امریکہ کے تجویز کردہ امن معاہدے پر اہل غزہ کے تحفظات

محمد سنوار کو نشانہ بنانے کیلئے یورپین ہسپتال پر 30سیکنڈ میں 50 بم گرائے گئے

0

مسعود ابدالی

آزادی اظہار رائے؟؟ شہید ہونے والے بچوں کی تصویروں والے پوسٹروں پر اسرائیل میں پابندی
غربِ اردن میں 22 نئی اسرائیلی بستیاں تعمیر کی جائینگی۔غزہ جیت رہا ہے، غزہ جیتے گا۔۔ اسرائیل کے عرب رکن پارلیمان کا جلسے سے خطاب
اسرائیل پر پابندیاں لگائی گئیں تو یہودی ریاست تباہ ہوجائیگی۔ وزیرخارجہ کا واویلہ
دوتہائی سے زیادہ امریکی طلبہ آزاد فلسطین کے حامی۔امدادی سامان سے لدا ایک اور بحری قافلہ (Flotilla)غزہ روانہ
غزہ میں امن کی حالیہ کوشش بھی ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف نے 29 مئی کو امن معاہدے کا جو 13 نکاتی متن غزہ مزاحمت کاروں کو بھجوایا وہ کچھ اس طرح تھا۔
1۔ مدت: 60 دن، صدر ٹرمپ اس بات کے ضامن ہیں کہ اسرائیل مدتِ معاہدے کے دوران اس کی پاس داری کرے گا
2۔ اہل غزہ پہلے سات دنوں میں 10 قیدی اور 18 لاشیں اقوام متحدہ کے حوالے کریں گے۔
3۔ معاہدے ہوتے ہی غزہ کے لیے امداد پر عائد تمام پابندیاں ختم کردی جائیں گی۔ تقسیم کی نگرانی اقوام متحدہ اور فلسطینی ہلال احمر کریں گی۔
4۔ معاہدہ ہوتے ہی اسرائیل تمام فوجی کاروائی روک دے گا۔ غزہ پر فوجی طیاروں اور جاسوس پروازیں 10 گھنٹہ روزانہ تک محدود کردی جائیں گی۔ قیدیوں کی حوالگی کے دوران 12 گھنٹے تک غزہ کی فضا میں کوئی جہاز نہیں اڑے گا
5۔ معاہدہ کے بعد قیدیوں کے پہلے گروپ کے تبادلے کے ساتھ ہی اسرائیلی فوجوں کا شمالی غزہ اور نتظارم راہداری (Netzarim Corridor) سے انخلا شروع ہو جائے گا۔ ساتوں دن قیدیوں کے دوسرے گروپ کے تبادلے کےساتھ اسرائیلی فوج جنوبی غزہ خالی کرنا شروع کردے گی۔ دونوں طرف کی ٹیکنیکل ٹیمیں واپسی کا حتمی نقشہ طے کریں گی۔
6۔ عبوری معاہدہ ہوتے ہی پہلے دن سے ضامن (یعنی امریکہ) اور مصالحت کاروں (قطر اور مصر) کی نگرانی میں پائیدار اور مستقل امن کے لیے بات چیت شروع ہو جائے گی جن میں مندرجہ ذیل نکات کا احاطہ کیا جائے گا۔
تمام قیدیوں اور باقیات کا تبادلہ
اسرائیلی فوج کا غزہ سے مکمل انخلا
بعد از انخلا، غزہ کا انتظام و انصرام
7۔ امریکی صٖدر معاہدے پر عمل درآمد کرانے کے لیے انتہائی سنجیدہ ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ عبوری جنگ بندی کے دوران دونوں فریق اخلاص کے ساتھ معاملات طے کرکے علاقے میں مستقل اور جامع امن کو یقینی بنائیں۔
8۔ پانچ اسرائیلی قیدیوں کے عوض اسرائیل، عمر قید کی سزاپانے والے 125 اور دوسرے 1111 قیدیوں کو رہا کرے گا۔ اٹھارہ لاشوں کے بدلے 180 فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے۔
9۔ معاہدے کے دسویں دن مزاحمت کار زندہ اور مردہ قیدیوں کی مکمل فہرست اقوام متحدہ کے حوالے کریں گے
10۔ جامع امن معاہدے کی صورت میں باقی ماندہ تمام قیدی رہا کر دیے جائیں گے۔
11۔ امریکہ، قطر اور مصر یہ ضمانت دیتے ہیں کہ 60 دنوں کے عبوری دور میں معاہدے کی پابندی یقینی بنائی جائے گی۔ اس کے علاوہ مکمل و پائیدار امن کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں گی۔
12۔معاہدے کو آخری شکل دینے کے لیے اسٹیو وٹکاف حتمی مذاکرات کی صدارت کریں گے۔
13: فریقین کی رضامندی کی صورت میں صدر ٹرمپ خود اس معاہدے کا اعلان کریں گے۔
ان تجاویز کے بارے میں جناب ٹرمپ اتنے پر امید تھے کہ قصر مرمریں سے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے پراعتماد لہجے میں کہا کہ غزہ جنگ بندی اب ہفتوں یا دنوں کی نہیں گھنٹوں کی بات ہے۔
اس معاہدے میں اصل بات یعنی اسرائیلی فوجوں کی واپسی کا معاملہ گنجلک ہے۔ متن کے مطابق انخلا کی تفصیل مستقل امن معاہدے کے لیے مذاکرات میں طے کی جائیں گی۔ جب قیدی رہا ہوگئے تو پھر اسرائیل کو من مانی سے کون روک سکتا ہے؟ صدر ٹرمپ اور امریکہ جو بھی چاہے دعویٰ کرتے پھریں، لیکن مزاحمت کار انہیں غیر جانب دار ثالث تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ خود اسٹیو وٹکاف کے بیانات میں دھمکی و دھونس بہت نمایاں ہے۔ یکم جون کو اہل غزہ نے متن پر اپنے تحفظات کے ساتھ جواب امریکہ کے حوالے کردیا۔ مزاحمت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ پیشکش مسترد تو نہیں کر رہے ہیں لیکن متن کا مجموعی جھکاو اسرائیل کی طرف ہے۔ اہل غزہ نے اپنے جواب میں کہا کہ اگر جنگ بندی عبوری مدت کی کرنی ہے تو یہ دورانیہ سات سال ہونا چاہیے تاکہ اس عرصے میں مکمل و پائیدار جنگ بندی کے لیے بامقصد مذاکرات ہوسکیں۔ امدادی سامان کی تقسیم امریکہ اور اسرائیل کے بجائے غزہ کی مقامی انتظامیہ کے ہاتھ میں ہو اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی ضمانت دی جائے۔ معاہدے کے متن میں ایسی تبدیلی ضروری ہے جس کے تحت مستقل امن معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں بھی اسرائیل جنگ کا دوبارہ آغاز نہ کر سکے۔ غزہ سے جواب ملتے ہی اسٹیو وٹکاف نے کہا کہ مزاحمت کاروں کی جوابی شرائط ناقابل قبول ہیں اور یہ لوگ وقت ضائع کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کے وزیر دفاع نے دھمکی دی کہ اگر
امریکی تجاویز نا قابل قبول ہیں تو مزاحمت صفحہ ہستی سے مٹنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ غزہ کے جواب سے ایک ہی دن پہلے قیدیوں کے لواحقین سے باتیں کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ مزاحمت کاروں سے مکمل خاتمے سے پہلے جنگ ختم نہیں کریں گے۔
امن بات چیت کے دوران اسرائیل کی وحشیانہ کارروائی میں شدت آگئی ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق 17 سے 27 مئی کے دوران ایک لاکھ 80 ہزار اہل غزہ اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے، مارچ میں عارضی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے اب تک سوا چھ لاکھ شہری دربدر ہوئے۔ ہلاکت خیز بمباری میں تیزی و ہلاکت خیزی کا ذکر خود اسرائیلی فوج فخریہ انداز میں کر رہی ہے۔ ایک حالیہ اعلان میں کہا گیا کہ محمد سنوار کو نشانہ بنانے کے لیے اسرائیل نے 13 مئی کو یورپین ہسپتال پر تیس سیکنڈ میں پچاس بم گرائے۔ پریس نوٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حملے میں محمد سنوار کے ساتھ تین دوسرے اہم کمانڈر بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔ محمد سنوار، یحییٰ سنوار کے بھائی اور مزاحمت کاروں کے عسکری سربراہ ہیں جن کے جاں بحق ہونے کی مزاحمت کار تردید کر رہے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق حملہ اس قدر مہارت سے کیا گیا کہ ایک بھی مریض یا غیر متعلقہ فرد کو خراش تک نہیں آئی۔ ہسپتال پر آدھے منٹ میں تیس بنکر بسٹر گرے اور کوئی زخمی نہیں ہوا! جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ استقبالیہ کے سوا پوری عمارت زمیں بوس بوگئی۔
نیتن یاہو، صدر ٹرمپ کی مدد سے غزہ پر جہنم کے نئے دروازے کھول دینے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن ان کی انتہا پسند پالیسیوں نے ملک کو خانہ جنگی راہ پر لا کھڑا کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے تل ابیب میں حکومت مخالف مظاہرین، حکم راں لیکوڈ اتحاد کے مرکز پر ٹوٹ پڑے اور پر عربی اور عبرانی میں ’قطری سفارت خانہ‘ لکھ دیا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے قریبی احباب پر قطر سے رشوت کھانے کا الزام ہے۔ اس دوران ’سِول نافرمانی‘، ’بن گوئر (وزیر اندرونی سلامتی) دہشت گرد ہے‘، ’بے مقصد جنگ بند کرو‘ کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے۔ ہجوم پر قابو پانے کے لیے گھڑ سوار پولیس استعمال کی گئی اور 75 افراد گرفتار ہوئے۔
مظاہرے روکنے کے لیے طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ شہری حقوق کی انجمن ACRI نے 29مئی کو یوم سبت پر جنگ بندی اور غزہ نسل کشی کے خلاف تل ابیب میں مظاہرے کا پروگرام بنایا تو پولیس کی جانب سے منتظمین کو بتایا گیا کہ غزہ میں شہید و زخمی ہونے والے بچوں کی تصویروں والے پوسٹروں اور پلے کارڈز کی نمائش ’قومی جذبات بھڑکانے‘ کی ملک دشمن کارروائی ہے اور اور جو بھی ایسے پلے کارڈز لہراتا ہوا پایا گیا اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔ اسی روز اسرائیل کے تیسرے بڑے شہر اور مرکزی بندرگاہ حیفہ کے جلسہ عام میں عرب سیاسی اتحاد حدش طعل کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ ایمن عودہ نے کہا کہ ’اقوام عالم اور خاص طور سے مغرب میں اسرائیل ایک قابل نفرت ریاست بن چکا ہے۔چھ سو دن سے جاری جنگ کے بارے میں اسرائیلی کھل کر کہہ رہے ہیں کہ کاش ہم یہ دن نہ دیکھتے۔ یہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں اور ان کے متعصبانہ نظریے کی تاریخی شکست ہے۔ غزہ جیت گیا، غزہ جیت رہا ہے اور غزہ جیتے گا‘
دوسری طرف فرانس، اٹلی، اسپین اور برطانیہ آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز کر چکے ہیں اور جون میں اس حوالے سے اہم فیصلہ متوقع ہے۔جواب میں اسرائیلی وزیر تزویراتی امور ران ڈرمر نے دھمکی دی کہ اگر یورپ نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کیا تو غربِ اردن کا اسرائیل سے الحاق کر لیا جائے گا۔ اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے نیتن یاہو کی کابینہ نے غرب اردن میں 22 نئی بستیاں تعمیر کرنے کی منطوری دے دی اور اراضی کے حصول کے لیے نابلوس میں فلسطینی مکانات کے انہدام کا کام شروع ہوگیا ہے۔ اب اسرائیل کے سب سے پرجوش حامی جرمنی نے بھی نیتن یاہو کی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ فن لینڈ کے شہر ٹرکو (Turku) میں 19 مئی کو نورڈک سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے کہا کہ غزہ پر اسرائیلی فوج کے نئے حملوں کی کوئی منظق نظر نہیں آتی۔ اس سے دہشت گردی کا سدباب کیسے ہوگا؟ مجھے اس سے شدید اختلاف ہے۔یہ میں پہلی بار نہیں کہہ رہا ہوں۔ وقت آگیا ہے کہ اس موقف کا برملا اظہار کیا جائے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔
مغرب میں مخالفت کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل نے ہولوکاسٹ (Holocaust) کا ڈھول بجانا شروع کر دیا ہے۔ یروشلم میں بین الاقوامی اتحاد برائے یاد دہانیِ ہولوکاسٹ یا International Holocaust Remembrance Alliance کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر خارجہ گدون سعر بلبلائے کہ اگر اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی لگائی گئی تو دنیا کی یہ واحد یہودی ریاست تباہ ہوجائے گی اور دنیا ایک نئے ہولوکاسٹ (Holocaust) کا مشاہدہ کرے گی۔ کپکپاتے ہوئے لہجے میں انہوں نے کہا کہ جو ملک، ریاستیں اور سیاست داں اسرائیل پر پابندیاں لگانا چاہتے ہیں انہیں اندازہ ہی نہیں کہ اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ یہ دراصل یہودی قوم کو دفاع کے وسائل سے محروم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ایسے وسائل جو ہمیں جلا وطنی کے طویل سالوں اور ہولوکاسٹ کے دوران میسر نہ تھے۔
غزہ نسل کشی کے بارے میں امریکی طلبہ کی حمایت پر جوش ہوتی جا رہی ہے۔ نیوزویک اور آن لائن خبر رساں ایجنسی Axios کے حالیہ جائزوں کے مطابق امریکی کالجوں اور جامعات کے 65 فیصد طلبہ آزاد فلسطین کے حامی اور غزہ نسل کشی پر سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ اسی کے ساتھ انتظامیہ کی سختی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ غزہ نسل کشی کے خلاف تقریر پر برہم ہوکر، مایہ ناز امریکی دانش گاہ MIT نے ہندوستان نژاد طالبہ میگھا ویموری کو جلسہ تقسیم اسناد میں شرکت سے روک دیا۔ میگھا کو طلبہ یونین کے صدر کی حیثیت سے جلسہ تقسیم اسناد میں تقریر کرنی تھی۔دو روز پہلے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے میگھا نے کہا تھا کہ MIT انتظامیہ جو چاہے کرے، طلبہ غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کرتے رہیں گے کہ یہ مسلمان یہودی یا عرب اسرائیل کا نہیں انسانیت کا معاملہ ہے۔
معاملہ صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کی جامعات پر نسل کشوں کے دروازے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سینگالی دارالحکومت ڈاکار کی جامعہ شیخ دیوپ میں تعلقاتِ عالم پر تقریر کے لیے اسرائیلی سفیر یووال واکس (Yuval Waks) بطور مقرر مدعو کیے گئے۔موصوف کے جامعہ آتے ہی طلبہ نے آزاد فلسطین اور غزہ کے قاتل واپس جاو کے نعروں سے ان کا استقبال کیا۔ مظاہرے کی شدت دیکھ کر فاضل سفیر نے وہاں سے دم دبا کر بھاگنے ہی میں غنیمت جانی۔
سیاسی و سفارتی محاذ پر اسرائیل کی تنہائی کے ساتھ انسانی حقوق کی تنظیمیں خطرات کے باوجود غزہ کی مدد کے لیے پرعزم ہیں۔ یکم جون کو سوئٹزرلینڈ کی گریتا تھونبرگ (Greta Thornburg) کی قیادت میں امدادی سامان سے لدی ایک کشتی اٹلی کی سسلین بندرگاہ Catania سے غزہ کے لیے روانہ ہوگئی۔ اس قافلے کا اہمتام یورپی و فلسطینی رفاحی ادارے Freedom Flotilla Coalition (FCC) نے کیا ہے۔ گریتا تھورنببرگ صاحبہ کے ساتھ امریکی ڈرامہ سیریز Game of Thrones کے اداکار لیام کننگھم (Liam Cummingham) انسانی حقوق کے برازیلی رہنما Thiago Avila اور یورپی پارلیمنٹ کی فرانسیسی رکن ریما حسن سمیت انسانی حقوق کے 12 کارکن Madleen نامی کشتی پر سوار ہیں۔اگر رکاوٹ نہ ٖڈالی گئی تو یہ کشتی ایک ہفتے میں غزہ پہنچے گی۔ ایک ماہ قبل FCC کے زیر اہمتام گریتا تھونبرگ کی قیادت میں اسی نوعیت کی الضمیر یا Conscience نامی کشتی 29 اپریل کو الجزائری بندرگاہ بنزرت (Bizerte) سے روانہ کی گئی تھی۔ جب یہ کشتی مالٹا کی بندرگاہ پر لنگر انداز تھی تو 2 مئی کو اس پر اسرائیل نے ڈرون حملہ کیا جس سے کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن کشتی کے آگلے حصے میں آگ لگ جانے کی وجہ سے اس کا مشن منسوخ کر دیا گیا۔ گریٹا صاحبہ اور انسانی حقوق کے دوسرے کارکنوں کو پورا یقین ہے کہ اس قافلے کا بھی وہی حال ہوگا جو الضمیر اور اس سے پندرہ برس پہلے ترک کشتی ماوی مرمرہ (MV Mavi Marmara) کا ہوا تھا۔ خطرے کا احساس کرتے ہوئے مشن کے آغاز پر گریٹا نے کہا ’چاہے جیسی بھی مشکلات حائل ہوں، ہمیں کوشش کرتے رہنا ہے کہ خیر کی کوشش کا خاتمہ درصل انسانیت کا خاتمہ ہے۔ یہ مشن خواہ کتنا ہی خطرناک کیوں نہ ہو، غزہ نسل کشی پر دنیا کی خاموشی سے زیادہ خطرناک نہیں‘
[email protected]
***

 

***

 محمد سنوار کونشانہ بنانے کےلیے اسرائیل نے 13مئی کو یورپین اسپتال پر تیس سیکنڈ میں پچاس بم گرائے۔ حملے میں محمد سنوار کے ساتھ تین دوسرے اہم کمانڈر بھی جاں بحق ہوئے۔ محمد سنوار ، یحییٰ سنوار کے بھائی اور مزاحمت کاروں کے عسکری سربراہ ہیں جن کے جاں بحق ہونے کی مزاحمت کار تردید کررہے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق حملہ اس قدر مہارت سے کیا گیا کہ ایک بھی مریض یا غیر متعلقہ فرد کو خراش تک نہیں آئی۔ ہسپتال پر آدھے منٹ میں تیس بنکر بسٹر گرے اور کوئی زخمی نہیں ہوا! جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025