شفیق احمد ابن عبداللطیف آئمی
مستقبل کا ’’ڈیٹا اسٹوریج‘‘
ابھی تک انسان ’’ہارڈ ڈسک‘‘وغیرہ میں ’’ڈیٹا‘‘ کو محفوظ کرتا آرہا ہے لیکن اب آنے والے وقت میں انسان ایک بالکل نئی چیز میں تمام ’’ڈیٹا‘‘ محفوظ رکھے گا اور وہ ہے ’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘۔ ڈی این اے زندگی کا ’’بلیو پرنٹ‘‘ محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ہمارا ’’ڈیٹا‘‘ جس میں ڈاکیومنٹس، موویز، میوزک وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں محفوظ کرنے کا کام کر سکے گا۔ اِس سلسلے میں یوروپین بائیو انفارمیٹکس انسٹیٹیوٹ انگلینڈ کے محققین نے چند عام کمپیوٹر فائل فارمیٹس کو ’’ڈی این اے‘‘ میں محفوظ کرنے کا کامیاب ’’عملی مظاہرہ‘‘ بھی کرکے دکھایا ہے۔ شروع میں ’’ڈی این اے‘‘ میں ’’ڈیٹا‘‘ محفوظ کرنا بہت زیادہ قیمتی ہوگا لیکن جیسے جیسے ’’ڈی این اے سیکوئسنگ‘‘ اور ’’سینتھسیائزنگ‘‘ کا عمل انجام دینے کی قیمت میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے ویسے ویسے اِس کے استعمال کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ محققین کا خیال ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں ’’بائیولوجیکل اسٹوریج‘‘ ایک حقیقت بن جائے گی۔ آنے والے دنوں میں ’’ڈی این اے‘‘ ہمارے ’’مستقبل کا ڈیٹا اسٹوریج‘‘ بننے والا ہے۔
’’ڈی این اے اسٹوریج‘‘ زیادہ پائیدار
انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انسان کی زندگی کو بہت تیز رفتار بنا دیا ہے اور انسان اسے اور بھی زیادہ تیز رفتار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ میں ہمارے ’’ڈیٹا‘‘ کو محفوظ کرنے کی قابلیت ہمارے زیر استعمال ’’اسٹوریج میڈیا‘‘ سے کم سے کم ایک ہزار 1000گُنا زیادہ ہے۔ ’’ڈی این اے‘‘ میں ’’ڈیٹا‘‘ محفوظ کرنے کا خیال نیا نہیں ہے بلکہ اِس کے لئے کافی عرصے سے ٹیکنالوجی کے ماہرین کوشش کر رہے ہیں۔ شروع میں چونکہ ’’ڈی این اے سنیتھسائزنگ‘‘ (ڈی این کی نقلیں تیار کرنا) اور ’’سیکوئسنگ‘‘ (C,G,A اور T کی ترتیب) کی قیمت اور درکار آلات کافی مہنگے تھے جس کی وجہ سے اِس جانب زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی اِس کے باوجود اِس پر مسلسل کام ہوتا رہا اور مختلف محققین اپنے تجسس کی تسکین کے لئے اِس منصوبے پر مسلسل کام کرتے رہے۔ ہمارے زیر استعمال ’’اسٹوریج میڈیا‘‘ میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں اِس کی خامیاں بھی کھل کر سامنے آنے لگی ہیں۔ یہ ’’اسٹوریج میڈیا‘‘ ہمارے ’’ڈیٹا‘‘ کو کئی دہائیوں تک محفوظ نہیں رکھ پاتے ہیں۔ خاص طور پر ’’مقناطیسی اسٹوریج میڈیا‘‘ میں ’’ڈیٹا‘‘ کی عُمر کافی کم ہوتی ہے جس کی ’’مقناطیسی کوٹنگ‘‘ چند ہی سالوں یا دہائیوں میں ختم ہو جاتی ہے۔ اگر ’’اسٹوریج میڈیا‘‘ چند سالوں یا دہائیوں تک محفوظ رہ بھی جائے تو بھی انسان بہت تیزی سے ’’اسٹوریج فارمیٹ‘‘ کو تبدیل کرتا جارہا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آج سے چند دہائیوں بعد ہم کس قسم کے فارمیٹ استعمال کر رہے ہوں گے اور کیا ہمارے زیر استعمال فارمیٹ اُس وقت قابل استعمال ہوں گے؟ اِس کے علاوہ ’’مقناطیسی اسٹوریج میڈیا‘‘ کی فی مربع انچ ڈیٹا محفوظ رکھنے کی گنجائش بھی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے اور جلد ہی ہم ’’اسٹوریج میڈیا‘‘ کو مزید چھوٹا نہیں کر پائیں گے۔ ’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے۔ اِس میں محفوظ معلومات ہمیشہ کے لئے محفوظ رہتی ہیں اور اِس کا فارمیٹ کبھی بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لاکھوں سال پرانے ’’فوسلز‘‘ کے ’’ڈی این اے‘‘ سے بھی معلومات اخذ کرلیتے ہیں اور اگر ہم ’’ڈی این اے‘‘ کو ’’فریز‘‘ کردیں تو اس سے بھی زیادہ عرصے تک ’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ محفوظ رہتا ہے۔
’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ کا کامیاب مظاہرہ
ماہرین ٹیکنالوجی کی مسلسل کوششیں کارگر ہو رہی ہیں اور ’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ بنانے میں کامیابی بھی حاصل ہو رہی ہے۔ یوروپین بائیو انفارمیٹکس انسٹی ٹیوٹ میں اِس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ’’نک گولڈ مین‘‘ کے مطابق ’’ہم اسٹوریج میڈیم اور اُسے پڑھنے والی مشین کو الگ الگ کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے پاس ’ڈی این اے‘ کو پڑھنے والی ٹیکنالوجیس ہمیشہ رہیں گی‘‘۔ اِن محققین نے ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیر کی مشہور تقریر I have a dream کی ایم پی تھری mp3 فائل اور ایک ریسرچ پیپر کی ’’پی ڈی ایف‘‘ pdf فائل اور ایک رنگین JPEG تصویر کو ’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ میں ’’انکوڈ‘‘ کرنے کا کامیاب مظاہرہ کیا۔ اِس ’’ڈیٹا اسٹوریج‘‘ میں فائلیں محفوظ کرنے کی گنجائش 2.2 پیٹا بائٹس فی گرام ہے اور اِس حساب سے تقریباً گیارہ گرام ’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ میں ’’میگا بائٹ‘‘ MB اپ لوڈ پر صارفین کی ’’اپ لوڈ‘‘ کی گئی تمام فائلیں 28 پیٹا بائٹس تک محفوظ کی جا سکتی ہیں۔ اب میگا بائٹ MB کی جگہ گیگا بائٹ GB لے چکا ہے اور اب دھیرے دھیرے ٹیرا بائٹ TB اُس کی جگہ لے رہا ہے۔ آنے والے وقت میں ٹیرا بائٹ کی جگہ پیٹا بائٹ PT لے گا۔
’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ میں ڈیٹا محفوظ کرنا
انسان اپنے ’’ڈیٹا‘‘ کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کرنے کی مسلسل کوشش کرتا رہا ہے اور اب اُسے اِس میں کامیابی بھی ملنے لگی ہے۔’’ڈی این اے‘‘ پر ڈیٹا محفوظ کرنے میں اب تیزی سے ترقی ہورہی ہے۔ یورپین بائیو انفارمیٹکس انسٹی ٹیوٹ کے مظاہرے سے بھی پہلے ’’ہاورڈ یونیورسٹی‘‘ کے محققین نے پروفیسر جارج چرچ کی سربراہی میں ایک کتاب کو ’’ڈی این اے‘‘ میں محفوظ کرنے کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہوں نے جو ’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ بنایا تھا اُس میں ’نک گولڈ مین‘‘ اور اُن کے ساتھیوں نے اور بھی خوبیاں پیدا کیں۔ ’’نک گولڈ مین‘‘ کے مطابق اُن کی تحقیق میں زیادہ عملی اور error-tolerant ڈیزائن پر توجہ دی گئی ہے۔ ’’ڈی این اے‘‘ پر ڈیٹا محفوظ کرنے کے لئے اِن محققین نے ایک ایسا ’’سافٹ وئیر‘‘ تیار کیا ہے جو ’’بائزی ڈیٹا‘‘ (0اور1)کو ’’جینیاتی حروف‘‘ (G,T,AاورC) میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی یہ پروگرام اِس بات کا بھی خیال رکھتا ہے کہ ایک ہی ’’جینیاتی حرف‘‘ ساتھ ساتھ (یعنی AA اور CC) نہ ہوں کیونکہ اگر ایسا ہوا تو ’’سیکوئسنگ اور سینتھیسائزنگ‘‘ کے عمل کے دوران ’’ڈیٹا‘‘ خراب ہوسکتا ہے۔ اِس لئے فائلوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑ کر الگ الگ محفوظ کیا جاتا ہے اور ہر حصے کو ایک خاص ’’انڈیکس کوڈ‘‘ دے دیا جاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ٹکڑا کس فائل میں کس جگہ کا ہے؟
’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ فی الحال مہنگا
جب کوئی نئی ٹیکنالوجی سامنے آتی ہے تو وہ بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماہرین اِس میں خوبیاں پیدا کرنے اور لاگت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ کے بارے میں یورپین بائیو انفارمیٹکس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ’’نک گولڈ مین‘‘ کا اندازہ ہے کہ اِس ’’ڈیٹا اسٹوریج‘‘ میں ڈیٹا محفوظ کرنے کی قیمت 12400 ڈالر فی ’’میگا بائٹس‘‘ تک ہے اور اِس کو پڑھنے کے لئے 220 ڈالر فی میگا بائٹس خرچ ہوں گے۔ یقیناً یہ قیمت بہت ہی زیادہ ہے اور عملی زندگی میں کوئی بھی فی میگا بائٹس ڈیٹا کی اتنی قیمت دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ لیکن ’’نک گولڈ مین‘‘ کا کہنا ہے کہ جوں جوں ’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ میں ترقی ہوتی جائے گی تو اس کی قیمت میں کمی ہوتی جائے گی۔ اگلی چند دہائیوں میں ’’ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج‘‘ کی قیمت بہت تیزی سے کم ہوگی اور ’’ڈی این اے‘‘ میں ’’ڈیٹا‘‘ محفوظ کرنے کی قیمت ’’مقناطیسی اسٹوریج‘‘ جتنی کم ہو جائے گی۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021