القاعدہ اورمغربی بنگال: نوجوانوں کی گرفتاری پر اٹھتے سوال
اے پی سی آر کی چشم کشا رپورٹ ۔انتہائی پسماندہ، غریب ،مزدور نوجوانوں پر دہشت گردی کے سنگین الزامات
آسیہ تنویر
ایک طرف تفتیشی ادارے نوجوانوں پر انتہائی سنگین الزامات عائد کر رہے ہیں اور قومی میڈیا کا ایک حلقہ بھی بد دیانتی پر اتر آیا ہےتو دوسری طرف ملزموں کے اہل خانہ کی سنیں اور زمینی حقائق کو دیکھیں تو کسی عالمی انتہا پسندی سے ان نوجوانوں کی وابستگی کے بارے میں کیے جا رہے بلند بانگ دعوؤں کی پول کھلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ زمینی حقائق، غریب معصوم، پسماندہ ترین علاقوں کے رہنے والے والدین کی بپتا، گاؤں والوں کی گواہیاں بتا رہی ہیں کہ تفتیشی ایجنسیوں کی جانب سے جن نوجوانوں کو القاعدہ سے جوڑا جا رہا ہے حقیقت میں وہ کیا ہیں۔ ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد الصمد اے پی سی آر مغربی بنگال کے کنوینر نے گرفتار شدگان کے احوال اور کوائف کی تفصیلات سے واقف کروایا ہے۔
قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے مغربی بنگال کے مرشد آباد کے مختلف اضلاع سے 19ستمبر 2020کو القاعدہ کے عسکریت پسند ہونے کے شبے میں جن 10 نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے ان میں سے 7 کو مرشد آباد اور دیگر 3کو کیرالا سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے اے پی سی آر (Association For Protection Of Civil Rights)،
اے پی ڈی آر (Association For Protection Of Democratic Rights) اور بَندی مکتی کمیٹی سمیت مختلف تنظیموں نے مشترکہ طور پر حقائق کا پتا چلانے کے لیے 27ستمبر 2020کو مرشد آباد کے مختلف اضلاع کا دورہ کیا۔ تین دن تک ان علاقوں کا دورہ کرکے ویڈیوز اور انٹرویوز سمیت تمام حقائق جمع کیے۔ پہلے دن مشترکہ وفد کے 18 اراکین نے اس علاقے کا دورہ کیا۔ اس کے بعد مزید دو دن میں، اے پی سی آر کے تین رکنی وفد نے تفصیلی معلومات اکٹھی کیں۔ گرفتار شدہ نوجوانوں کے لواحقین ان کے پڑوسیوں اور گاؤں کے افراد سے گفتگو کرتے ہوئے تمام تفصیلات اکٹھی کیں۔ ان کی جمع کی گئی اطلاعات کے مطابق تفصیلات کچھ اس طرح ہیں۔ان میں ناظم شکیب، مرشد آباد ضلع کے ڈومکال تھانے کے ماتحت گنگاداس پارا گاؤں میں رہتا ہے۔ وہ ڈومکال بسنت پور کالج میں دوسرے سال کا طالب علم تھا، اس کی عمر قریب 22 سال تھی۔ وہ کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کر رہا تھا۔ 19ستمبر 2020کی صبح تقریبا تین بجے، این آئی اے کی ٹیم نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا اور اسے القاعدہ کا دہشت گرد ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا۔ ناظم کی والدہ نے کہا میرا بیٹا مکمل طور پر بے قصور ہے۔ انہوں نے کہا کہ این آئی اے کی ٹیم نے بیٹے سے پوچھا کہ داڑھی کیوں رکھی ہے؟ اس کے بعد انہوں نے تقریباً چالیس منٹ تک گھر کی مکمّل تلاشی لی اور اس کا ایڈمٹ، مارک شیٹ، ایک موبائل فون اور ایک ٹوٹا ہوا لیپ ٹاپ ضبط کرلیا۔ اس کے علاوہ انہیں کچھ اور نہیں ملا۔ ان کے مالکِ مکان کو تک یہ نہیں بتایا گیا کہ گرفتاری کی وجہ کیا ہے۔ پڑوسیوں کے مطابق ناظم ایک بہت ہی اچھا اور شائستہ لڑکا تھا اور وہ ہر وقت اپنی پڑھائی میں مصروف رہتا تھا، ان کے گھر سے، کالج تک کی تعلیم حاصل کرنے والا واحد لڑکا تھا اور وہ باقاعدہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد بھی جایا کرتا تھا۔ وہ ایسا کام نہیں کرسکتا۔ وہ بیمار بھی ہے۔ یرقان اور معدے کی پتھری کے مرض سے دوچار اس کے والد کھیتی باڑی کی آمدنی سے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ چھاپے اور سامان ضبط کرنے کے بعد، این آئی اے نے ناظم کے بڑے بھائی کو تین خالی پولی تھین پیکٹوں پر دستخط کرنے پر مجبور کردیا۔ گھر میں کچھ دعاؤں کتابیں موجود تھیں جن کو میڈیا میں جہادی پرچوں کے طور پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ لڑکے کے بینک اکاؤنٹ میں کسی بھی مشتبہ رقم کے آنے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔لوئی یان احمد مرشدآباد ضلع کے ڈومکال تھانے کے تحت جیرام پور گاؤں میں رہتے ہیں۔ وہ ڈومکال بسنت پور کالج کے بجلی کے محکمہ میں جز وقتی ملازم ہیں، ان کی عمر تقریباً 36 سال ہے، وہ غیر شادی شدہ ہیں۔ وہ اپنی ضعیف والدہ، بہن اور اس کی بیٹی کے ساتھ ایک عارضی جھونپڑی میں انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کالج کی نوکری سے واپسی کے بعد وہ الیکٹریشن کی نوکری کرتے تھے اور اپنے کنبے کی کفالت کے لیے کچھ پیسے کما لیتے تھے۔ این آئی اے نے 19 ستمبر 2020 کی صبح تقریباً 2 بجے لوئی یان احمد کے گھر پر چھاپہ مارا اور انہیں القاعدہ کا دہشت گرد ہونے کے شبہ میں گرفتار کرلیا۔ ان کی ماں نے روتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا مکمل طور پر بے قصور ہے۔ این آئی اے زبردستی ہمارے گھر میں داخل ہوئی، میرے بیٹے کو اٹھایا اور مارا پیٹا۔ اس کے بعد انہوں نے 30 منٹ تک گھر کی تلاشی لی اور اس کا شناختی کارڈ، مارک شیٹ اور ایک موبائل فون ضبط کرلیا۔ انہیں ہمارے گھر سے کچھ نہیں ملا لیکن خبروں میں جھوٹ بولا گیا کہ انہیں بم بنانے کا سامان ملا۔ ان کی بہن نے بتایا کہ میرا بھائی الیکٹریشن کی حیثیت سے کام کرتا تھا اس لیے اس کے پاس بجلی کے اوزار موجود تھے جسے انہوں نے انہیں بم بنانے کے اوزار کے طور پر دکھایا۔ ہمسایوں کے مطابق ان میں سے کسی کو بھی یقین نہیں ہے کہ لوئی یان کسی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ ہے۔ وہ بہت ایماندار لڑکا تھا، پڑوسی سب اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ اس کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اس نے سب کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھے تھے۔ کالج کے پرنسپل بھی اس سے بڑی عزت سے پیش آیا کرتے تھے حتیٰ کہ ایک موبائل انہیں بطور تحفہ بھی دیا گیا تھا۔ ان کے ساتھیوں نے بھی لوئی یان کے آداب وأخلاق کی تعریف کی۔ پڑوسیوں کے مطابق لوئی یان ایک نیک انسان تھا وہ دہشت گرد کیسے ہوسکتا ہے؟ میڈیا ان کے بارے میں یہ جھوٹ پھیلا رہا ہے کہ ان کے ٹول باکس میں ایک ریوالور ملا تھا لیکن لوئی یان کی موٹر سائیکل میں کوئی ٹول باکس ہی نہیں تھا۔
المامون کمال مرشِد آباد میں ڈومکال تھانے کے تحت نوڈاپارہ گاؤں میں رہتے تھے۔ وہ چار بھائیوں میں تیسرے ہیں۔ عمر تقریبا 34 سال ہے اور کیرالا میں ایک مہاجر مزدور کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ پچھلے دو سالوں سے وہ گاؤں میں درزی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ کبھی کبھار وہ میسن کی حیثیت سے بھی کام کرلیا کرتے تھے۔ وہ اپنے گھر کے قریب ایک چھوٹا سا شیڈ بنا کر کچھ بچوں کو عربی کی تعلیم دیتے تھے۔ وہ وقتاً فوقتاً چندہ اکٹھا کر کے اسے مدرسے میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ این آئی اے کی ٹیم نے انہیں 19 ستمبر کی صبح 7 بجے کے قریب القاعدہ کے عسکریت پسند ہونے کے شبہ میں گرفتار کر لیا۔ المامون کمال کی اہلیہ نے روتے ہوئے کہا میرا شوہر مکمل طور پر بے قصور ہے۔ انہوں نے کہا کہ این آئی اے کی ٹیم دروازہ توڑ کر گھر میں داخل ہوئی اور میرے شوہر کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے تمام مکانات کی تلاشی لی اور حدیث کی کتابیں، مدرسے کے کوپن (رسید بک) ان کے ووٹر کارڈ، آدھار کارڈ اور ایک موبائل فون ضبط کر لیا۔ اس کے علاوہ انہیں ان کے پاس اور کچھ نہیں ملا۔ ہمارے گھر میں کچھ نہ ملنے کے باوجود میرے شوہر کو این آئی اے نے اٹھا لیا۔ میرے شوہر کے پاس بڑا موبائل فون نہیں ہے، وہ اس موبائل فون سے واٹس ایپ کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟ ایک اخبار کے مطابق وہ مدرسے کے نام پر رقم اکٹھا کرکے عسکریت پسند تنظیم کے لیےکام کرتے تھے جبکہ پڑوسیوں کے مطابق یہ ایک مکمل جھوٹ ہے۔ واقعتاً وہ مدرسے کے لیے ہی رقم جمع کرتے تھے لیکن ان کے بینک اکاؤنٹ میں کوئی مشکوک لین دین نہیں ملا۔ ان کے گھر والوں نے بینک ٹرانزیکشن کی تفصیلی کاپی تھانے میں جمع کروائی ہے۔ ان کے والد محمد فراز علی 1962 میں چین اور ہندوستان کی جنگ کے دوران ایک رضاکار فوجی کی حیثیت سے ہندوستانی فوج میں شامل ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا میں نے ملک کے لیے جنگ لڑی، میرا بیٹا المامون میرا خون ہے وہ کبھی بھی ملک کے غدار کے طور پر کام نہیں کر سکتا تاہم، اگر وہ قصوروار ثابت ہوا تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ لیکن اگر وہ بے قصور پایا جاتا ہے تو اسے رہا کردیا جانا چاہیے۔
مینول منڈل مرشد آباد میں جلنگی تھانے کے تحت گاؤں مدھوبنا کا رہائشی ہے۔ وہ اپنے تین بھائیوں کے ساتھ کیرالا کے ایک ریستوراں میں کام کرتا تھا۔ اس کی عمر قریب 29 سال ہے۔ اس کے والد کا نام سرفن منڈل تھا جو کسان ہے۔ اس کے والد نے بہت محنت کی اور کسی نہ کسی طرح اپنے بیٹے کو آٹھویں جماعت تک تعلیم دلائی۔ 19ستمبر 2020 کو این آئی اے کی ٹیم نے صبح 4 بجے کے لگ بھگ ان کے گھر پر چھاپہ مارا اسے پیٹا اور اسے گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ انہوں نے تقریبا 30 منٹ تک مکان کی تلاشی لی اور اس کا ووٹر کارڈ، آدھار کارڈ اور دو موبائل فون ضبط کرلیے جن میں سے ایک اس کی ماں کا تھا۔ اس کے بینک اکاؤنٹ میں کوئی مشکوک لین دین نہیں ملا۔ انہوں نے بینک ٹرانزیکشن کی تفصیلی کاپی تھانے میں جمع کروائی ہے۔ پڑوسیوں کے مطابق وہ ایک بہت ہی سیدھا سادہ لڑکا تھا۔ اس کا کبھی کسی سے جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ وہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھتا ہے۔ وہ کبھی بھی عسکریت پسندوں کا کام نہیں کرسکتا۔ عسکریت پسند ہونا تو دور اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ دہشت گرد کیا ہوتے ہیں۔ گاؤں کے لوگ مینول کی گرفتاری پر بہت حیران تھے۔
یعقوب بسواس مرشد آباد ضلع کے جلنگی تھانے کے تحت مدھوبنا گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ اور اس کا بھائی کیرالا کے ایک ریستوراں میں کام کرتے تھے۔ اس کی عمر 25 سال ہے اس نے پرائمری اسکول تک تعلیم حاصل کی، وہ صحیح طریقے سے دستخط بھی نہیں کرسکتا۔ وہ شادی شدہ ہے اور اس کی ایک سال کی بیٹی ہے۔ اس کے والد کا نام ابراہیم بسواس ہے اور وہ کما نہیں سکتے۔ ان کے دونوں بیٹے محنت مزدوری کرتے ہیں اور روزی کماتے ہیں۔ 19 ستمبر کو ریستوراں کے مالک نے انہیں اطلاع دی کہ این آئی اے نے ان کے بیٹے کو کیرالا کے ریستوراں سے گرفتار کیا ہے۔ پولیس نے کچھ نہیں کہا۔ ان کے اکاؤنٹ سے کوئی مشکوک لین دین نہیں ہوا تھا۔ان کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات تھانے میں جمع کرادی گئیں۔ پڑوسیوں کے مطابق یعقوب بسواس ایک سیدھا سادہ لڑکا تھا۔ وہ سخت محنت کرنے اور کھانے کے سوا کچھ اور کرتا تھا۔
دو بھائی عطا الرحمن اور مشرف حسین ضلع مرشِد آباد کے تھانہ جلنگی میں واقع گھوشپارہ گاؤں کے رہائشی ہیں۔ این آئی اے نے مرشد آباد سے عطا الرحمن اور کیرالا سے مشرف حسین کو گرفتار کیا۔ ان کے والد پیشہ سے کسان ہیں۔ مشرف حسین کیرالا میں ملازمت کرتے تھے۔ وہیں اپنے بیٹے اور بیٹی سمیت اپنے کنبے کے ساتھ مقیم تھے۔ عطاء الرحمن کی عمر 24 سال ہے۔ اس نے اپنا ڈی ایل ای ڈی مکمل کیا اور اب وہ گریجویشن کر رہا ہے۔ اس کے بھائی یوسف نے کہا کہ اسے کسی کو تکلیف دینا پسند نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی پڑھائی اور اپنے کریئر میں مصروف رہتا تھا۔ وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیوشنز پڑھاتا تھا اور مختلف مسابقتی امتحانات کی تیاری کر رہا تھا۔ اس کے بھائی نے کہا کہ 19 ستمبر کو این آئی اے کی ٹیم نے صبح تقریبا 2 بجے ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ انہوں نے گھر کا مرکزی دروازہ توڑا اور گھر میں داخل ہو کر تلاش شروع کر دی۔ وہ 30 منٹ سے زائد وقت تک گھر کی مکمل کی تلاشی لیتے رہے اور تمام کتابوں کو تباہ کر دیا۔ انہوں نے ایک اینڈروئیڈ فون، آدھار کارڈ، ووٹر کارڈ اور اکاؤنٹ کی کتاب چھین لی۔ انہیں ذاکر نائک کی ایک کتاب بھی ملی تھی جو میرے بھائی کو ایک ثقافتی تقریب میں اچھی طرح تلاوت کرنے پر بطور انعام ملی تھی۔ انہوں نے میرے بھائی سے مار پیٹ اور پوچھ گچھ شروع کر دی۔ مالکِ مکان کو یہ نہیں بتایا گیا کہ گرفتاری کی وجہ کیا ہے۔ میڈیا میرے بھائی کے بارے میں غلط خبریں پھیلا رہا ہے۔ وہ خبروں میں وہ نہیں دکھا رہے ہیں جو ہم کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میرا بھائی کسی عسکریت پسند گروپ سے وابستہ نہیں ہے۔ اس کے بھائی نے یہ بھی کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ میرے بھائی کی صحیح تحقیقات کی جائیں۔ اگر وہ واقعتاً قصوروار ہے تو ہم اس کی سزا کا مطالبہ کریں گے۔ ہم ملک دشمن سرگرمیوں کی حمایت نہیں کرتے ہیں اور اگر وہ بے قصور پایا گیا ہے تو اسے رہا کر دیا جائے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ہمارا بھائی بے قصور ہے۔مرشد حسن ضلع مرشد آباد کے گاؤں کلن نگر کا رہائشی ہے۔ عمر تقریباً 25 سال ہے۔ اس نے صرف پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کا باپ کھیتی باڑی کر کے خاندان چلاتا ہے۔ مرشد حسن اپنے تین بھائیوں میں بڑا ہے۔ وہ گاؤں میں تعمیراتی کام کرتا تھا۔ ایک سال قبل وہ کیرالا میں بطور میسن کام کرنے گیا تھا۔ این آئی اے ٹیم نے اسے کیرالا سے گرفتار کیا۔ اس کے والد نے کہا کہ پولیس نے ہمیں اس کی گرفتاری کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ ہمیں ٹی وی پر خبریں دیکھ کر پتہ چلا۔ انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا کسی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ نہیں ہو سکتا۔ وہ ایک بہت اچھا لڑکا تھا۔ وہ تھوڑا سا ذہنی طور پر پریشان رہتا ہے۔ برہما پور میں علاج چل رہا تھا۔ لڑکے کے بینک اکاؤنٹ سے کوئی مشکوک لین دین نہیں ہوا تھا۔ اس کی والدہ نے کہا کہ میرا بیٹا کبھی بھی دہشت گرد نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم کیا کہہ رہے ہیں یا ہمارے دیہاتی عزیز کیا کہہ رہے ہیں وہ خبریں شائع نہیں ہو رہی ہیں۔ میڈیا میرے بیٹے کے بارے میں غلط معلومات دے رہا ہے۔ ہمارے گھر کی حالت بہت خراب ہے، ہم کئی دن بھوکے رہتے ہیں۔ اگر میرا بیٹا دہشت گرد ہوتا تو ہم اس صورتحال میں ہوتے؟ پڑوسیوں کے مطابق مرشد حسن بہت اچھا لڑکا ہے اور وہ ایسا کام نہیں کرسکتا۔ میڈیا میں تمام جھوٹ پھیلائے جا رہے ہیں۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر6
ابو سفیان ضلع مرشد آباد کے رین نگر تھانہ کے ماتحت گاؤں کالی نگر مدھیہ پارہ کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ عمر قریب 45 سال ہے۔ ان کی کچھ بیگہ زمین کاشت کے لیے دی گئی اور وہ گاؤں میں درزی کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں گھریلو کارپینٹری، اینٹ بنانے کا کام وغیرہ کرنا بھی پسند تھا۔ وہ اپنے مذہب کی پیروی اختیار کیے ہوئے تھے۔ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں۔ ان کے پانچ بھائی ہیں جن میں سے دو سرکاری ملازم ہیں۔ سفیان کے والد ایک ہائی اسکول ٹیچر تھے۔ سفیان کے چار بیٹے ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا 15 سال کا ہے اور وہ ویلڈر کا کام کرتا ہے۔
19 ستمبر کی تقریبا ڈھائی بجے شب این آئی اے کی ٹیم نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ ان کی اہلیہ نے بتایا کہ این آئی اے کی ٹیم نے دروازہ کھٹکھٹایا اور گھر میں گھس گئے۔ پھر انہوں نے ان کے شوہر کو آہنی سلاخوں سے پیٹا یہاں تک کہ چھوٹے بچے کو بھی پیٹا۔ انہوں نے تمام مکان کی تلاشی لی اور ایک ویلڈنگ مشین ضبط کی، ٹن کاٹنے والی آری، کچھ چاکلیٹ بم ان کے میرے چھوٹے لڑکے نے عید کے لیے خریدے تھے۔ بینک پاس بک اور ایک موبائل فون ضبط کیا۔ اس کے بعد سفیان اور ان کے بھائی کو این آئی اے نے گرفتار کر لیا۔ تاہم، سفیان کے بھائی کو بعد میں رہا کردیا گیا تھا۔ ان کی اہلیہ نے مزید کہا کہ میڈیا میں میرے شوہر کا تعلق القاعدہ کی عسکریت پسند تنظیم سے بتایا جا رہا ہے جو کہ سراسر غلط پروپیگنڈا ہے۔ واٹس ایپ گروپ کے توسط سے جس نیٹ ورک کی بات کی جا رہی ہے وہ بھی ایک مکمل جھوٹ ہے۔ ہمارے گھر کے قریب انٹرنیٹ ٹاور ٹھیک سے کام نہیں کر رہا ہے وہ واٹس ایپ کیسے استعمال کر سکے گا؟ اس کے علاوہ سفیان کی بیوی نے کہا کہ دہشت گرد تنظیم کی جانب سے لاکھوں روپے بینک اکاؤنٹ میں بھیجنے کا پروپیگنڈا مکمل جھوٹ ہے آپ اکاؤنٹ چیک کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا میں گھر میں سرنگ بنانے کے بارے میں جو پروپیگنڈا کیا جارہا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ ان کے پڑوسیوں کے مطابق ابو سفیان ایک بہت اچھے آدمی تھے وہ کسی سے جھوٹ نہیں بولتے ہیں کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کرتے تھے ان کے پاس بڑا موبائل نہیں ہے وہ واٹس ایپ استعمال کیسے کریں گے؟ ان کے گھر میں جس سرنگ کی بات ہو رہی ہے وہ دیہاتی طرز کے ٹوائلٹ چیمبر ہے۔ اس علاقے میں سب لوگوں کے پاس اس طرح کے ٹوائلٹ چیمبر ہوتے ہیں۔ پڑوسیوں نے یہ بھی بتایا کہ سفیان کے گھر میں اسلحہ سازی کی فیکٹری ہونے کی خبریں سراسر غلط ہیں۔ ان کا گھر اتنا بڑا نہیں ہے جس میں اسلحے کی فیکٹری ہو سکتی ہے۔ اگر وہ ہوتی تو آس پاس کے لوگوں کو اس کی خبر ہوتی۔ان تمام گرفتار شدگان کے ساتھ این آئی اے کا سلوک انتہائی ناروا تھا۔ این آئی اے افسران، بشمول بی ایس ایف کے جوانوں اور سادہ لباس پولیس کے ساتھ مقامی پولیس کی ایک بڑی تعداد جو تقریباً 50 سے 60 افراد پر مشتمل تھی آدھی رات کو زبردستی گھروں میں داخل ہو کر چھاپے مارے۔صرف پولیس آفیسر اور بی ایس ایف کے علاوہ باقی سب نے عام لباس پہنے ہوئے تھے۔ عام لباس پہننے والوں میں سے کسی کے لباس میں کوئی شناختی کارڈ یا درجہ نہیں ملا۔ اتنا ہی نہیں وہ کہیں فوجیوں کی طرح دیواروں کے اوپر چڑھ گئے اور کہیں وہ دروازہ توڑ کر گھر میں داخل ہو کر آپریشن کیا۔ اس کے علاوہ وہ گرفتاری کے وقت ملزمان کے ساتھ جبر و تشدد سے بھی پیش آئے اور کچھ جگہوں پر گرفتاری کے دوران ان کے افراد خاندان بھی کو مارا پیٹا گیا۔ یہاں تک کہ کہیں کہیں گھر کے بچوں کو بھی پیٹا گیا ہے۔ لواحقین کے گھر والے کو ملزمان کی گرفتاری سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں دی گئیں۔ گرفتاری کی وجوہات تک نہیں بتائی گئی۔ گھر کے افراد کو یہ تک نہیں بتایا گیا کہ کون سی چیزیں ضبط کی گئیں۔ کہیں گھر والوں کے ساتھ ساتھ ایک وائٹ پیپر پر دستخط ہوئے ہیں۔ پھر کہیں پی پی (پولی پیکٹ جس میں ضبط شدہ چیزیں رکھی جاتی ہیں) یا خالی پولی پیکٹ پر گھر کے افراد سے جبراً دستخط حاصل کیے گئے ہیں۔
ان سب کے علاوہ میڈیا کے ایک گوشے کی جانب سے ان کی گرفتاری پر مسلسل من گھڑت پروپیگنڈا سلسلہ چلایا گیا۔ ان میں سے ایک کے گھر میں سرنگ ہونے اسلحہ کی فیکٹری ہونے کے بے بنیاد مفروضات پر مشتمل خبریں چلائیں گئیں۔ جس پر گرفتار شدگان کے گھر اور گاؤں والے بھی توہین محسوس کرتے ہوئے سخت احتجاج کر رہے ہیں۔ دوسری طرف این آئی اے ملزمان پر زبر دستی اقبالِ جرم کرنے کے لیے طرح طرح کے دباؤ ڈال رہی ہے۔ ملزمان کو گرفتار کرکے مغربی بنگال سے دلی لے جانے والی این آئی اے نے ان میں سے ایک ملزم عطاء الرحمن کو اعتراف جرم نہ کرنے پر غائب کردینے کی دھمکی دی ہے۔ ایسا صرف ان کے ساتھ ہی نہیں ہو رہا بلکہ دیگر ملزمان کو بھی اسی طرح کی کبھی گھر نہ واپس جا پانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ انہیں جھوٹے بیانات دینے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ان پر مذہبی ریمارکس کسے گئے اور گالیوں سے اہانت کی گئی۔ گرفتاری کے بعد راستے میں مرشد حسین کو اتنا مارا گیا کہ وہ راستہ میں بے ہوش ہوگئے۔ باقی ملزمان کے ساتھ بھی اسی طرح کی بربریت کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ ملزمان کے افراد خاندان پر اقبالیہ بیانات پر دستخط کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے ورنہ انہیں بھی گرفتار کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
’’ این آئی اے زبردستی ہمارے گھر میں داخل ہوئی، میرے بیٹے کو اٹھایا اور مارا پیٹا۔ اس کے بعد انہوں نے 30 منٹ تک گھر کی تلاشی لی اور اس کا شناختی کارڈ، مارک شیٹ اور ایک موبائل فون ضبط کرلیا۔ انہیں ہمارے گھر سے کچھ نہیں ملا لیکن خبروں میں جھوٹ بولا گیا کہ انہیں بم بنانے کا سامان ملا‘‘۔ ( لوئی یان احمدکی ماں)
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020