القاب کی چوری

تربیت کی کمی اور خود نمائی ’ٹائٹل گریبنگ‘ کی وجہ

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

 

دنیا کا سارا کارخانہ جو آسمان سے زمین تک پھیلا ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نظامِ عدل وانصاف پر قائم ہے۔ عدل وانصاف بہت ہی اہم صفت ہے جس کی بڑی تاکید قرآن وحدیث میں کی گئی ہے اور صفتِ عدل کو ہر حال میں اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ان اللہ یامر بالعدل والاحسان (النحل:۹۰) ’’بے شک اللہ انصاف اور نیکی کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘۔ عدل کرنا قانون کا تقاضہ ہے اور احسان کرنا اخلاق کا مطالبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نظمِ عالم کو قائم رکھنے کے لیے سب سے پہلے عدل کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے بعد احسان کی تاکید کی ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں عدل وانصاف کرنے کا حکم ہے یہاں تک کہ غیروں کے ساتھ بھی اور مخالفین کے ساتھ بھی عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی (المائدہ :۸) ’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کا رویہ اختیار کرو یہی تقویٰ سے قریب ہے‘‘۔ اسلام یہ مزاج بنانا چاہتا ہے کہ اگر کوئی تمہارا دشمن بھی ہے تو اس کے ساتھ بھی تمہارا رویہ عادلانہ اور منصفانہ ہونا چأہیے، اس کے ساتھ ظلم اور زیادتی کا رویہ بالکل نا روا ہے۔ چوں کہ اس کے ساتھ دشمنی پہلے سے موجود ہے اس لیے اس بات کا اندیشہ ہے کہ ایک شخص اس کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے انصاف کے پل صراط پر نہ چل سکے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس شخص کے ساتھ دشمنی تمہیں انصاف کی جگہ سے ہٹا دے۔۔ اور اسی طرح سے یتیموں کے لیے بھی انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے: وَأَن تَقُومُواْ لِلْیَتَامَی بِالْقِسْط (النساء:۱۲۷) ’’اور یہ کہ یتیموں کے حق میں انصاف کو ملحوظ رکھو‘‘ قرآن کا حکم ہے کہ عدل کرو۔ تعدد ازواج کی اجازت ہے لیکن عدل کی شرط کے ساتھ: فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُم (النساء:۳) ’’پھر اگر تم کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ کئی بیویوں کی موجودگی میں انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی بیوی پر قناعت کرنا یا وہ لونڈی جو تمہارے قبضہ میں ہو‘‘۔ عدل وانصاف کی ضرورت ہر شخص کو ہر وقت، ہر روز ہو سکتی ہے۔ روزانہ کی خرید وفروخت میں صحیح وزن اور پیمانے کا خیال رکھنا بھی عدل وانصاف کے دائرے کی چیز ہے۔ انسان تنخواہ تو پوری لے اور کام پورا نہ کرے یہ بھی عدل کے خلاف ہے۔ عام طور پر کام اور دام کا رشتہ نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: وَأَوْفُواْ الْکَیْْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْط (الانعام:۱۵۲) ’’اور انصاف کے ساتھ ناپ تول کرو اور پورا پورا تولو‘‘۔ عدل وانصاف کے مطابق آدمی کا سلوک اور رویہ ہونا چاہیے، علم اور کردار میں بھی اور قول وقرار میں بھی۔ کسی کے بارے میں کوئی رائے دینی ہو تو اس میں بھی اعتدال اور توازن ہونا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں اعتدال اور توازن کی کمی ہے۔ ہمارا حال یہ ہو گیا ہے کہ کوئی ادارہ ہمارے قبضہ میں آتا ہے اور اپنی جان توڑ کوششوں کے بعد اس کے ذمہ دار بنا دئے جاتے ہیں تو ادارہ کے چمن کو جن لوگوں نے خون دل سے سینچا تھا ان کو ہی فراموش کر دیتے ہیں اور صرف اپنا اور اپنے باپ دادا کا نام روشن کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ یہ عدل کے خلاف ہے اور ظلم ہے۔ ہمارا حال یہ ہوگیا ہے کہ ہم بہت آسانی سے کسی گروہ اور جماعت کی مذمت میں ضال (گمراہ) اور مضل (گمراہ کن) ہونے کا الزام عائد کر دیتے ہیں اور اس کی خدمات کو نظر انداز کر دیتے ہیں یہ بھی عدل و انصاف کے خلاف ہے۔ ہم بہت آسانی سے کسی شخصیت کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، دو دو تین تین سطروں میں القاب لکھتے ہیں جب کہ وہ اس کا مستحق نہیں ہوتا ہے یہ بھی عدل کے خلاف ہے۔ جس شخص کا پچاس صفحہ کا بھی کوئی علمی تحقیقی کام نہ ہو وہ اپنے آپ کو مفکر اسلام اور محقق اسلام کہلوانے لگتا ہے یہ بھی عدل کے خلاف ہے۔ جس طرح سے کسی محترم شخصیت کی مسند پر بیٹھنا ادب کے خلاف ہے اسی طرح سے کسی معروف شخصیت کے لیے رائج مشہور لقب کو اپنے لئے اختیار کرلینا بھی احترام کے خلاف ہے اور ادب کے منافی ہے اور لقب کی چوری ہے۔ اب شاعر اسلام (علامہ اقبال ) یا امام الہند (مولانا آزاد) یا شیخ الاسلام (مولانا حسین احمد مدنی) یا حکیم الاسلام (قاری طیب قاسمی) یا مفکر اسلام (مولانا ابو الحسن علی ندوی) بعض نمایاں و معروف شخصیتوں کے معروف القاب ہیں ان القاب کا اپنے لیے استعمال کرنا شوخی وگستاخی اور ناروا جسارت ہے۔ لینڈ گریبنگ Land grabbing کی طرح یہ ٹائٹل گریبنگ ہے۔ دوسروں کا ٹائٹل یعنی لقب اختیار کر لینا ایسا ہی معیوب ہے جیسا دوسرے کی مسند پر جا بیٹھنا خلاف ادب ہے۔ انسان ایسا تربیت کی کمی کی وجہ سے کرتا ہے۔ زیرِ قلم تحریربھی لوگوں کی تربیت کے مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ آدمی کی عزت علم اور اخلاق سے ہوتی ہے لیکن نادان یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی کی عزت محض بلند وبالا القاب اختیار کر لینے سے ہوتی ہے۔ لقب چوری کرنے والا شخص ’’بکف چراغ دارد ‘ ‘ ‘ تو ہوتا ہے لیکن ایک دن کے لیے بھی ’’بکف کتاب دارد‘‘ نہیں بنتا۔ ایک دن کے لیے بھی وہ محرمِ کتاب اور محرمِ علم نہیں بنتا۔ لیکن سلب ونہب کی عادت کی وجہ سے مفکر اسلام بآسانی بن جاتا ہے۔ غصب کردہ القاب کو دیکھ کر زبان پر یہ شعر آ جاتا ہے:
بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
***

آدمی کی عزت علم اور اخلاق سے ہوتی ہے لیکن نادان یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی کی عزت محض بلند وبالا القاب اختیار کرلینے سے ہوتی ہے۔ لقب چوری کرنے والا شخص ’’بکف چراغ دارد ‘ ‘ تو ہوتا ہے لیکن ایک دن کے لیے بھی ’’بکف کتاب دارد‘‘ نہیں بنتا۔ ایک دن کے لیے بھی وہ محرمِ کتاب اور محرمِ علم نہیں بنتا۔ لیکن سلب ونہب کی عادت کی وجہ سے مفکر اسلام بآسانی بن جاتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021