’آفتابِ عظمتِ ماضی کا فیض نور دیکھ‘

مولانا قاضی اطہر مبارکپوری ؒ: بر صغیر میں اسلام کی اولین کرنوں کے امین

مولانا عبد المتین منیری، بھٹکل، کرناٹک

 

چند روز قبل احمد حاطب صدیقی کی مولانا ابوالجلال ندوی پر کتاب نظر سے گزری۔ مولانا کو یہ شرف حاصل ہے کہ برصغیر میں تہذیب کی قدیم ترین نشانی سندھ میں واقع موہنجو ڈارو کی دو ہزار سے زیادہ مہریں پڑھیں تھیں اور یہاں کی قدیم زبان سمجھ سکے تھے۔ مولانا نے اپنی تحقیقات سے اس سرزمین کا تعلق دین ابراہیمی سے جوڑا تھا۔
جب سندھ کا ہندوستان میں اسلام کی ہزار سالہ تاریخ کا اور عربوں کے اس سرزمین پر آمد کا ذکر ہو اور مولانا قاضی اطہر مبارکپوری یاد نہ آئیں یہ کیونکر ممکن ہے؟ آپ نے عمر عزیز کی اسّی سے زیادہ بہاریں دیکھیں اور زندگی کا ایک وافر حصہ تحقیق وجستجو میں صرف کر کے ۱۴؍جولائی ۱۹۹۶ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
قاضی صاحب کا نام ہم نے پہلے پہل کب سنا تھا یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ جب حروف تہجی کی پہچان ہونے لگی اور نام پڑھنے کی کچھ صلاحیت ہونے لگی تو البلاغ بمبئی کے شماروں پر تایا محی الدین منیری صاحب کے نام کے ساتھ آپ کا بھی نام نظر آیا اور جب اس کی کچھ عبارتیں سمجھ میں آنے لگیں تو آپ کے شذرات کا میں مستقل قاری بن گیا اور یہ سلسلہ اسّی کی دھائی میں اس پرچے کے بند ہونے تک جاری رہا۔ تایا محی الدین منیری صاحب اس مجلہ کے مدیر مسئول تھے اور قاضی صاحب اس کے مدیر تحریر۔ یہ مجلہ انجمن خدام النبی بمبئی کا ترجمان تھا۔ تایا مرحوم کے پچاس کی دھائی میں انجمن خدام النبی سے منسلک ہونے کے بعد ہی اس کا آغاز ہوا تھا اور جب آپ نے بھٹکل میں مستقل سکونت اختیار کی اور یہاں کے اداروں کو اپنی جدوجہد اور دلچسپیوں کا مرکز بنایا تو کچھ عرصہ بعد اس نے بھی دم توڑ دیا۔ یہ پرچہ قاضی صاحب کے اہل بھٹکل کے ساتھ عمومی اور ہمارے خاندان کے ساتھ خصوصی لگاو کا باعث تھا۔
ویسے قاضی صاحب صرف البلاغ کی ادارت کی وجہ سے متعارف نہیں تھے بلکہ آپ شمالی ہند کے مردم خیز قصبہ مبارکپور کے ایک ایسے خاندان کے رکن رکین تھے جو عرصہ تک منصب قضاء پر فائز رہا تھا۔ اس خاندان میں قلمی مخطوطات اور نادر کتابوں کو جمع کرنے کا شوق مدت سے چلا آرہا تھا اور اس خاندان میں ناموروں کی کوئی کمی نہیں تھی۔
قاضی صاحب نے ۷؍مئی ۱۹۱۶ء محلہ حیدرآباد مبارکپور میں آنکھیں کھولیں تھیں۔ نانا مولانا احمد حسین رسولپوری نے عبد الحفیظ نام رکھا۔ آپ نے نعمت اللہ مبارکپوری ف ۱۳۶۲ھ سے فارسی، خط نسخ، خط نستعلیق سیکھی، مفتی محمد یاسین مبارکپوری ۱۴۰۴ھ سے بہت سی عربی کتابیں، مفتی محمد یاسین مبارکپوری ۱۴۰۴ھ سے کتب منطق وفلسفہ، بشیر احمد مبارکپوری ۱۴۰۴ھ سے منطق، محمد عمر مبارکپوری ۱۴۱۵ھ سے تفسیر جلالین اور دوسری کتابیں، محمد یحیی رسولپوری ۱۳۸۷ھ ست علم عرض، علم قوافی اور علم ہیئت پڑھا۔ کتابوں کی تعلیم مکمل کرکے آپ نے مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں داخلہ لیا ۔ آزادی سے قبل آپ کی فراغت مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد سے ہوئی تھی جہاں آپ کو اپنے دور کے عالم جلیل شیخ الحدیث حضرت مولانا فخرالدینؒ کی شفقتیں اور عنایتیں نصیب ہوئی تھیں۔ یہیں آپ نے دورہ حدیث مکمل کیا۔ مولانا فخر الدینؒ بعد میں شیخ الا سلام مولانا حسین احمد مدنی کی رحلت پر دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور جمعیت علمائے ہند کے صدر بنے۔ ۱۹۷۱ء میں آپ کے انتقال کے بعد دارالعلوم میں شیخ الحدیث کی مسند اپنا وہ مقام نہ پاسکی۔ مولانا بقیۃ السلف تھے، آپ کے بعد اساتذہ حدیث تو کئی ایک آئے لیکن ہر کسی کے نصیب میں جانشین شیخ الہند ہونا تھوڑے لکھا ہوتا ہے۔
قاضی صاحب فراغت کے بعد لاہور کی اردو صحافت سے منسلک ہو گئے اور اپنے وقت کے نامور اخبارات میں خدمات انجام دیں، وہیں مشہور مزدور شاعر احسان دانش سے اصلاح سخن بھی لی لیکن وطن کی محبت نے آپ کو لاہور کا ہو کر رہنے نہ دیا اور تقسیم کے بعد بمبئی میں سکونت اختیار کی۔ یہاں انجمن اسلام ہائی اسکول میں تدریس سے وابستہ ہوئے، بقیہ وقت قلم وکتاب کو تھام لیا اور جب تک اعضاء نے جواب نہ دے دیا اور انگلیاں چلتی رہیں، یہیں رہ کر علم ومعرفت کے موتی بکھیرتے رہے۔ تصنیف وتالیف کے سلسلے کو سینے سے لگائے رکھا۔ بمبئی میں عبدالحمید انصاری مرحوم نے آپ کی قدر وقیمت جانی اور اپنے روز نامہ انقلاب میں آپ کا دینی ومعلوماتی کالم جاری کیا جو بلا ناغہ آپ کی مبارکپور آخری منتقلی تک جاری رہا۔ خدا کا شکر ہے انقلاب کے ناشران نے رواداری کی بہترین مثال قائم کرتے ہوئے آپ کی یاگار کے طور پر اس کالم کی دوبارہ اشاعت کو جاری رکھ کر روزناموں میں لکھنے والے دوسرے اہل قلم کی طرح آپ کے نام کو مٹنے نہ دیا۔ یہ کالم اب بھی آپ کی طرف منسوب چلا آرہا ہے۔ یہاں آپ جمعیت علماء ہند کی مہاراشٹر شاخ کے صدر بھی رہے۔
آپ کا بنیادی موضوع تاریخ تھا، جس سے آپ نے آخری دم تک وفاداری نبھائی اور اس میدان میں اپنے ایسے تابندہ نقوش چھوڑے کہ مولانا عبدالماجد دریا بادی جیسی عظیم شخصیات نے آپ کو عصر حاضر میں مسلم ہند کا سب سے بڑا مؤرخ قرار دیا۔
یوں تو بر صغیر میں کبھی مورخین کی کوئی کمی نہیں رہی ہے، لیکن اپنی جگہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان میں سے بیشتر مورخین کی دلچسپی کا محور درخیبر کی راہ سے آنے والے فاتحین یا پھر عجم سے وارد ہونے والے مشائخ رہے، رہے چشمہ نبوت سے براہ راست فیضان اٹھانے والے، عجمی افکار سے غیر آلود، صاف وشفاف دین سے اہل وطن کو آشنا کرنے والے خیرالقرون کے داعی ومبلغ تو ان کے سنہرے کارناموں سے باخبر رکھنے والے مورخ خال خال ہی ملتے ہیں۔ قاضی صاحب نے یہ اہم فریضہ انجام دیا، اور ’’رجال السند و الہند‘‘ ’’العقد الثمین ‘‘ ’’ عرب وہند عہد رسالت میں‘‘’’ عرب وہند عہد خلافت میں‘‘‘‘ عرب وہند عہد امیہ میں‘‘’’ عرب وہند عہد عباسیہ میں‘‘ وغیرہ لکھ کر ایک اہم قرض قوم کے کاندھوں سے اتار دیا ۔
اول الذکر دو کتابیں آپ کی عرب دنیا میں شہرت کا سبب بنیں اور تیسری کتاب کو یہ شرف حاصل ہوا کہ کسی عرب نژاد اسکا کرنے پہلی مرتبہ کسی اردو کتاب کا عربی ترجمہ کر کے شائع کیا۔ بدنام زمانہ محمود احمد عباسی کی کتاب ’’خلافت معاویہ ویزید‘‘ کے رد میں لکھی آپ کی کتاب’’علیؒ وحسینؒ‘‘ کو بھی اپنے وقت میں شہرت ملی، ایڈٹ کردہ کتابوں میں ’’جواہرا لاصول‘‘ اہم ہے۔
قاضی صاحب کو اپنے دور میں یہ امتیاز حاصل رہا کہ آپ نے علم رجال کی کتابوں کی اہمیت اپنے مضامین وتبصروں میں اجاگر کی ورنہ اس وقت بیشتر مشاہیر علما مسلمانوں کے اس عظیم ورثہ سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے تھے۔
محمد علی روڈ پر قائم مکتبہ شرف الدین کتبی اپنے بانی کے دور میں عالم عرب وبیرونی ممالک میں چھپنے والی نئی کتابوں کا اہم مرکز رہا ہے۔ آپ نے اس مکتبہ سے خوب استفادہ کیا۔ صدیوں کے غبار سے چھٹ کر منظر عام پر آنے والی نئی مطبوعات سے آگا ہی کے لیے آپ کا کالم ہمیشہ وقف رہا، شاید یہ انقلاب کا امتیاز رہا کہ اپنے دور میں علما ودانشور علمی مواد کے لیے اس کے مطالعہ کا اہتمام کرتے رہے۔ مولانا حبیب الرحمان اعظمیؒ جیسی شخصیات جن کی ایڈٹ کروہ کتابیں عالم عرب میں بڑی قدر وعزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں ان جیسے محققین کی تحقیقات سے وطن کے اہل علم کو متعارف کرانے میں آپ کا وافر حصہ رہا ہے۔
قاضی صاحب کو مختلف قدیم کتابوں سے جواہر پار ے ڈھونڈھ نکالنے میں بڑی مہارت حاصل تھی، امام خطیب بغدادیؒ کی تاریخ بغداد کو تو آپ نے گھوٹ گھوٹ کر پیا تھا، آپ نے اس جیسی دوسری انسائیکلوپیڈیائی طرز کی کتابوں سے جس طرح استفادہ کیا اور ان کے مطالب کو عام قاری کے لیے مفید بنایا۔ روز نامہ اردو صحافت میں اس کی مثالیں شاذ ونادر ہی ملتی ہیں۔
ہمیں قاضی صاحب کو پہلی مرتبہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے دوسرے اجلاس عام ۱۹۶۷ء کے موقعہ پر دیکھنے کا موقعہ ملا، جامعہ آباد کے سنگ بنیادکی تقریب میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اور مولانا محمد الحسنیؒ کے جلو میں آپ بھی تشریف فرما تھے۔ گورنمنٹ پرائمری اسکول کے گراؤنڈ میں جو عظیم الشان جلسہ ہوا تھا اس کے دوسرے روز آپ کی بھی تقریر رکھی گئی تھی، آپ کے ہاتھوں انعام پانے والوں میں ایک خوش نصیب میں بھی تھا، مولانا منظور نعمانی کی کتاب ’’اسلام کیا ہے؟ ‘‘ میرے حصہ میں آئی تھی۔ جامع مسجد میں بھی آپ کی تقریر ہوئی تھی لیکن قاضی صاحب تو قلم کے دھنی تھے، جلسے جلوسوں سے انہیں کوئی نسبت نہیں تھی، رہن سہن میں گاوں کی سادگی جھلکتی تھی، زندگی تصنع وتکلف سے پاک تھی، ان میں مشیخیت کے عادات واطوار بھی نہیں تھے، ان کی بھٹکل آمد اور تقاریر یادداشت سے جلد غائب ہو گئیں، البتہ آپ کا سفرنامہ بھٹکل ایک دستاویز بن کا منظر عام پر آیا۔
قاضی صاحب سے براہ راست استفادہ کا موقع ہمیں اس اجلاس کے سات سال بعد ۱۹۷۵؁ء میں نصیب ہوا۔ جب جمالیہ سے فراغت کے بعد چند ماہ ہمارا بمبئی میں قیام رہا، اس وقت آپ کامبیکر اسٹریٹ میں جامع مسجد سے قریب ایک سہ منزلہ عمارت کی پہلی منزل پر ایک کمرہ میں رہتے تھے، باہر سے اس پر مرکز علمی کا بورڈ آویزاں تھا۔ دیکھنے میں تو یہ دیہاتی رنگ کا ایک سیدھا سادہ کمرہ تھا جس کے ایک طرف کتابوں کی دو الماریاں سجی ہوئی تھیں، دوسری طرف ایک کھٹیا اور پاندان، نیچے چٹائی اور اس پر ایک چھوٹی سی دری لیکن بمبئی جیسے مادہ پرست شہر میں یہ کمرہ واقعی مرکز علمی کہلانے کا مستحق تھا، یہاں پر دور دور سے اہل علم آتے، بے تکلف اور پرلطف مجلسیں ہوتیں، آپسی تبادلہ خیال ہوتا، نئی کتابوں کا علم ہوتا، تبصرے ہوتے، ان مجالس نے آئندہ دنوں میں بر صغیر کے علماء ودانشوروں کی نفسیات کو سمجھنے میں میری بڑی رہنمائی کی۔ اس میں قاضی صاحب سے چھیڑ چھاڑ کا بھی بڑا دخل تھا۔ چونکہ قاضی صاحب کا دل ایک آئینہ تھا جس پر کوئی غبار نہیں تھا، اس میں کوئی چیز چھپ کر نہیں رہ سکتی تھی، مزاجاً بھی آپ فقیر منش واقع ہوئے تھے۔ انہیں کسی سے لینا دینا نہیں تھا، قاضی صاحب کی ابتدائی زندگی بڑی تنگ دستی میں گزری تھی، کتابیں خریدنے کی ان میں سکت نہیں تھی لہذا جلد بندی کا کام سیکھا تھا، مبارکپور ایک گاؤں تھا وہاں سے پیدل اعظم گڑھ شہر جاکر جلد بندی کی چیزیں لاتے ان سے کچھ رقم بچتی تو یہ کتابوں کی خریداری کے کام آتی لیکن ممبئی میں اسکول اور انقلاب کے کالم سے ان کی گزر بسر ہو جاتی تھی۔
قاضی صاحب سے مل کر احساس ہوا کہ اردو داں حلقہ کس قدر کٹھور دل واقع ہوا ہے، لہو جلا کر لکھی جانے والوں کی یہ کیسی ناقدری کرتا ہے۔ اور مصنف کو اپنی محنت کا مادی معاوضہ تک نہیں دیتا، قاضی صاحب کو چھیڑنے میں ہمیں بڑا مزہ آتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ سے کہا کہ آپ کے پاس تو خوب مال وروپیہ جمع ہوگیا ہو گا۔ ہزارہا کی تعداد میں چھپنے والی کتابوں کی اچھی خاصی رائلٹی آتی ہوگی، کہنے لگے اس کے لیے مصنف کا کسی ایسی جماعت کا سربراہ بننا ضروری ہے جس کے پیرو کار اس کی کتابوں کو پھیلائیں، ہم تو ٹھیرے دیوانے، چار پانچ سال کی محنت سے ایک کتاب لکھ دیتا ہوں، اسے۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب چھاپ کر اسکے سو نسخے مجھے بھیجدیتے ہیں، جسے تم جیسے مفت خور احباب ہدیے میں اڑا لے جاتے ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔ ساری محنت کا یہی صلہ ملتا ہے۔
قاضی صاحب کو جاہ ومنصب سے کوئی مطلب نہیں تھا، وہ کسی منفعت کے لیے اپنے مسلک میں تبدیلی کے قائل نہیں تھے، اس زمانے میں اردو کے ایک معروف دینی مجلہ میں وقفہ وقفہ سے مقالات کے دو سلسلے شروع ہوئے، پہلے میں امام ابن تیمیہؒ اور علمائے دیوبند کے موقف کی وضاحت کی گئی تھی اور دوسرے میں امام محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ کے مسلک کی، مقالہ نگار نے ان مقالات میں یہ بتانے کی کوشش کی تھی یہ دونوں شخصیات علمائے دیوبند کی محترم شخصیات ہیں اور ان دونوں کا مسلک دیوبند سے ملتا جلتا ہے۔
ان مقالات سے بیشتر مولانا خلیل احمد سہانپوریؒ مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ اور مولانا حسین احمد مدنیؒ نے ان دونوں شخصیات کے بارے میں جو لکھا تھا، یہ ہم جیسے طالب علموں کی سمجھ سے بالا تر تھا، اور ہم جیسے کم فہم مخمصہ میں پڑے ہوئے تھے، کیونکہ مسلک دیوبند بر صغیر میں وہابی مسلک کے مترادف سمجھا جاتا ہے، لیکن ان بزرگوں کی رائے اس کے بارے میں بالکل مختلف محسوس ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے جزیرۃ العرب میں مسلک دیوبند کے سلسلے میں شبہات پائے جاتے ہیں، کیونکہ یہاں کے اکثر علماء ومشائخ ان دونوں اماموں کے مسلک ہی کو علی منہاج السنۃ سمجھتے ہیں۔ ہم نے قاضی صاحب کے سامنے ان مقالات پر اپنی مسرت کا اظہار کیا، کہنے لگے علمائے دیوبند کا مسلک وہی ہے جس کی ان مقالات میں تردید کی گئی ہے۔
اس زمانے میں محمد علی روڈ پر جہاں کبھی تاج کمپنی اپنے ابتدائی تاج آفس کے نام سے قائم ہوئی تھی، اسی بلڈنگ کے بالمقابل فٹ پاتھ پر اتوار کو پرانی کتابوں کا بازار لگتا تھا، ایک مرتبہ یہیں پر ہمیں ایک عربی زبان کی قدیم کتاب نظر آئی جس کے ابتدائی صفحات اور آخر صفحات غائب تھے، کتاب دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ کوئی نادر کتاب ہوگی، ہم نے اسے اونے پونے دام میں خریدا اور قاضی صاحب کے پاس لے گئے، اسے دیکھتے ہی آپ پھڑک اٹھے کہنے لگے یہ کتاب آپ کو کیسے ملی؟ ہم نے اس کا ایک قلمی نسخہ کوئی چالیس سال قبل دیوبند میں دیکھا تھا پھر اس کا نام بتایا یہ عنوان الشرف الوافی فی الفقہ والنحو والتاریخ والقوافی تھی، مصنف ابن المقری کا ایک علمی معجزہ، بنیادی طور پر فقہ شافعی کی کتاب سطر کے ابتدائی حروف کو آخر تک ملائیں تو نحو کی درمیان سے آخر تک ملائیں تو تاریخ کی اور آخری حروف ملائیں تو قوافی کی کتاب بنتی ہے۔ قاضی صاحب کے مرکز علمی کے پڑوس ہی میں ممبئی کی جامع مسجد واقع تھی جس کے کتب خانہ محمدیہ میں چھٹی صدی سے اب تک ہاتھوں سے لکھے سینکڑوں قلمی نسخے محفوظ تھے، ان کے علاوہ قیمتی نادر کتابوں کا وسیع ذخیرہ الگ تھا، یہاں کے ناظر کتب خانہ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے قاری اسماعیل کاپرے بڑے ہی مشفق اور طلبہ کی ہمت افزائی کرنے والے انسان تھے، انہوں نے کتب خانے سے کتاب کے بڑے ہی نادر قلمی نسخے نکال کر دیے، ساتھ ہی تاریخ ابن خلکان وغیرہ جن میں مصنف کے حالات بیان کیے گئے ہیں وہ لاکر دیں۔ اور ہم نے کتاب کو ان مخطوطات کو ملاکر مکمل کیا، اس کامیابی پر ایک طالب علم کو کتنی خوشی ہوسکتی ہے اس کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔
۱۹۷۹ء میں تلاش معاش کے سلسلے میں جب ہمارا دبئی آنا ہوا قاضی صاحب کی خدمت میں دعائیں لینے کے لیے خاص طور پر حاضر ہوا۔ انہیں ہمارے گھر کے معاشی حالات سے واقفیت تھی، ہم پر معاشی ترقی کی راہ کھلنے پر آپ نے جس مسرت وخوشی کا اظہار کیا آج بھی اسے بھول نہیں پایا ہوں، چھوٹوں سے شفقت کی ایسی مثالیں شاذ ونادر ہی ملیں گی۔ اس کے بعد ہمارا جب بھی ممبئی جانا ہوتا تو قاضی صاحب سے شرف ملاقات کی ضرور کوشش کرتا۔
قاضی صاحب جس پایہ کے مصنف اور مورخ تھے، زندگی میں اتنی ان کی قدر نہیں ہوئی البتہ آخری ایام میں پاکستان کے سابق حکمران حبزل ضیاء الحق نے آپ کو خصوصیت سے دعوت دے کر اس وقت اعزازات سے نوازا جب کہ سندھ کے راستے بر صغیر میں اسلام کی اولین کرنوں کے داخلہ کی تقریبات منائی جارہی تھیں اور ان تقریبات میں اعزاز کا حقدر ان سے بڑھ کر کوئی اور نہ تھا۔ اس موقع پر آپ کو محسن ہند کے لقب سے نوازا گیا، حکومت کویت نے بھی آپ کی بڑی پذیرائی کی۔
آخری ایام میں اپنے وطن مبارک کپور لوٹنے پر آپ نے الجامعۃ الحجازیۃ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی اور مولانا سعید احمد اکبرآبادی کی رحلت کے بعد کچھ عرصہ برہان دہلی کی ادارت بھی سنبھالی۔
مولانا مفتی عتیق الرحمان عثمانی نے جب دارالمصنفین کے طرز پر ندوۃ المضفین کی بنا ڈالی اور تاریخ وتحقیق سے دلچسپی رکھنے والے فضلائے دیوبند کی تصنیفات کو منظر عام پر لانے کا پروگرام کیا تو مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ مولانا زین العابدین سجاد میرٹھیؒ، مولانا حامد الانصاری غازی اور قاضی صاحب اس میدان میں نمایاں ہو کر ابھرے جو کبھی صرف دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فارغین کا امتیاز سمجھا جاتا تھا اور ان حضرات نے تصنیف وتحقیق کے میدانوں میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو اپنی قدر وقیمت میں کچھ کم نہیں تھے۔ لیکن ندوۃ المصنفین کے یہ چاروں ستون یکے بعد دیگرے گر گئے اور یہ عمارت قاضی صاحب کی رحلت کے بعد تو زمین بوس ہو گئی۔ رہی سہی کسر آگ کی لپیٹوں نے مفتی صاحب کے قیمتی کتب خانہ کو خاکستر میں تبدیل کر کے پوری کی۔
قاضی صاحب ان لوگوں میں تھے جو دنیا کے شور شرابے سے دور کسی کونے کھدرے میں پڑے رہتے ہیں۔ دنیا سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی، وہ اس شمع کی طرح ہوتے ہیں جو اندھیرے میں خود جلتی رہتی ہے لیکن دنیا کو اپنی روشنی سے منور کرتی ہے۔ ان کے اٹھ جانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بڑا خلا واقع ہوا ہے، کوئی بڑی نعمت ہم سے چھن گئی ہے، پیاس بجھانے کا کوئی اہم سر چشمہ سوکھ گیا ہے۔ خدا مغفرت کرے۔
[email protected]
***

قاضی صاحب سے مل کر احساس ہوا کہ اردو داں حلقہ کس قدر کٹھور دل واقع ہوا ہے، لہو جلا کر لکھی جانے والوں کی یہ کیسی ناقدری کرتا ہے۔ اور مصنف کو اپنی محنت کا مادی معاوضہ تک نہیں دیتا، قاضی صاحب کو چھیڑنے میں ہمیں بڑا مزہ آتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ سے کہا کہ آپ کے پاس تو خوب مال وروپیہ جمع ہوگیا ہو گا۔ ہزارہا کی تعداد میں چھپنے والی کتابوں کی اچھی خاصی رائلٹی آتی ہوگی، کہنے لگے اس کے لیے مصنف کا کسی ایسی جماعت کا سربراہ بننا ضروری ہے جس کے پیرو کار اس کی کتابوں کو پھیلائیں، ہم تو ٹھیرے دیوانے، چار پانچ سال کی محنت سے ایک کتاب لکھ دیتا ہوں، اسے۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب چھاپ کر اسکے سو نسخے مجھے بھیج دیتے ہیں، جسے تم جیسے مفت خور احباب ہدیے میں اڑا لے جاتے ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔ ساری محنت کا یہی صلہ ملتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021