الہ آباد ہائی کورٹ نے سی اے اے مخالف احتجاج کی اجازت کے لیے داخل درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی کہ ”یہ قومی مفاد میں نہیں ہے”
لکھنؤ، فروری 08— الہ آباد ہائی کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنے کی اجازت لینے کی درخواست کو مسترد کردیا۔ عدالت نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا احتجاج "قومی مفاد میں نہیں ہے۔”
انھوں نے کہا کہ درخواست گزار کو کسی بھی طرح ریلیف دینا قومی مفاد میں نہیں ہے۔ اگر درخواست گزار ہندوستان کا شہری ہے تو اسے ہر قیمت پر امن قائم رکھنا چاہیے۔ ہم اس معاملے میں مداخلت پر آمادہ نہیں ہیں۔ رٹ پٹیشن میں کوئی اہلیت نہیں ہے اور اسی کے مطابق اسے مسترد کردیا گیا ہے۔
یہ درخواست اتر پردیش کے ضلع فیروز آباد کے ایک رہائشی محمد فرقان نے دائر کی ہے۔ فیروز آباد ضلعی حکام کی جانب سے بعض طلبا کی سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے کی درخواست مسترد کرنے کے بعد انھوں نے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔
سماعت کے دوران ریاستی حکومت کے وکیل نے اس درخواست کی مخالفت یہ کہتے ہوئے کی کہ 20 دسمبر 2019 کو ہونے والے تشدد میں عوامی املاک کو کافی نقصان پہنچا ہے اور درخواست گزار کی درخواست پر اجازت دینے سے پھر اسی صورت حال کا مقابلہ ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ 19-20 دسمبر کو پورے اترپردیش میں سی اے اے کے خلاف بڑے مظاہرے ہوئے۔ کچھ احتجاج پرتشدد ہوگئے جب مظاہرین نے مبینہ طور پر آتش گیر گاڑیوں اور دیگر عوامی املاک کو جلایا۔ کانپور، فیروز آباد، سنبھل، میرٹھ اور دیگر مقامات پر زیادہ تر پولیس فائرنگ سے 20 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ ہزاروں افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور سینکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران پولیس کی زیادتیوں کی اطلاعات پر ازخود نوٹس لیا ہے اور ریاست سے ان الزامات پر 17 فروری تک رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔
وہیں 50 سے زائد مقامات پر سی اے اے-این آر سی-این پی آر کے خلاف چوبیس گھنٹے جاری رہنے والے مظاہرے کئی ہفتوں سے جاری ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ میں 15 دسمبر سے ہزاروں افراد، جن میں زیادہ تر خواتین ہیں، لگتار احتجاج کر رہے ہیں۔