انجینئرنگ و ٹیکنالوجی میںکرئیر اورتعلیم کے بے شمارمواقع
کئی ریاستوں میں لاکھوں کی تعداد میں خالی ہیں انجینئرنگ کی نشستیں
مومن فہیم احمد عبدالباری
(لیکچرر صمدیہ جونیر کالج، بھیونڈی)
ٹیکنیکل، ڈپلوما اور ڈگری کے کورسیس میں بھی داخلے ممکن
موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے ٹیکنیکل کورسیس کی اہمیت و افادیت کو بڑھا دیا ہے اور تقریباً ہر ٹیکنیکل شعبے میں ڈپلوما اور ڈگری کے کورسیس جاری ہیں۔ ان کورسیس میں ڈپلوما، بیچلر آف انجینیئرنگ، بیچلر آف ٹیکنالوجی، ماسٹرس ان انجینئرنگ، ماسٹرس ان ٹیکنالوجی اور آرکیٹیکچر کورسیس شامل ہیں۔ عموماً ڈپلوما کے کورسیس میں دسویں اور ڈگری کورسیس میں بارہویں کے بعد داخلہ لیاجا سکتا ہے۔ ٹیکنیکل کورسیس کی وضاحت کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں ہر وہ کورس جو آل انڈیا کاونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن، ڈائریکٹوریٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن اور کونسل آف آرکیٹیکچر کے ذریعے جاری ہے ٹیکنیکل ڈپلوما یا ڈگری کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ ریاستی بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن، نیشنل کاونسل فار ووکیشنل ٹریننگ وغیرہ مختصر مدت کے کورسیس طلبہ کو پڑھائی کے ساتھ روزگار فراہم کرانے کا اہم ذریعہ ہیں۔
ٹیکنیکل کورسیس اس لحاظ سے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ نوکری کے علاوہ یہ خود روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ معاشی مندی کی بناء پر نوکریوں میں کمی آئی ہے لیکن ایک ٹیکنیکل ڈگری یافتہ شخص اپنی صلاحیتوں کی بناء پر خود روزگار کا متحمل ہو سکتا ہے اور دوسروں کو بھی ملازمت کے مواقع فراہم کرسکتا ہے ۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک تربیت یافتہ ٹیکنیکل مہارت کا حامل شخص ہندوستان جیسے ملک میں تو بے روزگار ہو ہی نہیں سکتا۔
گزشتہ کچھ عرصے میں یہ تجزیہ سامنے آیا ہے کہ ملک میں انجینئرنگ کی بیشتر جگہیں خالی رہ جاتی ہیں اور بہت سے انجینئرنگ گریجویٹس بے روزگار ہیں یا پھر انہیں ان کی تعلیمی لیاقت کے مطابق نوکری نہیں مل رہی ہے۔ ہندوستان بھر میں سات ہزار سے بھی زائد انجینئرنگ انسٹیٹیوٹ ہیں جہاں انجینئرنگ کی تقریباً پندرہ لاکھ سیٹیں ہیں۔ سر فہرست ریاستوں میں تمل ناڈو، آندھرا پردیش، اتر پردیش اور مہاراشٹر ہیں جہاں سیٹوں کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن ایک جائزے کے مطابق کئی ایک انجینئرنگ کالجس جو دیہی علاقوں میں قائم ہیں وہاں کا تعلیمی معیار پسماندہ اور انفراسٹرکچر ناکافی ہے اس لیے بھی تکنیکی تعلیم میں داخلے کے خواہشمند طلبہ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ایسے اداروں میں داخلہ لیں جہاں سارے تعلیمی لوازمات اور انفراسٹرکچر کی سہولتیں موجود ہوں۔
ٹیکنیکل کورسیس میں داخلہ لینے کے لیے طلبہ کو مختلف اہلیتی امتحانات دینے پڑتے ہیں۔ اس لئے عموماً گیارہویں میں داخلے کے ساتھ ہی تیاری شروع کرنا بہتر ہے۔ ان اہلیتی امتحانات میں آل انڈیا انجینئرنگ انٹرنس اگزام (AIEEE) ہے جو انجینیئرنگ، فارمیسی اور آرکیٹیکچر میں سنٹرل یونیورسٹیوں، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، ڈیمڈ یونیورسٹیز اور ریاستوں کے ایسے انسٹیٹیوٹ جو جوائنٹ انٹرنس امتحان (JEE) کے دائرہ کار میں نہیں آتے، ان میں داخلہ کے لیے سنٹرل بورڈ فار سیکنڈری ایجوکیشن (CBSE) کے ذریعے منعقد کیا جاتا ہے۔
انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IITs) ہندوستان کے وہ موقر ادارے ہیں جو ٹیکنیکل ایجوکیشن میں پوری دنیا میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ ان اداروں میں داخلہ حاصل کر لینا ہی طالب علم کی ایک بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ ہندوستان میں ممبئی، دہلی، گوہاٹی، کانپور، کھڑگ پور، مدراس اور رُڑکی میں یہ انسٹیٹیوٹ قائم ہیں جو دنیا بھر میں قابل، ہنر مند، تحقیقی ذہانت کی حامل افرادی قوت تیار کر کے فراہم کر رہے ہیں۔ ان اداروں میں داخلہ کا اہم ذریعہ جوائنٹ انٹرنس امتحان (JEE) ہے۔ ان اداروں میں داخلے کے لیے طلبہ کو دو مرحلوں مین (Main) اور ایڈوانس (Advance) سے گزرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں حکومت کی کوشش ہے کہ پورے ملک میں واحد اہلیتی امتحان کا طریقہ اختیار کیا جائے تاکہ طلبہ کو مختلف اہلیتی امتحانوں کے لیے فیس کی ادائیگی اور امتحان کی تیاری نہ کرنی پڑے۔ اسی سوچ کی بناء پر میڈیکل کے لیے NEET اور انجینئرنگ کے لیے JEE کے امتحانات کے اسکور ملکی سطح پر داخلوں کے لیے قابل قبول ہیں۔
نیشنل اپٹیٹیوٹ ٹیسٹ ان آرکیٹیکچر (NATA) آرکیٹیکچر کے شعبے میں اپنا کرئیر بنانے کے خواہشمند طلبہ کے لیے ایک اہلیتی امتحان ہے جسے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز ان آرکیٹیکچر (NIASA) کونسل آف آرکیٹیکچر کے اشتراک سے منعقد کرتی ہے۔ موجودہ دور میں تعمیرات کی دنیا میں ترقی کے پیش نظر اس شعبے کی مانگ دنیا بھر میں بڑھ گئی ہے۔ آرکیٹکچر کا یہ کورس نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (NIT) انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IIT) مختلف سنٹرل ڈیمڈ اور ریاستی یونیورسیٹیز اور اداروں کے تحت جاری ہیں۔
انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کی پوسٹ گریجویٹ اسٹڈیز کے لیے ملک کے ساتوں آئی آئی ٹی اور انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس بنگلور میں داخلہ حاصل کرنے کا ذریعہ گریجویٹ اپٹیٹیوٹ ٹیسٹ ان انجینئرنگ (GATE) ہے۔ اس اہلیتی امتحان کے ذریعے انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی گریجویٹس امیدوار انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، سائنس، آرکیٹیکچر میں پوسٹ گریجویشن یعنی ماسٹر ڈگری میں داخلے کے اہل ہو سکتے ہیں۔
انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کا شعبہ وسیع ترین ہے۔ اس میں انجینئرنگ کے انڈر گریجویٹ کورسیس کی طویل فہرست ہے جس میں زراعتی، ایروناٹکس، آرکیٹیکچر، آٹو موبائیل، بائیو میڈیکل، بائیو ٹیکنالوجی، براڈ کاسٹ، کمیونکیشن، سیرامک، کیمیکل، سِوِل (Civil)، کمپیوٹر، ماحولیاتی، الیکٹریکل، ارتھ کوئیک، الیکٹرونکس، فائر، جینیٹک (Genetic)، انڈسٹریل، پروڈکشن، انسٹرومینٹل، مرین، میکانیکل، میٹالرجیکل، مائننگ، مٹیریل، نیوکلئیر، پیٹرولیم، پلاسٹک، پولیمر، ربر، اسپیس، ٹیکسٹائل وغیرہ شعبے شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر ہمارے طلبہ کے لیے غیر معروف ہیں لیکن ان کی اپنی اہمیت و افادیت ہے اور طلبہ اپنی دلچسپی اور رجحان کی بناء پر انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں بھی اپنا کرئیر بناسکتے ہیں۔
انجینئرنگ و ٹیکنالوجی میں گریجویشن کے علاوہ بھی دیگر بہت سے ایسے کورسیس ہیں جو ڈپلوما، آئی ٹی آئی یا ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کے ذریعے جاری کیے جا سکتے ہیں۔ دسویں کے بعد روایتی آرٹس، سائنس و کامرس میں داخلے کے علاوہ ہمارے طلبہ ایم سی وی سی کورسیس میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ جن کا مقصد طلبہ میں کم سے کم اتنی اہلیت پیدا کرنا ہے تاکہ وہ خود روزگار کے قابل ہوسکیں۔ ان کورسیس میں میڈیکل لیب ٹیکنالوجی، اکاونٹنگ اینڈ آدیٹنگ، ٹورزم اینڈ ٹراویل ٹیکنیک، مارکیٹنگ اینڈ سیلس مین شپ، الیکٹرانکس وغیرہ کے کورسیس شامل ہیں۔ ان کی اہمیت و افادیت اس لحاظ سے بھی بیان کی جاسکتی ہے کہ قدیم ترین اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اب بھی یہ کورسیس جاری ہیں جن میں نرسی مونجی، جمنا لال بجاج، اکبر پیر بھائی، انجمن اسلام، بھارتیہ ودیا پیٹھ، فادر ایگنل، رئیس جونیر کالج، کندنانی کالج، لالا لاجپت رائے کالج، کے سی کالج، اسماعیل یوسف کالج وغیرہ شامل ہیں۔ دسویں کے بعد جاب اورینٹیڈ مختصر مدتی ٹیکنیکل کورسیس کے لیے انڈسٹریل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ (ITI) میں جاری کورسیس جنہیں ٹریڈس کہا جاتا ہے انتہائی مفید ہیں۔ آئی ٹی آئی ٹریڈ کامیاب امیدوار عام طور پر مختلف صنعتوں میں معاون ٹیکنیشین کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ تجربہ اور سینیاریٹی کی بنیاد پر ترقی پاتے ہیں۔ عام طور پر یہ ٹریڈس دو سال کے ہوتے ہیں اور کورس کی تکمیل پر ہی روزگار مل جاتا ہے۔ زیادہ تر ٹریڈس میں داخلے کے لیے آٹھویں اور دسویں کامیاب اہلیت کافی ہوتی ہے۔ ان ٹریڈس میں ویلڈر، فٹر، الیکٹریشین، کارپینٹر، فونڈری مین، بک بائنڈر، پلمبر، ٹول اینڈ ڈائی میکر، ٹرنر، ڈرافٹس مین میکانیکل، میکانک کمپیوٹر ہارڈ وئیر، ایر کنڈیشنر، ریفریجریٹر، کلاک اینڈ واچ، موٹر وہیکل، ٹول مینٹیننس، ڈیزل میکانک، انسٹرومنٹ میکانک، سیکریٹریل پریکٹس، بیکر اینڈ کنفیکشنری، کٹنگ اینڈ سیونگ، اسٹینو گرافی، انٹیرئیر ڈیکوریٹر اینڈ ڈیزائننگ، سروئیر وغیرہ کی موجودہ دور میں بڑی ڈیمانڈ ہے۔ ریاست مہاراشٹر میں حکومتی اور نجی آئی ٹی آئیز کی تعداد تین سو چالیس سے بھی زائد ہے۔ کئی آئی ٹی آئیز میں اقلیتوں کے لیے نشستیں مختص ہیں اور شام کی کلاسیس کا بھی نظم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ادارے مختصر مدتی ٹیکنیکل کورسیس کی تعلیم اور عملی تربیت فراہم کرتے ہیں۔ ریاست مہاراشٹر میں قائم کردہ کوہِ نور ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔
مختصر یہ کہ ٹیکنیکل کورسیس میں داخلہ طلبہ کے شاندار مستقبل کا ضامن ہے۔ اگر ہمارے طلبہ اپنی استطاعت اور معاشی حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی اور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں تو یقیناً ایک شاندار مستقبل ان کا استقبال کرے گا۔
[email protected]
***
انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کا شعبہ وسیع ترین ہے۔ اس میں انجینئرنگ کے انڈر گریجویٹ کورسیس کی طویل فہرست ہے جس میں زراعتی، ایروناٹکس، آرکیٹیکچر، آٹو موبائیل، بائیو میڈیکل، بائیو ٹیکنالوجی، براڈ کاسٹ، کمیونکیشن، سیرامک، کیمیکل، سِوِل (Civil)، کمپیوٹر، ماحولیاتی، الیکٹریکل، ارتھ کوئیک، الیکٹرانکس، فائر، جینیٹک (Genetic)، انڈسٹریل، پروڈکشن، انسٹرومینٹل، مرین، میکانیکل، میٹالرجیکل، مائننگ، مٹیریل، نیوکلئیر، پٹرولیم، پلاسٹک، پولیمر، ربر، اسپیس، ٹیکسٹائل وغیرہ شعبے شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر ہمارے طلبہ کے لیے غیر معروف ہیں لیکن ان کی اپنی اہمیت و افادیت ہے اور طلبہ اپنی دلچسپی اور رجحان کی بناء پر انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں بھی اپنا کرئیر بنا سکتے ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021