افتراق و انتشار سے تائید غیبی کا حصول ناممکن

فرقہ بندی ملت کے لیے زہر ہلاہل

ابو فہد، نئی دلی

 

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’اہل کتاب بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور مسلمان تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائیں گے، ان میں سے ایک کے سوا سب جہنمی ہوں گے اور وہ ایک فرقہ وہ ہو گا جس پر ’’الجماعۃ‘‘ کا اطلاق ہو گا۔
(اس حدیث کو کئی صحابہ نے کئی طرق کے ساتھ روایت کیا ہے)
یہ حدیث شریف جس پیرائے میں کلام کر رہی ہے، اس میں زور اس بات پر ہے کہ ہر شخص اور ہر گروہ کو اپنی خیر منانی چاہیے۔ ہر گروہ اور ہر شخص اپنے بارے میں سوچے کہ اس پر ’الجماعۃ‘ یا الجماعہ سے انسلاک کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو کس حد تک ہوتا ہے۔
مگر اس کے برخلاف ہو یہ رہا ہے کہ ہر شخص اور ہر گروہ دوسرے شخص اور دوسرے گروہ کے بارے میں سوچ رہا ہے کہ کن کن گروہوں، تنظیموں اور جماعتوں پر اور کن کن افراد پر’’الجماعۃ‘‘ کا اطلاق ہو سکتا ہے یا ہو رہا ہے اور کن کن پر نہیں ہو رہا ہے۔ ہماری مرکزی سوچ یہی بنی ہوئی ہے۔جبکہ صحابہ کرام کا رویہ اور انداز یہ تھا کہ ان میں سے ہر کوئی اپنی خیر مناتا تھا اور اپنے ہی بارے میں سوچتا تھا یہاں تک کہ ان میں سے کئی ایک کو بعض دفعہ اپنے تعلق سے نفاق کا گمان بھی گزر جاتا تھا ۔
اس حدیث شریف کے الفاظ (وھی الجماعۃ) چیخ رہے ہیں کہ تم اپنی خیر منانا، اپنے بارے میں ہمیشہ غور کرتے رہنا ہے کہ تم ’الجماعۃ‘ سے ہو یا نہیں، تم رسول اور اصحاب رسول ﷺ کے طریقے پر ہو یا نہیں؟
یہ حدیث بنیادی طور پر افتراق کو نہیں بتاتی جیسا کہ عام طور پر سمجھا گیا ہے بلکہ افتراق سے بچنے کی دعوت دیتی نظر آتی ہے اور نہ صرف دعوت دیتی نظر آتی ہے بلکہ ایک کارگر نسخہ بھی بتاتی نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر آدمی ’الجماعۃ‘ سے منسلک رہنے کی کوشش کرے اور ہر گروہ یہ دیکھے کہ اس کے اندر ’الجماعۃ‘ کی صفات پائی جاتی ہیں یا نہیں اگر پائی جاتی ہیں تو کس حد تک پائی جاتی ہیں اور نہیں پائی جاتیں تو اس کے تدارک کی کیا تدابیر ہو سکتی ہیں؟
کیسی تعجب خیز بات ہے کہ ہم مسلمانوں نے اس حدیث کو ایک دوسرے کی نکیر اور تکفیر کی بنیاد بنالیا ہے۔ حالانکہ اس میں اسی طرح کی خبر ہے جس طرح کی خبر رسول اللہ ﷺ نے خلافت کے تعلق سے دی ہے کہ تیس سال خلافت رہے گی اور پھر اس کے بعد ملوکیت ہو گی۔ اور جس طرح فتنوں کے تعلق سے خبر دی ہے اور پھر ان سے بچنے کی تدابیر بھی بتائی ہیں۔
اس نوعیت کی بیشتر احادیث میں قانون فطرت اور سنۃ اللہ کے حوالے سے کسی نہ کسی ’’ہونی‘‘ کا ذکر ہے اور اس ’’ہونی‘‘ سے بچنے کی تلقین ہے۔ فتنے ہوں گے مگر فتنوں سے خود کو بچانا ہو گا جس طرح موت ایک ہونی شئے ہے باوجود اس کے کہ یہ سنۃ اللہ ہے مگر کوئی بھی موت کو اپنے اوپر طاری کرنا نہیں چاہے گا اور نہ ہی ایسا کرنا مطلوب ہے بلکہ یہ گناہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنے آپ پر زبردستی کی موت طاری کرنے کی کوشش کرے۔ اسے تو اسلام میں خود کشی کہا گیا ہے اور خود کشی حرام ہے۔ اسی طرح تہتر فرقوں والا قولِ رسول بھی ایک امر واقعہ یا ایک ’ہونی‘ کو بتانے اور اس سے خبردار کرنے کے لیے ہے۔ اس حدیث میں پہلے ایک نابکار چیز کی خبر دی گئی ہے کہ مسلمان بھی دیگر اقوام کی طرح ملتوں اور گروہوں میں بٹ جائیں گے اور پھر اس کا علاج بتایا ہے کہ انتشار کے زمانے میں ’الجماعۃ ‘سے منسلک رہنا ہے۔
اب یہ غور وفکر کا موضوع ہے کہ ’الجماعۃ ‘ کیا ہے، اس کی صفات اور خصوصیات کیا ہیں؟ اور یہ سب بھی قرآن وسنت کی روشنی میں بڑی آسانی کے ساتھ طے ہو جائے گا۔ پھر اس پر غور وفکر کرنا ہوگا کہ ’الجماعۃ‘ سے منسلک رہنے کی کیا سبیل ہوگی اور کیا تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی، کس طرح کی قربانیاں دینی ہوں گی اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ وہ افراد اور گروہ جو ’الجماعۃ‘ کے پلیٹ فارم سے دور جا پڑے ہوں ان کو الجماعۃ کے ساتھ پھر سے منسلک کرنے کے لیے کس قسم کی مصلحتیں اور تدابیر اختیار کرنی ہوں گی۔ یقیناً افہام وتفہیم کی کارگر تدابیر کو ہی آگے بڑھانا ہو گا۔ لیکن اگر وہ کسی بھی طرح مان کر نہیں دیتے تو ان کے ساتھ عصری مسائل اور خاص کر مسلم امت کے خلاف موجودہ وقت کی عالمی ومقامی سیاست کے معاندانہ برتاؤ اور رویوں کے دور عروج میں کس طرح کارویہ رکھنا مناسب اور بہتر ہو گا۔
اس حدیث شریف کی رو سے امت مسلمہ کے ہر فرد اور مذہبی جماعت کا کام یہ ہے کہ وہ اس ہونی سے خود کو بچائے رکھے۔ ہر مسلمان کی اور ہر جماعت کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اس کی اپنی ذات سے، اس کے اپنے استدلال سے، اس کے اپنے اجتہاد سے اور اس کے اپنے فکر ونظر اور عمل سے کوئی بھی ایسی بات پیدا نہ ہو جو خود اس کو اور امت کے ایک فرد کو بھی ’الجماعۃ‘ سے الگ کرنے کا بالواسطہ یا بلا واسطہ ذریعہ بننے والی ہو۔ اس حدیث شریف میں کہیں سے کہیں تک بھی کاٹنے کی بات نہیں ہے بلکہ سر تاسر جوڑنے کی بات ہے کہ جو بھی جماعت کے ساتھ رہے گا وہ کامیاب رہے گا۔
’’الجماعۃ ‘‘کا لفظ ایک اور حدیث میں بھی آیا ہے فرمان نبوی ﷺ ہے:
” لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ اُمَّتِیْ عَلٰی ضَلَالَة اَبَداً، وَیَدُاللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَة ”
(المستدرک الحاکم ج1 ص116ح۳۹۹ وسندہ صحیح)
’’اللہ میری اُمت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے‘‘
امت کو گمراہی پر جمع نہ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ امتِ مسلمہ کا سواد اعظم گمراہی پر جمع نہیں ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں حق سواد اعظم کی طرف ہو گا، جزوی طور پر کچھ چیزیں کچھ اعمال سواد اعظم میں غلط رواج پا سکتے ہیں مگر واضح طور پر کفر وشرک پر مبنی رسومات سواد اعظم میں رواج نہیں پا سکتیں۔
حدیث کے دوسرے جزو ’’ید اللہ علی الجماعۃ‘‘ سے مراد یہی ہے کہ اللہ کی مدد اتحاد واتفاق اور تنظیم وجماعت کے ساتھ ہے۔ بکھرے ہوئے تسبیح کے دانوں کی طرح منشر ملت یا قوم اللہ کی مدد، تائید اور رحمت سے دور ہو گی۔ بے شک الگ تھلگ پڑے ہوئے، اجتماعیت سے کٹے ہوئے اور منتشر وبکھرے پڑے افراد کے ساتھ اللہ کی تائید غیبی نہیں ہے، چاہے ان کی تعداد زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ بے شک اللہ کی تائید غیبی اور غیر طبعی طریقوں سے بھی آتی ہے، خاص کر انبیاء کرام کے پاس اللہ کی مدد غیبی طریقوں سے یعنی خرق عادت طریقوں سے بھی آتی رہی ہے۔ قرآن میں ہے: فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَ لکِنَّ اللهَ قَتَلَهُمْ وَ ما رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَ لکِنَّ اللهَ رَمى وَ لِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً إِنَّ اللهَ سَمِیعٌ عَلِیم (الانفال:۱۷) لیکن اپنے بندوں کی مدد کرنے کا اللہ کا یہ راستہ خاص ہے اور شاذ ہے۔ اس کے برعکس اللہ کی مدد عمومی طور پر فطری راستوں سے آتی ہے۔ بندہ مؤمن محنت کرتا ہے تو اللہ اس کے عمل میں برکت ڈال دیتا ہے، وہ جد وجہد کرتا ہے، جہاد کرتا ہے اور اجتہاد کرتا ہے تو وہ بامراد ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے عمل سے خلق کثیر کو نفع پہنچاتا ہے۔ وہ کھانا کھاتا ہے تو اللہ اس کھانے سے اس کے اندر توانائی پیدا کر دیتا ہے۔ وہ بیج بوتا ہے اور اللہ اسے ہرا بھرا درخت اور لہلہاتی فصل بنا دیتا ہے، وہ بولتا ہے اور اللہ اس کی زبان میں قوت و تاثیر رکھ دیتا ہے۔ فطری اور طبعی اصول وقوانین یہی بتاتے ہیں کہ جو کام اجتماعیت کے ساتھ کیا جاتا ہے، آپس کے صلاح ومشورے کے ساتھ کیا جاتا ہے، تو وہ کام تیر بہ ہدف ثابت ہوا ہے، رکاوٹیں ختم ہو جاتی ہیں، نقص زائل ہو جاتا ہے اور منزل قریب آجاتی ہے، جبکہ انفرادی طور پر اگر کوئی کام کیا جاتا ہے تو اس میں خامیاں رہ جاتی ہیں، اس میں جامعیت نہیں آپاتی اور کئی بار وہ تشنہ وناکارہ رہ جاتا ہے۔ یہی مطلب ہے ’’ید اللہ علی الجماعۃ‘‘ کا نہ کہ اللہ فرد کی مدد نہیں کرے گا بلکہ صرف جماعت کی مدد کرے گا۔
الجماعۃ سے مراد جمہور امت ہیں اور اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرف ایسے مسلمانوں کی اکثریت ہو جن پر حقیقی مسلمان ہونے کی شہادتیں پوری ہوتی ہوں جیسے نماز کا قیام وغیرہ اور وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوں تو ہر اس شخص کو جو خود کو مسلمان کہتا ہو واجب ہے کہ وہ جمہور امت سے منسلک رہنے کی پوری کوشش کرے۔ اور کبھی بھی جمہور امت سے الگ نہ جائے، بھلے ہی اس کا علم اور اس کا اجتہاد اسے کچھ بھی بتائے اور کچھ بھی سکھائے۔ اگر اس کی رائے الگ تھلگ بن رہی ہے اور اس کا نظریہ ورجحان منفرد بن رہا ہے اور پھر وہ اس نوعیت کا بھی ہے کہ اس سے اجتماعیت پارہ پارہ ہو سکتی ہو اور امت میں انتشار پھیل سکتا ہو تو اس کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اپنی رائے سے رجوع کر لے۔ اگر رجوع نہ بھی کرے تو کم از کم اتنا تو ضرور کرے کہ بیان کرنے کی حد تک اپنی رائے اور خیال کو بیان کرے اور پھر خاموشی کی چادر اوڑھ لے۔
ہمارے یہاں یہ بھی ایک غلط روش چل پڑی ہے کہ کسی کے تفردات کی بنیاد پر اسے جمہور امت سے الگ سمجھا جائے۔ یہاں ہر کوئی دوسروں کو جمہورت امت سے الگ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ ذرا سا کسی کا اجتہاد اور عمل اپنے مسلک کے خلاف دیکھا اسے جمہور امت سے نکال پھینکا۔اگر جمہور امت میں کچھ خرابیاں ہوں تو انہیں درست کرنے کی فکر ضرور ہونی چاہیے مگر ان برائیوں اور خرابیوں کو بنیاد بنا کر جمہور امت سے الگ تھلگ نہ جا پڑیں اور اپنی الگ سے کوئی جماعت یا جمعیت نہ بنائیں، بنائیں بھی تو وہ بہتر متبادل کے طور پر ہوں اور سپورٹ کرنے والی ہوں، نہ کہ الگ تھلگ پڑ جانے والی۔
یہی وہ ’’الجماعۃ‘‘ یعنی جمہور امت ہے جس کے ساتھ اللہ کی مدد کا وعدہ ہے اور جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی زبانی یہ شہادت دی گئی ہے کہ وہ کبھی بھی برائی پر جمع نہیں ہو سکتی۔ یعنی یہ تو ممکن ہے کہ اس آخری امت کے کچھ افراد صراط مستقیم سے بہک جائیں، ان کے عقائد میں فساد پیدا ہو جائے یا پھر ان کے نظریات بدل جائیں اور وہ صراط مستقیم سے دور جا پڑیں۔ مگر ایسا نہیں ہو سکتا کہ پوری کی پوری امت گمراہیوں کے عمیق غار میں جا گرے جیسا کہ پہلی امتوں کے ساتھ ہوا کہ ان کے اکثر افراد نے وقت کے ساتھ اپنے پیغمبر کی تعلیمات کو بھلا دیا اور کفر وشرک میں مبتلا ہو گئے۔
اس حدیث کی رو سے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر زمانے میں تہتر فرقے موجود رہیں۔ فرقے بنتے، بگرتے اور مٹتے مٹاتے بھی رہتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ امت کی پوری زندگی میں کثیر تعداد میں فرقے پیدا ہونے کی طرف اشارہ ہو، ہو سکتا ہے کوئی زمانہ ایسا بھی گزرے جس میں فرقے بہت کم ہوں اور پھر دوسرے کسی وقت میں بہت زیادہ فرقوں کا ہونا بھی ممکن ہے۔ جن میں سے کچھ کم مدت کے لیے اور کچھ زیادہ مدت کے لیے بھی ہو سکتے ہیں۔ قرآن واحادیث کے جو مصداقات اور تطبیقات قطعی نہیں ہیں انہیں قطعی بنا کر پیش کرنا بھی بعض اعتبارات سے غلط ہے۔ اگر حدیث میں کوئی بات عمومی انداز کی ہے تو اسے عموم پر ہی رکھنا بہتر ہے، اگر حدیث شریف میں حضور ﷺ کے بعد کے زمانے میں ظہور پذیر ہونے والے کسی واقعہ، حادثے یا کسی نوعیت کی فتح وہزیمت کا ذکر ہے اور اس کی تعیین کر پانا ممکن نہیں ہے تو اسے بنا کسی تعیین کے بیان کرنا ہی بہتر ہے۔ یہ تو غلط ہو جائے گا کہ ہمارے زمانے میں ظہور پذیر ہونے والے کسی وقوعہ کے متعلق ہم اپنی صوابدید پر کہیں کہ فلاں قول رسول ﷺ کا مصداق یہی وقوعہ ہے اور فلاں حدیث میں اسی کا تذکرہ ہے اور فی الواقع ایسا نہ ہو۔
اس لیے فرقہ ناجیہ و غیر ناجیہ کی پہچان کرنا اور پھر حکم لگانا درست نہیں، کیونکہ کسی فرد یا جماعت کے پاس اس کی اتھاریٹی نہیں ہے۔ جس طرح کوئی شخص خود اپنے تعلق سے جنتی ہونے کا اعلان نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی جماعت اپنے حوالے سے ایسا کوئی حتمی اعلان کر سکتی ہے، اسی طرح وہ کسی دوسرے کے بارے میں بھی جہنمی ہونے کا اعلان نہیں کر سکتا الا یہ کہ کوئی شخص یا جماعت کفر بواح کو اختیار کر لے۔ البتہ برے اعمال کی نفی اور ان پر نکیر ضرور کی جائے گی۔ اگر مسلمانوں میں یہ سوچ پیدا ہو جائے کہ وہ دوسروں کے بجائے اپنے بارے میں سوچنے لگیں تو بہت جلد ایسا ہو گا کہ ساری کی ساری ملت ایک ہی طرح کی سوچ کی حامل بن جائے گی اور ان کے اندر بھی صحابہ کرام والی شان پیدا ہو جائے گی۔
یہ شان پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر مسلمان اپنے لیے عزیمت اور فضیلت تلاش کرے اور دوسرے کے لیے رخصت اور اجازت رکھے۔ دوسروں کے لیے عذر تلاش کرے، تاویل کرے اور انہیں رخصت دے اور اپنے لیے عزیمت رکھے، حیلے بہانے، قیل وقال اور بے جا تاویلات سے گزیز کرے۔ اس کا ایک بڑا نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ اگر ہر مسلمان اسی سوچ کو اپنا لے گا تو ہر مسلمان عزیمت پر آجائے گا۔ ان شاء اللہ
اس حوالے سے مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی ایک مختصر تحریر بڑی چشم کشا ہے، مولانا نے اسے اپنے زندگی بھر کے مطالعہ کا نچوڑ بتایا ہے۔ ہم اسی پر اپنے مضمون کا اختتام کرتے ہیں۔
’’تیسری بات جو بہت تجربہ کی ہے وہ یہ ہے کہ میں نے بھی کتابیں پڑھی ہیں، اسلام کے مذاہبِ اربعہ اور ان سے باہر نکل کر تقابلی مطالعہ کیا ہے، شاید کم ہی لوگوں نے اس طرح کا مطالعہ کیا ہو۔ان تمام کے مطالعے کے نچوڑ میں ایک گُر کی بات بتاتا ہوں کہ جمہور اہلِ سنت کے مسلک سے کبھی نہ ہٹیے گا۔ اس کو لکھ لیجیے، چاہے آپ کا دماغ آپ کو کچھ بھی بتائے، آپ کی ذہنیت آپ کو کہیں بھی لے جائے، کیسی ہی قوی دلیل پائیں جمہور کے مسلک سے نہ ہٹیے۔ اللہ تعالیٰ کی جو تائید اس کے ساتھ رہی ہے، جس کے شواہد وقرائن ساری تاریخ میں موجود ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو اس دین کو باقی رکھنا تھا اور باقی رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی اصل حالت پر قائم رہے، ورنہ بدھ مذہب کیا باقی ہے، عیسائیت کیا باقی ہے؟ عیسائیت کے بارے میں قرآن کا ’ولا الضالین‘ کہنا ایک معجزہ ہی ہے، یعنی وہ پٹری سے بالکل ہٹ چکی تھی اور اللہ تعالیٰ نے چونکہ اس دین اسلام کے بارے میں فرما دیا ہے ’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ‘ اور اس کے ساتھ جو تائید ہے، جو قوی دلائل ہیں، جو سلامتِ فکر اور سلامتِ قلب ہے، اس کے ساتھ جو ذہین ترین انسانوں کی محنتیں اور غور وخوض کے نتائج ہیں اور ان کا جو اخلاص ہے اور ذہن سوزی ہے، وہ کسی مذہب کو حاصل نہیں ہے۔ یہ وہ بات ہے جو ہمارے اور آپ کے استاد مولانا سید سلیمان ندویؒ نے اپنے بعض شاگردوں سے کہی تھی، جیسا کہ مولانا اویس صاحب نقل کرتے تھے اور سید صاحب سے ان کے استاد مولانا شبلیؒ نے کہی تھی۔ بعض لوگ چمک دمک والی تحریر پڑھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔’ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ ‘ (بعض لوگوں کی باتیں تم کو دنیا میں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، حالانکہ اللہ ان کے دل کے حال سے آگاہ ہے) اور شہیدوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہیں علمائے سلف کا مذاق اڑاتے ہیں، کہیں مفسرین ان کے تیر کا نشانہ بنتے ہیں۔ لہذا مسلک جمہور سے اپنے کو وابستہ رکھیے، اس کا بڑا فائدہ ہوگا، اللہ کی خاص عنایت ہو گی، اس کی نصرت وبرکت ہو گی اور حسنِ خاتمہ بھی ہوگا۔
(خطباتِ علی میاں، ج1، ص 348- 349)
***

ہر مسلمان اپنے لیے عزیمت اور فضیلت تلاش کرے اور دوسرے کے لیے رخصت اور اجازت رکھے۔ دوسروں کے لیے عذر تلاش کرے، تاویل کرے اور انہیں رخصت دے اور اپنے لیے عزیمت رکھے، حیلے بہانے، قیل وقال اور بے جا تاویلات سے گزیز کرے۔ اس کا ایک بڑا نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ اگر ہر مسلمان اسی سوچ کو اپنا لے گا تو ہر مسلمان عزیمت پر آجائے گا۔ ان شاء اللہ

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021