فرزانہ صادق
اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا تنہا مالک و پروردگار ہے۔ اسی نے ساری کائنات کو پیدا کیا۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کی تسبیح و تحمید میں لگا ہوا ہے۔ قرآن میں ہے۔
وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ (اسر:ا۴۴)
اور ایسی کوئی چیز نہیں جو اللہ کی حمد وتسبیح میں لگی ہوئی نہ ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو‘‘۔
اللہ نے انسان کو نے اشرف المخلوقات بنا کر پیدا کیا اور زمین پر اسے خلیفہ بنایا۔ دنیا کی بہت سی چیزوں کو اس کے لیے مسخر کر دیا۔ اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ اس پر بے انتہا احسانات کیے۔ وہ اپنی پوری زندگی میں اس کے احسانات تلے دبا ہوا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وہ اللہ کی یاد سے کسی وقت بھی غافل نہ رہے اور ہر وقت اس کی تسبیح وتحمید میں لگا رہے۔
قرآن مجید میں اہل ایمان کو اللہ کو بکثرت یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا (احزاب:۴۱)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو‘‘
مومن کی زبان ہر وقت ذکر الٰہی سے تر ہونی چاہیے۔ عبادات اور معاملات کا کوئی شعبہ اس برکت سے محروم نہ رہنا چاہیے۔ کوئی لمحہ یاد الٰہی سے غافل نہ چاہیے اور ہر حال میں اللہ کی یاد دل میں موجود ہونی چاہیے۔
سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اپنے رب کا ذکر کرو، اپنے دل میں گڑگڑا کر اور خوف کی کیفیت کے ساتھ اور یہ کہ ان لوگوں کی طر ح نہ ہوجاو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔
سچا مومن ہر وقت اپنے رب کو یاد رکھتا ہے۔ اس کے احسانات اور انعامات کا شکر ادا کرتا رہتا ہے۔ وہ کبھی خدا سے غافل نہیں ہوتا۔ خوشی میں غم میں، تنگدستی میں خوشحالی میں، بیماری میں صحت مندی میں ہر دم وہ اپنے رب کو یاد کرتا رہتا ہے اور کائنات کی ایک ایک چیز پر غور وفکر کرتا ہے جس کے ذریعہ اسے اللہ کا قرب اور معرفت حاصل ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا ہے:
بلاشبہ زمین وآسمان کی پیدائش میں اور رات دن کی آمد ورفت میں ان دانشمندوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو کھڑے بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ زمین وآسمان کی تخلیق میں غور وفکر کرتے ہیں (اور پکار اٹھتے ہیں) اے پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں پیدا کیا ہے۔ تو پاک ہے اس سے کہ بے نتیجہ کام کرے۔ پروردگار! پس تو ہمیں جہنم کی آگ سے بچالے۔ (آل عمران:۱۹۰ تا ۱۹۱)
دنیا کا عیش وعشرت، مال ودولت کی کثرت اور اولاد کی محبت میں پڑ کر اکثر انسان خدا کو بھول جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کو سورہ منافقون میں تنبیہ فرمائی ہے کہ: ’’اے ایمان والو! کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں تمہاری دولت اور اولاد یاد الٰہی سے غافل کر دے۔ اگر تم اس غفلت میں مبتلا ہو گئے تو سمجھ لو کہ بہت بڑے گھاٹے اور نقصان میں پڑ گئے‘‘۔
دنیا کے معاملات میں پڑ کر انسان کو غفلت لاحق ہوتی رہتی ہے اور قلب پر اللہ سے دوری کی وجہ سے ایک طرح کا میل جم جاتا ہے۔ اللہ کی یاد سے غفلت دور ہو جاتی ہے اور دل آئینے کی طرح صاف وشفاف ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ حضورﷺ نے فرمایا:
’’ہر چیز کا صیقل ہے اور دلوں کا صیقل اللہ کی یاد ہے‘‘ (بیہقی)
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ذکر الٰہی کو سے سب سے عمدہ اور پاکیزہ عمل قرار دیا۔ حضرت ابودرداؓ کی روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں بتاوں تمہارے اعمال میں تمہارے شہنشاہ کے نزدیک سب سے بہتر اور پاکیزہ عمل کونسا ہے جو تمہارے لیے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرے والا ہے جو تمہارے لیے بہتر ہے اللہ کی راہ میں) سونا چاندی خرچ کرنے، نیز تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ تمہاری دشمن سے مڈ بھیڑ ہو پھر تم ان کی گردن مارو اور وہ تمہاری گردن ماریں۔ صحابہؓ نے عرض کیا ہاں! ایسا عمل ضرور بتائیے۔ آپ نے فرمایا یہ اللہ کا ذکر ہے‘‘۔
ایک حدیث قدسی میں اللہ فرماتا ہے کہ:
’’میں بندہ کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کی وہ مجھ سے امید رکھتا ہے۔ وہ جب بھی مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کی وہ مجھ سے امید رکھتا ہے۔ وہ جب بھی مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی مجلس میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں‘‘۔
ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
جب بھی اور جہاں بیٹھ کر کچھ بندگان خدا اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے ہر طرف سے ان کو گھیر لیتے ہیں۔ رحمت خداوندی ان کو اپنے سائے میں لے لیتی ہے۔ ان کے دلوں کو اطمینان اور سکون کی دولت سے بھردیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے ملائکہ مقربین میں کرتا ہے‘‘
ذکر کی اسی اہمیت کی وجہ سے حضورﷺ خود بھی اس کا بڑا اہتمام فرماتے تھے اور اپنی امت کو بھی اس کی بڑی ترغیب دی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ ہر وقت اللہ کو یاد کرتے تھے۔ ایک شخص نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ نیکی کے کام بے شمار ہیں اور ان سب کا کرنا میری طاقت سے باہر ہے اس لیے مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس پر میں جم جاوں اور وہ مختصر بھی ہوتا کہ اس کو یاد رکھ سکوں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ: تم ہر وقت اپنی زبان ذکر الٰہی سے تر رکھو۔
ایک صحابیؓ نے پیارے نبی کریمﷺ سے دریافت کیا۔ جہاد کرنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کس کو ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا
’’ان میں جو سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرنے والا ہو‘‘
صحابیؓ نے پوچھا۔ اور روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گا؟آپ نے فرمایا
’’ان میں سے جو سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرنے والا ہو‘‘
پھر ان صحابیؓ نے اسی طرح نماز، زکوۃ حج اور صدقہ کرنے والوں کے بارے میں سوال کیا۔ اور حضورﷺ کی طرف سے یہی جواب ملا کہ ’’ان میں جو سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرنے والا ہو‘‘
شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ ہر طرح سے انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کرنے کی کوشش میں لگارہتا ہے۔ اگر انسان اللہ کو یاد کرلیتا ہے تو شیطان ہٹ جاتا ہے اور اگر غافل پڑا رہتا ہے تو اسے طرح طرح کے وساوس میں مبتلا کرتا ہے چنانچہ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں۔
شیطان آدمی کے دل پر پہرہ جمائے پڑا رہتا ہے جب وہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو وہ ہٹ جاتا ہے اور جب وہ غفلت کا شکار ہوتا ہے تو اسے طرح طرح کے وساوس میں مبتلا کرتا رہتا ہے‘‘ (بخاری)
ذکر کی برکت سے انسان اللہ کی معیت میں ہو جاتا ہے اور شیطان سے اس کو خلاصی مل جاتی ہے۔
یہ تو ذکر الٰہی کے فضائل ثمرات اور نتائج ہیں۔ اس سے غفلت اور بے پروائی کے برے انجام سے بھی حضورﷺ نے خبردار کردیا ہے ۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
’’جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور اس نے وہاں اللہ کو یاد نہیں کیا، اس کے لیے یہ مجلس بڑی حسرت اور خسران کا باعث ہوگی اور اسی طرح جو شخص کہیں لیٹا اور وہاں اس نے اللہ کو یاد نہیں کیا تو یہ لیٹنا اس کے لیے بڑی حسرت اور خسران کا باعث ہوگا‘‘۔
ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
اللہ کے ذکر کے بغیر زیادہ گفتگو نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ اس سے دل میں قساوت (یعنی سختی) پیدا ہو جاتی ہے۔ اور لوگوں میں اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور وہ شخص ہے جس کا دل سخت ہوگیا ہو‘‘۔
اللہ کے ذکر کے موثر ذرائع نماز اور تلاوت قرآن ہیں۔ لیکن حدیث کے اندر اس مقصد کے لیے بعض خاص کلمات کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ کی یاد کو دل میں بسائے رکھنے کے لیے ان کا خاص طور پر اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔
سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم
نبی ﷺ نے اسے سب سے افضل کلام کہا ہے (مسلم)
دوسرا کلمہ جس کی حدیث میں بڑی فضیلت آتی ہے۔
سبحان الله وبحمده ہے۔ نبی ﷺ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ جو شخص اسے دن میں سو مرتبہ پڑھے اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں خواہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ‘‘(متفق علیہ)
سبحان الله وبحمده ، سبحان الله العظيم
ان کے متعلق نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’یہ دو کلمے زبان کے اعتبار سے تو بہت آسان ہیں لیکن اللہ کی میزان میں بہت بھاری اور رحمان کے نزدیک بہت محبوب ہیں ‘‘ (متفق علیہ)
”لاَ اِلٰہَ اَلَّا اللہُ وَحدَہُ لاَ شَرَیکَ لَہُ لَہُ الُملکُ وَلَہُ الحَمدُ وَھُوَ علٰی کل شَئٍ قَدَیر“
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں ’’کہ جو شخص ان کلمات کو دن میں سو مرتبہ کہے اس کے لیے یہ دس غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور سو خطائیں مٹادی جاتی ہیں اور وہ دن بھر شیطان سے امان میں رہتا ہے۔ (متفق علیہ)
لاحول ولاقوة الا بالله
نبی کریمﷺ نے ایک حدیث میں اسے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ قرار دیا ہے (ترمذی)
ہمیں چاہیے کے سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے ہر وقت ان کلمات کو پڑھتے رہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنی یاد ہمارے دلوں میں تازہ رکھے اور دن رات کثرت کے ساتھ اپنا ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
***
مومن کی زبان ہر وقت ذکر الٰہی سے تر ہونی چاہیے۔ عبادات اور معاملات کا کوئی شعبہ اس برکت سے محروم نہ رہنا چاہیے۔ کوئی لمحہ یاد الٰہی سے غافل نہ چاہیے اور ہر حال میں اللہ کی یاد دل میں موجود ہونی چاہیے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 جولائی 2021