امر، اکبر ، انتھونی نے رابرٹ سیٹھ کو پٹخنی دے دی
بی جے پی تلنگانہ میں کامیابی کی خوشی میں مہاراشٹرکی شکست کا غم بھول گئی
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
مہاراشٹر کی مہا وکاس اگھاڑی حکومت نے ایک ہفتہ قبل اپنا ایک سال پورا کر لیا۔ اس موقع پر ریاست کی عوام نے حالیہ قانون ساز کونسل کے ضمنی انتخاب میں ایم وی اے کو 6 میں سے 4 حلقوں میں کامیاب کر کے اس کی خدمت میں بہترین تحفہ پیش کیا۔ یہ اس حکومت کے حق میں عوامی تائید کی دلیل ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس نے پہلی سالگرہ کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ بہت جلد بی جے پی کے 105ارکان اسمبلی کی تعداد بڑھ کر 150پر پہنچ جائے گی۔ اس طرح مہاراشٹر میں کمل کھل جائے گا وہ وزیر اعلیٰ بن جائیں گے۔ پھڈنویس کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے سپنوں میں دن رات بلی کے خوابوں کی مانند کرسی ناچتی رہتی ہے۔ وہ اقتدار گنوانے کے ایک سال بعد بھی ’امید سے ہیں‘ لیکن حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے ان کے ارمانوں کا اسقاط کر دیا۔ ویسے تو یہ صرف 6حلقوں کے ضمنی انتخابات تھے لیکن اس سے مہاراشٹر کے اندر سیاسی ہوا کے رخ کا پتہ چلتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ نتائج اس دن آئے جب بی جے پی حیدرآباد کے بلدی انتخابات میں اپنی زبردست کامیابی کا جشن منا رہی تھی۔ حیدرآباد کی کامیابی پر تو امیت شاہ سے لے کر جے پی نڈا تک سب نے تبصرہ کیا لیکن مہاراشٹر کو یکسر نظر انداز کر دیا لیکن سچ تو یہ ہے ان نتائج نے بی جے پی کی حالیہ کامیابی پر گہن لگا دیا۔
بی جے پی بنیادی طور پر شہروں کے سیاسی جماعت ہے دیہاتوں میں اس کا رسوخ کم ہے۔ اس لیے مہاراشٹر کے تین بڑے شہروں پونے، اورنگ آباد اور ناگپور میں بی جے پی کی شکست خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ متوسط طبقات اور امیر کبیر لوگوں میں تعلیم یافتہ لوگوں کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ چونکہ عام انتخابات نہیں تھے بلکہ ان میں سے تین گریجویٹ حلقوں اور دو اساتذہ کے لیے مختص تھے اس لیے ان پانچوں پر بی جے پی کی ہار اس بات کا ثبوت ہے کہ اب شہروں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی سوچ بدل رہی ہے۔ بی جے پی کے پسِ پشت آر ایس ایس کے کیڈر کی بڑی تعریف ہوتی تھی کہ اس طرح کے خصوصی انتخابات میں ان کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ اس شکست نے آر ایس ایس کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی۔ اُمت کے وہ مایوس دانشور جو سنگھ پریوار کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگے ہیں انہیں آر ایس ایس کے گڑھ ناگپور کے اندر بی جے پی کی کراری شکست سے ہوش میں آنا چاہیے اور امت کے اندر حزن و ملال پیدا کرنے کے بجائے حوصلہ اور امید پیدا کرنا چاہیے تاکہ عوام میں جذبۂ عمل پیدا ہو ، بقول دانش نورپوری؎
برگ و بار کی خاطر کیجیے عمل صاحب
حسرتوں سے دنیا میں کھیتیاں نہیں ہوتیں
سنگھ کی بات نکل آئی تو دیکھیں اس بار سنگھ کے گڑھ ناگپور میں کیا ہوا؟ یہ حلقہ اس لیے اہم ہے کہ یہاں سے پہلی بار دیویندر پھڈنویس کے سنگھ پرچارک والد گنگا دھر راؤ پھڈنویس کامیاب ہوکر ایم ایل سی بنے تھے لیکن والد کی برسوں پرانی میراث ناخلف اولاد نے گنوادی۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ جب بی جے پی کے لیے مہاراشٹر میں عام انتخاب جیتنا بہت مشکل ہوا کرتا تھا۔ اس کے او بی سی رہنما مثلاً گوپی ناتھ منڈے اور ایکناتھ کھڑسے تو پھر بھی کسی طرح جیت جاتے تھے لیکن نتن گڈکری جیسے برہمن کے لیے اس کا امکان مفقود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نتن گڈکری نے 1989 کے بعد چار مرتبہ اس حلقہ سے کامیابی حاصل کی اور منوہر جوشی کی سرکار میں وزیر بھی بنے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ایک ایسے آدمی کو جو اسمبلی الیکشن جیتنے کا روادار نہیں تھا آر ایس ایس نے اپنے رسوخ کا استعمال کرکے قومی صدر بنا دیا۔ اب زمانہ بدل گیا نریندر مودی نے سنگھ کی دادا گیری بھی ختم کر دی ہے۔ 2014 میں پہلی بار نتن گڈکری نے ناگپور سے ہی پارلیمانی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی اور مرکزی وزیر بن گئے تھے۔ اسی ناگپور سے اسمبلی کا انتخاب جیت کر دیویندر پھڈنویس 2014 میں وزیر اعلیٰ بن گئے اس لیے بی جے پی کے نقطہ نظر سے ناگپور زبردست اہمیت کا حامل ہے۔
مہاراشٹر وکاس اگھاڑی نے جب ابھجیت ونجاری کو ناگپور ڈویژن کے گریجویٹ انتخابی حلقہ سے نامزد کیا تو دیویندر پھڈنویس نے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے دست راست اور شہر کے میئر سندیپ جوشی کو میدان میں اتار دیا۔ اس وقت بہت سارے لوگ اسے یک طرفہ جنگ سمجھ رہے تھے مگر نتائج نے ان لوگوں کو چونکا دیا۔ اس الیکشن میں ابھجیت نے 55947 ووٹ حاصل کیے جب کہ بی جے پی امیدوار سندیپ کو صرف 41540 ووٹ ملے۔ اس طرح 14 ہزار 440 ووٹوں کے فرق سے سنگھ کا نمائندہ سندیپ دیواکر جوشی اپنے ہی قلعہ میں منہ کے بل گر گیا۔ کانگریس کو 58 سال کے بعد یہ کامیابی ملی۔ پونے کو مہاراشٹر کی ثقافتی راجدھانی کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں سب سے زیادہ تعلیمی ادارے ہیں اور دنیا بھر سے طلبا پڑھنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ پونے کی پیشوائی کے سبب وہاں کا برہمن مشہور ہے۔ اربن نکسل نامی فتنہ پروری کو یہیں سے رائج کیا گیا اور یلغار پریشدکا بہانہ بناکر دانشوروں کو پابندِ سلاسل کرنے کی سازش رچی گئی۔ ویسے یہ شہر جیوتی با پُھلے، گوپال کرشن گوکھلے اور بال گنگا دھر تلک سے بھی منسوب ہے اس لیے یہاں کے گریجویٹ حلقے میں بی جے پی کی شکست کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پونے گریجویٹ انتخابی حلقہ کی سیٹ پر ایم ایل سی انتخاب میں مہاراشٹر وکاس اگھاڑی نے راشٹر وادی کانگریس کے ارون لاڈ کو میدان میں اتارا تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے این ڈی اے امیدوار سنگرام دیشمکھ میدان میں آئے۔ اس دنگل میں ارون لاڈ کو ایک لاکھ 22 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے جبکہ سنگرام دیشمکھ کا سنگرام 73ہزار 321 پر سمٹ گیا۔ اس طرح لاڈ کو 48800 سے زائد ووٹوں کے فرق سے غیر معمولی کامیابی ملی۔ اورنگ آباد ڈویژن گریجویٹ انتخابی حلقہ کا حال بھی مختلف نہیں تھا۔ یہاں سے این سی پی امیدوار ستیش بھانو داس راؤ چوہان کے مقابلے میں بی جے پی کے سریش بورلکر اپنی قسمت آزما رہے تھے۔ اس انتخاب میں جہاں چوہان نے ایک لاکھ 16 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے وہیں بورلکر کی گاڑی 58 ہزار 743 پر رک گئی اور وہ 48,824 ووٹ کے فرق ہار گئے۔ اساتذہ کے حلقوں میں سے دو آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ان میں سے ایک کو مہا وکاس اگھاڑی کی حمایت حاصل تھی۔ بی جے پی کو دھولیہ نندوربار کے حلقہ میں کانگریس چھوڑ کر اس میں آنے والے امیدوار امبریش پٹیل نے کامیابی دلائی۔ امبریش پٹیل کو اب غلط پارٹی میں جانے احساس اور افسوس ہو رہا ہوگا۔ وہ دوبارہ لوٹ کر کانگریس میں آئیں گے تو پھر سے جیت جائیں گے۔
بی جے پی کی اس ہار پر تبصرہ کرتے ہوئے مہاراشٹر کانگریس کے جنرل سکریٹری وترجمان سچن ساونت نے نامہ نگاروں کو یاد دلایا کہ سنگھ پریوار مہاراشٹر وکاس اگاڑھی سرکار کو امر، اکبر، انتھونی‘ کی حکومت قرار دے کر تضحیک کیا کرتا تھا لیکن جس طرح امر اکبر انتھونی فلم ہٹ ہوئی تھی اسی طرح کانگریس، این سی پی اور شیوسینا کا امتزاج بھی کامیاب ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا قانون ساز کونسل کے نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ امر اکبر انتھونی کے اشتراک نے رابرٹ سیٹھ کو کراری شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ سچن ساونت نے بی جے پی کو جمہوریت کے لیے خطرناک قرار دیا اور اس کو اقتدار سے دور رکھ کر قومی مفادات کی خاطر کانگریس، این سی پی اور شیوسینا کے اشتراک عمل کی ضرورت پر زور دیا۔ اس انتخاب میں این سی پی کو دونوں مقامات پر زبردست فرق کے ساتھ کامیابی ملی مگر اس کے رہنما شرد پوار نے اس کا کریڈٹ یکساں طور تمام فریقوں میں تقسیم کیا نیز، ناگپور میں کانگریس کی کامیابی کو قومی رجحان کی تبدیلی کا غماز بتایا۔
مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی رہنما دیویندر پھڈنویس نے پہلے تو اس انتخاب کو اپنے وقار کا مسئلہ بنایا مگر نتائج کے بعد اپنی شکست کا اعتراف بھی کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ مہا وکاس اگھاڑی کی مشترکہ طاقت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔ انسان کے دماغ میں جب کبر وغرور گھس جاتا ہے تو اس کے سارے اندازے غلط ہو جاتے ہیں۔ پھڈنویس نے نامہ نگاروں سے کہا ’’اب ہم جان چکے ہیں کہ وہ کتنی بڑی لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ ہم اگلے انتخابات کے لیے بہتر تیاری کریں گے‘‘ اس بات کو جاننے میں پھڈنویس نے ایک سال لگا دیا۔ اس ناکامی کا ٹھیکرا ادھو ٹھاکرے انتظامیہ کے سر پھوڑتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ ریاستی انتظامیہ نے ایم ایل سی انتخابات کے لیے ووٹرز کی رجسٹریشن کروایا تھا جس میں ان کے خاندان کے کچھ افراد سمیت مرکزی وزیر نتن گڈکری کا نام بھی انتخابی فہرست میں شامل نہیں تھا جبکہ فہرست میں نام شامل کرنے کے لیے وقت پر فارم جمع کروائے گئے تھے۔ رائے دہندگان کی فہرست الیکشن کمیشن نے انٹرنیٹ پر شائع کی تھی۔ وہ لوگ اگر اس میں اپنا نام جانچ کر تھوڑی سی محنت کرتے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا تھا اس لیے اب اس کا افسوس بے معنیٰ ہے۔ پھڈنویس کو چاہیے کہ اس طرح کی بہانے بازی کا سہارا لینے کے بجائے شکست کے وجوہات کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لیں۔ مہاراشٹر کے اندر بی جے پی کی پسپائی کے پیچھے مندرجہ ذیل عوامل کار فرما رہے ہیں:
سشانت سنگھ راجپوت کی خود کشی: بی جے پی نے اس خود کشی کو بہاری وقار کا مسئلہ بنا کر ریاستی انتخاب جیتنے کا گھناؤنا منصوبہ بنایا۔ اس بہانے مہاراشٹر سرکار کو بد نام کر کے کانگریس اور آر جے ڈی کو ولن بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس مقصد کے لیے میڈیا کو آلہ کار بنایا گیا اور اس کام میں ارنب گوسوامی پیش پیش تھے۔ اس میں سی بی آئی، ای ڈی اور این سی بی کو لگا کر معاملے کو طول دیا گیا لیکن جب بہاری عوام نے اس معاملے میں دلچسپی نہیں لی تو اسے لپیٹ کر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ اس وقت بی جے پی والے یہ بھول گئے تھے کہ اس بجرنگی تماشے کا مہاراشٹر کے عوام پر کیا اثر ہو رہا ہے۔ ان کی حکومت اور پولیس کو کیوں بلا وجہ بدنام کیا جا رہا ہے؟ یہی پھڈنویس جو ابھی شکست کا جائزہ لینے کی بات کر رہے ہیں بہار کے لیے پارٹی کی جانب سے نگراں بنائے گئے تھے۔ اس وقت اگر وہ پارٹی ہائی کمان کو بتاتے کہ اس طرح ہم لوگ مراٹھی عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ ان کی تضحیک و تذلیل کو اگر سختی سے روک دیا جاتا تو بہت ممکن تھا کہ آج یہ نوبت نہیں آتی۔ مہاراشٹر کے پڑھے لکھے نوجوانوں نے سوچا کہ ٹھیک ہے وقت آنے پر انتقام لے لیا جائے گا اور جب انہیں موقع ملا تو انہوں نے سود سمیت حساب وصول کر لیا۔ ارنب گوسوامی کی طرف داری: سشانت سنگھ راجپوت کے بعد انوائے نایک کی خود کشی کا معاملہ سامنے آیا۔ اس بار ارنب گوسوامی کٹہرے میں کھڑے تھے۔ خود کشی سے قبل انوائے نایک کی تحریر کردہ وصیت میں دو اور ناموں کے ساتھ ارنب گوسوامی کا نام بھی تھا۔ ممبئی پولیس نے اس پر وہی کارروائی کی جس کا مطالبہ وہ سشانت کے معاملے میں کرتے رہے تھے۔ اس بابت پہلے تو عدالت عظمیٰ کا رویہ مثبت تھا۔ اس نے ارنب گوسوامی کی درخواست سننے کے بجائے انہیں عدالت عالیہ کا راستہ دکھا دیا لیکن ان کی گرفتاری کے بعد نقشہ بدل گیا۔ ارنب گوسوامی کی گرفتاری میں ان تمام ٹیلی ویژن کے اینکرس کو یہ دھمکی پوشیدہ تھی کہ اگر انہوں نے جھوٹ کا بازار گرم رکھا تو ایک نہ ایک دن ان کی بھی گردن ناپی جائے گی۔
ایسی مرکزی حکومت جس کا وجود ہی میڈیا کے جھوٹ پر ٹکا ہوا ہے وہ بھلا یہ خطرہ کیسے مول لے سکتی تھی۔ ارنب گوسوامی کی سماعت چھٹی کے دن ہوئی اور نہ صرف ان کی فوری رہائی کا حکم دیا گیا بلکہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد دو ماہ تک ان کی گرفتاری پر روک لگا دی گئی۔ یہ تو ریاستی سرکار کے ساتھ ساتھ ممبئی پولیس اور بامبے ہائی کورٹ کی بھی توہین تھی۔ مہاراشٹر کے لوگ جانتے تھے کہ مرکز میں بی جے پی حکومت کے سبب ارنب گوسوامی پر یہ نظر کرم اور ایک مراٹھی آرکیٹیکٹ کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں بی جے پی مظلوم نایک کے بجائے ظالم ارنب کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ اس کے جواب میں صوبے کے رائے دہندگان نے یہ ستم کیا کہ بی جے پی کے اپنے قلعوں میں اسے ڈھیر کر دیا۔ نیوٹن کا تیسرا قانون یہی ہے کہ ہر عمل کا یکساں اور الٹا ردعمل ہوتا ہے۔ کاش کے یہ بات پھڈنویس کی سمجھ میں آئے اور وہ اصلاح حال کی جانب توجہ کریں ورنہ اس طرح کے جھٹکے آگے بھی لگتے رہیں گے۔
پسماندہ طبقات کے ساتھ زیادتی:بی جے پی کی تیسری غلطی پارٹی کے اندر پسماندہ طبقات کے رہنماؤں کے ساتھ برا سلوک ہے۔ مہاراشٹر وہ ریاست ہے جہاں بی جے پی کو گوپی ناتھ منڈے اور ایکناتھ کھڑسے جیسے پسماندہ طبقات کے رہنماؤں نے اپنا خون پسینہ ایک کر کے پروان چڑھایا لیکن جب ملائی کھانے کا وقت آیا تو ان کو کنارے کر دیا گیا۔ دیویندر پھڈنویس چونکہ ایکناتھ کھڑسے، پنکجا منڈے اور ونود تاوڑے جیسے رہنماؤں کو اپنا حریف سمجھتے تھے اس لیے ان سب کو ایک ایک کر کے ٹھکانے لگایا گیا۔ مہاراشٹرکا او بی سی نوجوان چپ چاپ یہ کارستانی دیکھتا رہا۔ ایکناتھ کھڑسے نے اپنی ناراضگی کا اظہار کئی بار کیا لیکن مغرور پھڈنویس نے کبھی اس کی پروا نہیں کی بالآخر انہوں نے انتہائی اقدام کرتے ہوئے پارٹی چھوڑ دی تو پھڈنویس اور ان کے چہیتے صوبائی صدر پاٹل نے الٹا سکون کا سانس لیا۔ وہ بھول گئے کہ یہ ایک فرد نہیں بلکہ پورے طبقے کا نمائندہ ہے اور اس کی توہین پوری برادی کی توہین ہے۔ ان نتائج میں یقیناً کہیں نہ کہیں اس زیادتی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔
یوگی کی بالی ووڈ یاترا: بی جے پی کے لیڈر یوگی ادتیہ ناتھ نے ممبئی آ کر فلمی ہستیوں سے ملاقات کی اور انہیں اتر پردیش آنے کی دعوت دی۔ اگر چہ ہر صوبے کو اپنے یہاں کسی بھی صنعت کو فروغ دینے کا حق ہے لیکن یہ کام وزیر اعلیٰ نہیں کرتا۔ یہ سرکاری افسران کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مختلف سہولتیں مہیا کر کے لوگوں سے رابطے کریں اور ان کو اپنے صوبے میں بلائیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ تجارت کا فروغ نہیں بلکہ سیاست کر رہے تھے اور اتر پردیش کے لوگوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ وہ بجرنگ بلی کی مانند بالی ووڈ کی سنجیونی بوٹی اٹھا کر لے آئیں گے۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ مہاراشٹر کا نوجوان اس حرکت کو کس نگاہ سے دیکھے گا۔ کیا وہ ایسا نہیں سوچے گا کہ بی جے پی کو اقتدار سے محروم کرنے کی انہیں یہ سزا دی جا رہی ہے کہ مہاراشٹر سے بالی ووڈ کو ان سے چھینا جا رہا ہے۔ اس طرح کے پیغام کا کسی بھی صوبے کے نوجوانوں پر یہی اثر پڑے گا اور وہ اس کا وقت آنے پر مناسب جواب دے گا چنانچہ مہاراشٹر کے تعلیم یافتہ لوگوں نے یہی کیا اور بی جے پی کو سبق سکھا دیا۔ ادھو ٹھاکرے کی سنجیدگی: مہاراشٹر کے عوام ایک طرف تو بی جے پی والوں کی نوٹنکی دیکھ رہے تھے تو دوسری جانب مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے سنجیدگی کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کے طریقوں کو بھی دیکھ رہے تھے۔ اس فرق کو عوام نے محسوس کیا کہ کورونا وائرس کا سب سے زیادہ اثر مہاراشٹر میں تھا اس کے باوجود ادھو ٹھاکرے نے اس پر کوئی سیاست نہیں کی یہاں تک کہ مرکز کے خلاف محاذ آرائی سے بھی گریز کیا۔ وہ بڑی خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے۔ انہوں نے کئی سخت فیصلے کیے لیکن اس کے لیے نہایت دردمندی کے ساتھ اپنی عوام کو اعتماد میں بھی لیا۔ اس دوران کئی تہوار آئے لیکن انہوں نے کسی طبقے کی بے جا طرف داری نہیں کی۔ پال گھر سے ان کو اشتعال دلانے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا وہ حالیہ اذان کے مقابلوں کی تجویز تک جاری ہے لیکن انہوں نے ہر مرتبہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اس طرح کی خوبیاں عوام پر دیر پا اثر ڈالتی ہیں۔ بی جے پی ہمیشہ جذبات کو اچھال کر انتخابی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس بار چونکہ اسے مہاراشٹر میں اس کا موقع نہیں ملا اس لیے عوام نے ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر ووٹ دیا جس کے نتیجے میں بی جے پی چاروں خانے چت ہو گئی۔
اس تناظر میں کابینی وزیر برائے اقلیتی بہبود نواب ملک کا یہ بیان درست معلوم ہوتا ہے کہ مہاراشٹر میں بی جے پی کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس انتخاب میں مہا وکاس اگھاڑی کے امیدوراوں کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ تعلیم یافتہ رائے دہندگان اگھاڑی حکومت کے قیام اور اس کے ایک سال کے کام کاج سے مطمئن ہیں۔ نواب ملک نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی عام لوگوں کی نہیں بلکہ صنعتکاروں وسرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور ان کے مفاد کی نگہبانی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر پارٹیوں سے نکل کر بی جے پی میں شامل ہونے والے رہنماؤں کو وہ اطمیان دلاتے رہے ہیں کہ ریاست میں جلد ہی ان کی حکومت قائم ہوگی، مگر اس انتخابی ہزیمت کے بعد اب ان کے حوصلے پست ہو گئے ہیں جس کا اثر تنظیمی سطح پر بھی ظاہر ہوگا۔ القصہ مختصر یہ کہ آج مہاراشٹر میں رابرٹ سیٹھ کا جو حال ہوا ہے کل دلی کے ڈان اور اس کے نٹور لال کا بھی ہوگا۔
***
مہاراشٹر کانگریس کے جنرل سکریٹری وترجمان سچن ساونت نے یاد دلایا کہ سنگھ پریوار مہاراشٹر وکاس اگاڑھی سرکار کو امر، اکبر، انتھونی‘ کی حکومت قرار دے کر تضحیک کیا کرتا تھا لیکن جس طرح امر اکبر انتھونی فلم ہٹ ہوئی تھی اسی طرح کانگریس، این سی پی اور شیوسینا کا امتزاج بھی کامیاب ہو چکا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020