساری اطلاعات کی تفصیلات دینی ہوتی ہیں اور شکایتوں کی یکسوئی کرنے والے افسر کی ساری تفصیلات بھی فراہم کرنی ہوتی ہیں ان تمام ایپس نے جو تفصیلات فراہم کی ہیں وہ ساری جعلی ہیں۔حیدرآباد کے سائبر آباد علاقہ راجندر نگر سے تعلق رکھنے والے ایک سافٹ ویئر انجینئر نے فوری قرض دینے والے موبائل ایپ کمپنی کے نمائندوں کی دھمکیوں کے سبب مبینہ طور پر خود کشی کرلی۔ 29 سالہ پی سنیل جو پیشہ سے سافٹ ویئر انجینئر تھا، کووڈ۔19 میں اپنی ملازمت کھو بیٹھا جس کی وجہ سے وہ اپنے قرضوں کی واپسی کے لیے فکر مند تھا اور ساتھ اپنے گھریلو اخراجات کو پورا کرنے سے بھی قاصر تھا۔ اس نے فوری قرض دینے والے ایپس سے قرض لینا شروع کر دیا۔ اس نے تقریباً دو لاکھ روپے قرض لیے۔ جب وہ قرض کی رقم واپس کرنے میں ناکام ہوا تو ان کمپنیوں نے اسے ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ ان کمپنیوں نے اسے قانونی کارروائی کی دھمکی بھی دی اور ساتھ ہی اس کے والدین، دوست احباب اور رشتہ داروں کو فون کرنا شروع کر دیا کہ وہ ڈیفالٹر ہے۔ سائبر آباد پولیس کے ایک تفتیشی افسر نے بتایا کہ اس طرح سے فون کرنا انفارمیشن ٹکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز) رولز 2011 کے رول 3 (2) کی خلاف ورزی ہے۔
اجیت کے ایس جو کیرالا کے تاجر ہیں انہوں نے ایک چینی ایپ سے جو فوری قرض دینے والا ایپ ہے چھ دن کے لیے 35 ہزار روپے کا قرض لیا جس کے عوض اسے 47 ہزار روپے واپس کرنے پڑے۔ اس نے اپنے قرض کی ادائیگی میں ایک دن کی تاخیر کی تو ایپ کے نمائندوں نے اس کے رابطوں، فوٹو گیلری اور پیغامات تک رسائی حاصل کرلی اور اس کی فون فہرست میں موجود رابطوں کو اس کے خلاف شرم ناک پیغامات بھیجے۔ کیرالا کے اس تاجر کو سامان خریدنے کے لیے فوری طور پر کچھ نقد رقم کی ضرورت پڑی تو اس نے ’’سنیپ یٹ‘‘ نامی ایپ سے قرض لیا اس نے کہا کہ ’’جب میں نے قرض کی ادائیگی میں ایک دن کی تاخیر کی تو انہوں نے میری کچھ ذاتی تصاویر میرے سارے رابطوں میں شیئر کر دیں اور مجھ کو ’فراڈیا‘ قرار دے دیا۔ انہوں نے مجھے دن بھر دھمکی آمیز کالوں کے ذریعہ ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں کہ وہ پولیس کو مطلع کریں گے اور کلیکشن ایجنٹوں کو گھر بھیجیں گے۔ اس ہراسانی کی وجہ سے میں نے ایک گھنٹے کے اندر ہی رقم واپس کردی‘‘۔ 16 ہفتوں کے دوران اجیت نے 5 لاکھ 60 ہزار روپے کی مجموعی رقم بطور قرض لی تھی تو سود کے ساتھ اس کو 7 لاکھ 60 ہزار روپے کی رقم ادا کرنی پڑی۔ اگر وہ اتنی رقم کسی نان بینکاری مالیاتی کمپنی (جو سب سے زیادہ 18 فیصد سود لیتی ہے) سے لیتا جو ریزرو بینک آف انڈیا میں رجسٹرڈ ہو تو اسے 35 ہزار کے قرض لینے پر 41 ہزار تین سو روپے ہی ادا کرنے پڑتے۔
اجیت ان لاکھوں افراد میں سے ایک ہے جنہوں نے کووڈ۔19 کے دوران فوری قرض فراہم کرنے والے ایپس سے مختصر مدتی قرض لیے ہیں۔ ان ایپس میں بھی زیادہ تر ایپس ایسے ہیں جو آر بی آئی کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں پھر وہ کس بنیاد پر قرض دینے کے مجاز ہیں؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ پانچ سو سے زائد ایپس گوگل پلے اسٹور پر دستیاب ہیں جو غیر قانونی ہیں، ان میں زیادہ تر چینی ایپس ہیں۔ یہ ایپس کن عناصر کی مدد سے ملک میں پھل پھول رہے ہیں ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لانچنگ کے چند مہینوں میں 10 لاکھ سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کر لیے جاتے ہیں۔
ایپ کے نمائندے اس قدر قرض دہندوں کو ہراساں کرتے ہیں کہ وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پرشانت رنگا سوامی نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر تمل ناڈو کا ایک واقعہ بیان کیا ہے ’’ تمل ناڈو میں ایک لڑکی جس نے ’اُدھار لون‘ سے قرض لیا تھا وہ قرض ادا نہ کر سکی تو اس ایپ کے نمائندے نے اس سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسے برہنہ ہو کر ویڈیو کال کرے۔ وہ اس ہراسانی کو برداشت نہ کر سکی اور اس نے نومبر 2020 میں خود کشی کی کوشش کی‘‘۔
تمل ناڈو کے سیاست دانوں نے وزارت خزانہ کے سامنے آن لائن قرض دینے والے ایپس کا مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ قرض دہندگان کی حفاظت کرے ان ہراساں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ قرض دینے والے ایپس پر پابندی لگائی جائے۔ حیدرآباد اور گڑگاؤں میں پولیس عہدیداروں نے بڑے پیمانے پر انڈونیشیا اور چین سے تعلق رکھنے والی چار کمپنیوں پر چھاپے مار کر سات سو لیپ ٹاپ ضبط کیے۔ ان چار فوری قرض دینے والی جعل ساز کمپنیوں میں تقریباً ایک ہزار افراد کام کر رہے تھے۔ سائبر آباد پولیس کے ایک پریس نوٹ کہ مطابق ملازمین اور دو کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو ’کیش ماما‘، ’دھنا دھن لون‘ اور ’لون زون‘ نامی تین ایپس چلا رہے تھے جس کے تقریباً 1.5 لاکھ صارفین ہیں۔ سائبر آباد پولیس نے این بی ایف سی، ان کے منیجنگ ڈائریکٹرز اور گوگل کو نوٹسیں جاری کر دی ہیں۔
یہ فوری قرض دینے والے ایپس سوشل میڈیا اور خاص کر فیس بک پر اشتہارات دیتے ہیں اور لوگوں کو لالچ دلاتے ہیں کہ ان کے پاس سود کی شرح صفر اعشاریہ 98 فیصد ہے۔ لہذا لوگ قرض کے اس جال میں پھس جاتے ہیں کہ سود کی شرح بہت کم ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ یہ غیر قانونی فوری قرض دینے والے ایپس ایک دن میں صفر اعشاریہ 98 فیصد سود کا حساب لگاتے ہیں نہ کہ سال بھر کا فیصد۔ اگر اس کا سالانہ حساب لگایا جائے تو اس کی شرح سود 66 فیصد ہو جاتی ہے جو آر بی آئی کے مقرر کردہ شرح سود کی حد سے تقریباً دوگنا ہے۔ مزید یہ کہ سود کے علاوہ قرض لینے والوں سے پروسیسنگ فیس اور 18 فیصد جی ایس ٹی بھی وصول کا جاتا ہے۔
یہ ایپس بینکوں سے قرضوں کی منظوری میں تاخیر کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور لوگوں کو ان قرضوں کے جال میں پھانس لیتے ہیں۔ پھر قرض کی ادائیگی میں تاخیر پر ان کے نمائندے ان افراد کو ہراساں کرتے ہیں اور نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ وہ خود کشی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ وزارت خزانہ کو ان ایپس پر فوری پابندی عائد کرتے ہوئے آر بی آئی کو ہدایات جاری کرنی چاہیے کہ وہ ایسے ایپس کی نگرانی کریں تاکہ وہ لوگوں کا استحصال نہ کرسکیں۔ گوگل کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر مضبوطی سے عمل پیرا ہو اور ان ایپس کو اپنے اسٹور میں جگہ نہ دے۔
اہل علم و اہل ثروت اور سماج کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ اس جانب متوجہ ہوں۔ لوگوں میں ان ایپس کے متعلق شعور بیدار کریں اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ سود کس طرح سماج کو اندر سے کمزور اور کھوکھلا کر دیتا ہے۔ انہیں سود کی خباثتوں سے آگاہ کرتے ہوئے متبادل ذرائع بتائے جائیں اور حکومت پر بھی بلا سودی بینک کاری نظام قائم کرنے پر زور ڈالا جائے تاکہ لوگ بلا سودی بینک کاری کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
***

اہل علم و اہل ثروت اور سماج کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ اس جانب متوجہ ہوں۔ لوگوں میں ان ایپس کے متعلق شعور بیدار کریں اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ سود کس طرح سماج کو اندر سے کمزور اور کھوکھلا کر دیتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021